چند مہینے قبل سپریم کورٹ کے جس فیصلے نے بہت زیادہ تکلیف دی تھی۔ اس پر نظرثانی میں الحمد للہ کسی حد تک تلافی ہوگئی ہے۔ پانچ رکنی نظرثانی بنچ میں چار ججز کا اس فیصلے پر اتفاق تھا کہ نظرثانی کی درخواستیں تو مسترد کی جائیں۔ لیکن “مکمل انصاف” یقینی بنانے کےلیے برطرف شدہ ملازمین کی بحالی یقینی بنائی جائے۔ یوں تقریبا 16 ہزار ملازمین کی بحالی ممکن ہوگئی ہے۔ جبکہ ساتھ یہ کوشش بھی کی گئی کہ دیگر ملازمین کے حقوق اس بحالی سے متاثر نہ ہوں۔
اس طرح ایک بہت بڑی غلطی کی تلافی ہوگئی ہے۔ لیکن اس مختصر حکم نامے کا جائزہ لینے سے میرا تاثر یہ بنا ہے چار جج صاحبان بنیادی غلطی تسلیم کر لیتے۔ یعنی انھیں چاہیے تھا کہ نظرثانی کی درخواستیں بھی اس حد تک قبول کرلیتے۔ جس حد تک (اختلافی نوٹ لکھنے والے) جسٹس منصور علی شاہ نے کیں۔ کیونکہ یہ بنیادی غلطی مان لینے کے بعد نظرثانی کی درخواستیں یکسر مسترد کردینے کی کوئی تک بنتی نہیں تھی۔ تفصیلی تبصرہ تبھی ممکن ہوگا جب تفصیلی فیصلہ آئے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
سقوط ڈھاکا: مغربی پاکستان کیا جانتا تھا جب مجیب کو غدار ٹھہرایا گیا
فراق گورکھپوری: شخص اور شاعر: ڈاکٹر تقی عابدی کی گفتگو
راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی بھوک
اس وقت تو اتنے پر ہی اکتفا کرسکتے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ میری ناقص راے میں قانون کی صحیح پوزیشن بیان کرتا ہے۔ انھوں نے اس اصول سے آغاز کیا ہے کہ قانون سازی مقننہ/پارلیمنٹ کا اختیارہے اور عدالتوں کو مقننہ کا یہ اختیار ماننا چاہیے۔ لیکن یہ اختیار مطلق نہیں ہے۔ چنانچہ اگر قانون ان بنیادی حقوق سے متصادم ہو جن کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے، تو تصادم کی حد تک عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
اس لیے جس قانون کے تحت ان ملازمین کی بحالی کی گئی تھی، اس کو یکسر ختم کرنا درست نہیں تھا۔ بلکہ اسے صرف بنیادی حقوق سے تصادم کی حد تک ہی کالعدم کیا جاسکتا تھا۔
اس اصولی بنیاد پر جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی کی درخواستیں قبول کرتے ہوئے ان حدود کے اندر ملازمین کی بحالی کا فیصلہ سنایا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا یہ فیصلہ چونکہ اقلیتی ہے، اس لیے نافذ اکثریتی فیصلہ ہی ہوگا۔ لیکن (چیف جسٹس ہیوژ کے الفاظ میں) یہ اختلافی نوٹ مستقبل کے ضمیر کو آواز دیتا رہے گا۔ شاید مستقبل میں اس غلطی کی مکمل تلافی ممکن ہوسکے جو نظرثانی میں اکثریتی فیصلے کے باوجود بھی کسی حد تک باقی ہے۔
جس فیصلے پر یہ نظرثانی کا فیصلہ آیا ہے۔ وہ مقدمے کی سماعت پوری ہونے کے کئی سال بعد سنایا گیا تھا ۔ اس لحاظ سے بھی بڑا ظلم تھا۔ پھر اس نے جس طرح ملازمین کو دھچکا دیا، شاید اس کی تلافی کبھی نہ ہوسکے۔ “مکمل انصاف” کےلیے تو روزِ آخرت ہی ہے۔ لیکن جسٹس منصور علی شاہ جیسے اصولی فیصلے کرنے والے جج صاحبان جب تک موجود ہیں، ہمیں ہزار کمزوریوں کے باوجود اپنے نظامِ عدل سے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
Dissenting is “an appeal to the brooding spirit of
the law, to the intelligence of a future day, when a later decision may possibly correct the error into which the dissenting judge believes the court to have been betrayed.”