• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

فائز عیسیٰ کیس: یہ قانون کی بالادستی کی جنگ تھی، جیت لی گئی

ایک ریفرنس تو سپریم جیوڈیشل کونسل نے 2019ء میں ہی خارج کرلیا لیکن دوسرا ریفرنس (صدارتی ریفرنس) زیرِ التوا رکھا اور جو ریفرنس خارج کیا تو اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دیا گیا، حالانکہ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد by ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
April 26, 2021
in تصویر وطن
0
فائز عیسیٰ کیس: یہ قانون کی بالادستی کی جنگ تھی، جیت لی گئی
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی یہ جنگ قانون کی بالادستی کی جنگ تھی اور آج اس جنگ میں بہت بڑی کامیابی ملی ہے، الحمد للہ۔
پہلے تو آج کے فیصلے کے متعلق مختصر وضاحت نوٹ کرلیں کیونکہ بعض دوستوں کی سمجھ میں یہ فیصلہ نہیں آیا۔
بنچ میں دس جج صاحبان تھے جنھوں نے پچھلے دس رکنی بنچ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرکے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ فیصلہ درست تھا یا نہیں؟
یاد ہوگا کہ پچھلے بنچ میں دس کے دس جج صاحبان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دے کر خارج کردیا تھا ۔ اس کے بعد سات جج صاحبان نے ایف بی آر کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک مقررہ مدت میں مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ سپریم جیوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کردے اور اس کے بعد جیوڈیشل کونسل دیکھے گی کہ کیا ان گوشواروں میں کچھ بے ضابطگیاں ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کیا ان کی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف ریفرنس بنتا ہے یا نہیں؟
تین جج صاحبان (جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی) نے اس نکتے سے اختلاف کیا اور قرار دیا کہ جب ریفرنس کو بدنیتی کی بنا پر خارج کردیا گیا تو پھر اسی بنیاد پر نیا کیس نہیں بن سکتا۔ نیز مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس گوشواروں کا مسئلہ کسی بھی دوسرے شہری کی طرح ایف بی آر الگ سے دیکھنا چاہے تو اس کی مرضی لیکن ہم اس پر حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔
ان تین جج صاحبان میں ایک (جسٹس یحیٰ آفریدی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست مسترد کی تھی لیکن دیگر درخواستیں قبول کرلی تھیں۔
یوں تین جج صاحبان کے نزدیک معاملہ ختم ہوگیا تھا لیکن سات جج صاحبان نے ایف بی آر کو حکم دے کر ایک نیا سلسلہ شروع کردیا۔
سات ججز کے فیصلے کے اس اضافی حصے کے خلاف نظرِ ثانی کی کئی درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں ایک درخواست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے بھی تھی۔
آج ان درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے چار جج صاحبان (جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین الدین) نے ان سب درخواستوں کو مسترد کردیا اور اپنے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھا؛
پانچ جج صاحبان (جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان) نے سب درخواستیں قبول کرلیں؛ اور
ایک جج صاحب (جسٹس یحیٰ آفریدی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست تو مسترد کردی لیکن باقی سب درخواستیں قبول کرلیں۔
یوں چار کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے طے پایا کہ پچھلا فیصلہ غلط تھا اور سارا معاملہ ختم ہوگیا ہے۔
اس فیصلے کے بہت دور رس اثرات ہوں گے۔ ان پر بحث کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن پہلے ان مراحل پر مختصر تبصرہ ضروری ہے جو اس فیصلے تک پہنچنے سے قبل طے ہوئے۔
اس ریفرنس کی کہانی 2019ء سے شروع ہوتی ہے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم کا سلسلہ چل پڑا۔ اس مہم کے بیک گراؤنڈ میں ایک تو ان کی وہ رپورٹ تھی جو انھوں نے 2016ء میں کوئٹہ میں ہونے والی بدترین دہشت گردی کے بعد لکھی تھی اور دوسرا ان کا وہ فیصلہ تھا جو انھوں نے فیض آباد دھرنے کے متعلق دیا تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر مہم میں زیادہ تر ان کے اس فیصلے کو ہدف بنایا گیا جس میں انھوں نے حدیبیہ ملز کے خلاف کیس ری اوپن کرنے کے خلاف اس بنا پر فیصلہ دیا تھا کہ نیب اپنا کیس ثابت نہیں کرسکا تھا کہ فیصل شدہ کیس کو از سر نو کیوں سنا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حدیبیہ کیس میں وہ تنہا نہیں تھے بلکہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا جس میں سینیئر جج جسٹس مشیر عالم صاحب بھی شامل تھے لیکن آج تک ان کے متعلق کسی نے ایک جملہ تک نہیں لکھا۔ چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ اصل تکلیف کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ اور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے سے ہوئی تھی۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ ان دونوں دستاویزات سے اصل تکلیف کس کو ہوئی تھی!
بہرحال فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی جانب سے دائر کی گئیں اور ان میں جسٹس صاحب کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ اور جملے شامل کیے گئے تھے۔ اس پر عدالت میں اچھی خاصی گرما گرمی بھی ہوئی۔ ریفرنس کی جڑیں اسی نظرثانی کی درخواست میں پائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جسٹس صاحب کے خلاف بے ہودہ پروپیگنڈا کرنے والے، اور سنی سنائی آگے بیان کرنے والے، کیا یہ بتاسکیں گے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی ان درخواستوں کا کیا ہوا اور یہ اب کس مرحلے میں ہیں؟
جسٹس صاحب کے خلاف پہلا ریفرنس جون 2019ء میں اس وقت دائر کیا گیا جب انھوں نے اپنے کیریئر میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ سے ایک مہینے کی چھٹی لی تھی اور اس پر بہت جلد کارروائی بھی شروع کرلی گئی۔ ان کو ریفرنس کی کاپی تک نہیں دی گئی۔ جب انھوں نے اس کے متعلق صدر اور چیف جسٹس سے مطالبہ کیا تو ایک ٹاؤٹ کے ذریعے ایک اور ریفرنس بھی دائر کروایا گیا۔ بہرحال ایک ریفرنس تو سپریم جیوڈیشل کونسل نے 2019ء میں ہی خارج کرلیا لیکن دوسرا ریفرنس (صدارتی ریفرنس) زیرِ التوا رکھا اور جو ریفرنس خارج کیا تو اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دیا گیا، حالانکہ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
بہرحال اس کے بعد صدارتی ریفرنس پر جنگ شروع ہوگئی۔
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: سپریم جورڈیشل کمیشنسپریم کورٹ آف پاکستانصدارتی ریفرنسقاضی فایز عیسیٰ
Previous Post

زیرو کارکردگی پر دس نمبر ڈھٹائی کے

Next Post

بلڈوزروں کی آنکھیں نہیں ہوتیں

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کی شریعہ اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ہیں

Next Post
بلڈوزروں کی آنکھیں نہیں ہوتیں

بلڈوزروں کی آنکھیں نہیں ہوتیں

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions