میں پچھلے کچھ عرصے میں، بارہا اپنی کئی پوسٹس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سفید پوش طبقے میں بڑھتی ہوئی بھوک اور افلاس کی نشان دہی کررہا ہوں جو آہستہ آہستہ خطرے کی حدوں سے باہر نکل رہی ہے
٭٭٭٭٭
ایک واٹس ایپ گروپ پر کسی دوست نے پاکستانی ڈرامے کا یہ کلپ آج شئیر کیا تھا۔ میں نے بہت دن سے ڈرامے دیکھنے چھوڑ دئیے ہیں لیکن اس کلپ نے مجھے حیران کردیا۔ صرف اس لیے نہیں کہ اداکاری اور پروڈکشن کا معیار بہت عمدہ ہے بلکہ اس لیے بھی کہ حقیقت کی بھی یہاں بہترین عکاسی کی گئی ہے۔
میں پچھلے کچھ عرصے میں، بارہا اپنی کئی پوسٹس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سفید پوش طبقے میں بڑھتی ہوئی بھوک اور افلاس کی نشان دہی کررہا ہوں جو آہستہ آہستہ خطرے کی حدوں سے باہر نکل رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
خلافت کا بوجھ اٹھایا نہیں جاتا تو پتھر چوم کر چھوڑ دیں
حق دو تحریک معاہدے میں کمزوریاں کیا ہیں؟
مانگنے والوں کی بڑھتی تعداد
میرے پاس ان باکس میں راشن مانگنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جوں جوں لوگوں کو پتا چل رہا ہے کہ میں حتی الوسع اپنی جانب سے اور دوستوں کی معاونت سے، کچھ مدد کردیتا ہوں۔ اسی نسبت سے ان باکس کی خاموش التجائوں کا سلسلہ بھی دراز ہورہا ہے۔ یہ میری استطاعت سے باہر ہے۔
اس وقت بھی شمس آباد، راولپنڈی کی ایک یتیم بچی کے کئی میسیجز آچکے ہیں جو بار بار پوچھ رہی ہے کہ سر! راشن کب پہنچے گا۔ گھر میں کھانے کی بہت تنگی ہے۔ پرانا قلعے کے پاس ایک مارکیٹ میں قائم مسجد کے نوجوان امام کا بھی ایسا ہی میسیج ملا ہے۔ جس کی بیوی حاملہ ہے اور اس کے پاس گھر میں کھانا کھلانے اور علاج کرانے کے پیسے نہیں ہیں۔ کیونکہ مسجد کمیٹی، امام کو صرف پانچ ہزار روپے مہینا تنخواہ دیتی ہے۔ کچھ پیسے وہ بچوں کو قرآن پڑھا کر کماتا ہے۔ مگر وہ بھی پورے نہیں ہورہے۔
ایک پینتیس سال کی بیوہ افغان عورت کے بارے میں کسی نے بتایا جو راجا بازار کی طرف ایک کمرے میں رہتی ہے۔ وہ راشن اور گرم کپڑوں کی منتظر ہے۔ اس کا شوہر افغان مجاہد تھا جو جہاد میں شہید ہوگیا۔ اب اس کے دو بیٹے، دس سال اور بارہ سال عمر کے مقامی چائے کی کینٹین پر سولہ گھنٹے کام کررہے ہیں۔ ان کی دو سو روپے روزانہ کی آمدنی سے ہی گھر گھسٹ رہا ہے۔
گوالمنڈی کی طرف بھی، ایک پچپن سالہ بوڑھی بیوہ جس کا دنیا میں کوئی نہیں۔ وہ جو گھروں میں کام کرکے کچھ پیسے کماتی ہے۔ راشن کی منتظر ہے۔ اس کے بارے میں محلے دار لڑکے نے مجھے میسیج کیا کہ سر کچھ ہوسکے تو ان کی مدد کردیں اور کھانے کو دیں۔
بھوک: یہ تو چند مثالیں ہیں
بھوک و افلاس کی یہ چند مثالیں ہیں۔ اگر آپ میرا ان باکس پڑھیں تو خون کے آنسو رودیں۔
شایداسی باعث، اس کلپ نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔
حالات واقعتاً اسی نوبت پر ہیں۔
مرد عام طور پر روتے نہیں ہیں مگر موجودہ حالات میں گھر کے سربراہ مرد بھی بے بسی سے رودئیے ہیں۔ ان پر تکیہ کرنے والی عورتیں گم سم ہیں کہ کیا کریں۔