میرے خوب صورت بچپن کی ایک حسین یاد یہ ہے کہ جامعۃ الفلاح کے چمن میں کالے توت کا ایک گھنا درخت ہوا کرتا تھا۔ میں اس کے نیچے جاتا، وہاں بہت سے توت کھانے کو ملتے۔ کچھ قریبی ٹہنیوں سے اور کچھ زمین پر گرے ہوئے۔
نوجوانی میں قدم رکھا تو پھل دار درختوں جیسی شخصیات سے ملاقات ہونے لگی۔ ان کی مجلس میں بیٹھ کر وہی احساس ہوتا جو بچپن میں کالے توت کے پیڑ کے نیچے توت چنتے ہوئے ہوتا تھا۔
مولانا وحید الدین خان (اللہ ان کو صالحین میں شامل فرمائے) میرے لیے پھلوں سے لدے ہوئے ایک درخت کی مانند تھے۔ میں نے ان کی صحبت میں جتنے لمحات گزارے ان کی شاخِ فکر سے شیریں پھلوں کو چنتے ہوئے ہی گزارے۔ مولانا کی خوبی یہ تھی کہ ان کے یہاں خزاں کا موسم کبھی نہیں آتا اور کبھی یہ مایوسی بھی نہیں ہوتی کہ ابھی توپھل آئے نہیں یا آئے تو ابھی پکے نہیں ۔جب بھی جائیں شیریں پھلوں سے لدی ہوئی شاخیں دل خوش کردیتیں اور طبیعت کو سیر کردیتیں۔
مولانا کی باتیں سننے میں بڑی عجیب وغریب لگتیں، لیکن عمل کرو تو بڑی شان دار اور عملی لگتیں۔ ایک بار کہنے لگے کہ بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو ماں باپ اپنی تعلیم ، ریسرچ اور بہت سے دیگر مفید کام اس وجہ سے ملتوی کردیتے ہیں کہ بچہ روتا ہے اور انھیں مصروف رکھتا ہے۔ اگر آپ بچے کو گھر میں تنہا چھوڑ جائیں، یا گھر میں رہتے ہوئے اپنے کام کرتے رہیں تو بچہ روتے روتے مر نہیں جائے گا، یا تو تھک کر سو جائے گا یا پھر کھلینے میں مصروف ہوجائےگا۔میں نے اپنی ذاتی زندگی میں اس اصول سے بہت فائدہ اٹھایا۔
یہ مولانا کا انوکھا اور منفردانداز تھا۔ وہ والدین کو مشورہ دیتے کہ بچے کے رونے کو وجہ بناکر اپنی تعلیم وترقی کے عظیم منصوبے موقوف نہ ہونے دیں۔ وہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے کہ فرقہ پرستوں کی پیدا کی ہوئی شرپسندی میں الجھ کر اپنے نصب العین سے غافل نہ ہوجائیں۔ان کے نزدیک بچہ رونے سے مر نہیں جاتا ہے اور کوئی قوم دوسروں کی شرارتوں کو نظر انداز کرنے سے ذلیل ورسوانہیں ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کا مشورہ نہ والدین کو بھاتا اور نہ ہی ملت کو اپیل کرپاتا۔عجیب بات یہ ہے کہ مولانا کے مشوروں پر چراغ پا ہونے والی جذباتی ملت نے جب بھی مولانا کے مشوروں پر عمل کیا کوئی نقصان نہیں اٹھایا۔
ایک دن میں نے مولانا کو بتایا کہ میں نے لفظ ارہاب پر ایک تحقیقی مضمون لکھا ہے، جو اردو میں مجلہ تحقیقات اسلامی اور عربی میں کویت کے المجتمع میگزین میں شائع ہوا ہے۔مولانا نے میری پوری بات غور سے سنی اور پھر کہا کہ تم کو یہ اہم تحقیق انگریزی میں لکھنی چاہیے تھی۔ میں نے کہا مجھے انگریزی میں لکھنا نہیں آتا۔ کہنے لگے یہ تو تمھاری بہت بڑی کم زوری ہے، اسے فورا دور کرو۔ روزانہ ایک گھنٹے تک غور سے انگریزی اخبارات ورسائل کا مطالعہ کرو۔ یہ کم زوری اس طرح دور ہوسکتی ہے۔ تم اردو میں لکھو گے تو ایک محدود حلقہ پڑھے گا۔ وہی باتیں انگریزی میں لکھو گے تو بہت بڑے حلقے تک پہنچے گی۔ میں نے مشورہ بہت غور سے سنا لیکن اس پر عمل نہ کرسکا۔ ابھی بھی عمل کرنے کا موقع ہے، لیکن کاہلی ابھی بھی راستہ روکے کھڑی ہے۔
ایک بار کی بات ہے ،مولانا آزاد کے بارے میں کہنے لگے کہ میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی تھی، مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کانگریس کے ہاتھوں بک گئے تھے۔ کیوں کہ پہلی بات غلط ہوئی تو مجھے گناہ نہیں ملے گا لیکن دوسری بات غلط ہوئی تو میں گناہ گار ہوجاؤں گا۔ پھر انھوں نے کہا کہ لوگ میرے بارے میں بھی یہی بات کیوں نہیں کہتے کہ میں نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی، یہ کیوں کہتے ہیں کہ میں بک گیا ہوں؟؟ یہ کہہ کر وہ زار وقطار رونے لگے۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ایس آئی او آف انڈیا نےایک ملک گیر مہم منانے کا فیصلہ کیا۔ مہم کا عنوان تھا ’جاگو حساب کا وقت قریب آگیا‘۔ مہم کے پیغام کو ایک فولڈر کی صورت میں لوگوں تک پہنچانا تھا۔فولڈر کے لیے مواد کی ضرورت تھی جسے تیار کرنے کی ذمے داری میرے سر آئی۔ حسن اتفاق کہ انھی دنوں مولانا کے یہاں جانے کا موقع نکل آیا۔ مجلس سے اٹھتے ہوئے خیال آیا اور میں نے مہم کا تذکرہ کیا اور مولانا سے درخواست کرڈالی کہ فولڈرکی عبارت لکھ دیں۔مولانا نے کچھ کہا نہیں، مسکراتے ہوئے رخصت کردیا۔ دو دن بعد مولانا کا فون آیا، کہنے لگے میرے دوست کے بیٹے نے مجھے ایک کام دیا اور کام دے کر خود بھول گیا۔ فولڈر کی عبارت تیار ہوگئی ہے آکر لے جاؤ، اگرآج آنا ہے تو ابھی فورا آجاؤ، مجھے ایک پروگرام کے لیے نکلنا ہے۔ میں فورا آٹو میں بیٹھا اور روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچا تو مولانا گاڑی میں بیٹھ رہے تھے، میں نے کہا کیا مجھے ساتھ چلنے کی اجازت ملے گی۔ انھوں نے ہاں کہا اور میں ان کے ساتھ ہولیا، یہ جانے بغیر کہ کہاں جارہے ہیں۔
ہماری منزل ستیہ سائیں انٹرنیشنل سینٹرکی عمارت تھی۔ وہاں ملک بھر کے ملٹری اسکولوں کے پرنسپل حضرات کا روحانی تربیت پر ورکشاپ چل رہا تھا۔مجھے تجسس تھا کہ مولانا اسلام کا تعارف کس طرح پیش کرتے ہیں، مولانا کی وہاں اسلام کے تعارف پر تقریر ہوئی، اور انھوں نے اسی طرح اسلام کو پیش کیا جس طرح غیر مسلموں کی مجلس میں عام طور سے پیش کیا جاتا ہے۔ بس خاص بات یہ تھی کہ تقریر کے دوران مولانا پر رقت طاری تھی اور سب کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔
مولانا نے دعوتی فولڈرکے لیے جو عبارت مجھے دی ،وہ نہایت اثر انگیز تھی۔ہم نے اسے فولڈر کی شکل دی، ہندی اور انگریزی میں ترجمہ کرایا اور پورے ملک میں اس کے ذریعہ شان داردعوتی مہم انجام دی۔
ایک دن میں نے انھیں بتایا کہ میں جماعت اسلامی کا رکن بن گیا ہوں۔ مسکرانے لگے، کہنے لگے مجھے تمھارے رکن بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ایک نصیحت ضرور کروں گا۔ رکنیت کے تمام تقاضے حسن وخوبی کے ساتھ انجام دینا، لیکن اپنی زندگی کا منصوبہ خود بنانا۔ اس کا انتظار مت کرنا کہ جماعت تمھیں تمھاری زندگی کا منصوبہ بناکر دے گی۔ جو لوگ اپنی زندگی کے منصوبے کے لیے جماعت پر انحصار کرتے ہیں وہ پوری زندگی بغیر منصوبے کے گزاردیتے ہیں۔بعد میں میں نے بہت سے لوگوں کو منصوبے کا منتظر پایا۔
یہ اس دور کی بات ہے جب مولانا جماعت اسلامی کی فکر سے اختلاف رکھتے تھے، لیکن لہجہ نرم ہوا کرتا تھا۔ بعد میں غالباً عمر کے تقاضے سے لہجے کی نرمی سختی میں بدل گئی اور وہ فکرِ مودودی کے سلسلے میں نہایت سخت بیان دینے لگے۔ دراصل مولانا جذباتیت کے مخالف تھے لیکن خود بہت جلد جذباتی ہوجاتے تھے۔
میں نے مولانا سے خوب بحثیں کی ہیں، سب سے پہلے ایس آئی او آف انڈیا کے کل ہند تربیتی کیمپ میں، اس کے بعد ان کے گھر پر، اس کے بعد ای میل سے اور آخر میں ان کے فیس بک پیج پر۔ لیکن عالم بن کر نہیں بلکہ ایک نٹ کھٹ بچے کی طرح،جواپنی شرارتوں سے غصہ بھی دلاتا اور دل بھی لبھاتا ۔
میں مولانا کے سامنے بچہ بنا رہتا اور وہ مجھے بڑا دیکھنا چاہتے۔ ایک ملاقات میں انھوں نے والد محترم سے کہا، آپ کا یہ بچہ بڑا آدمی بن سکتا ہے، لیکن یہ اپنے آپ سے ناواقف ہے، اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو دریافت کرے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے زندگی میں ایسے چند بزرگ ملے جنھوں نے اپنے حسنِ نظر سے میرے اندر بڑا آدمی بننے کا امکان دیکھا اور میرے دل میں اس کا شوق پیدا کیا۔ ایاز اپنے سلسلے میں کبھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوا، لیکن ان بزرگوں کی خوبصورت توقعات اس کی زندگی کے لیے زادِ راہ ضرور بنی رہیں۔
جب میں نے روزگار کے لیے دبئی جانے کا پروگرام بنایا، تو اپنی اہلیہ کے ساتھ ان سے ملنے گیا۔ اتوار کے دن ان کا پروگرام ہوتا تھا۔ ہم کچھ تاخیر سے پہنچے۔ پروگرام کے بعد قریب جاکر ملاقات کی، اہلیہ کا تعارف کرایا۔ انھوں نے کہا سنا ہے تم دبئی جارہے ہو،آخراس قبرستان میں دفن ہونے کہاں جارہے ہو۔ میں نے کہا ان شاء اللہ جلد واپس آجاؤں گا، مایوسی سے مجھے دیکھا اورکہنے لگے قبرستان سے کبھی کوئی واپس آیا ہے۔ پھر پوچھا تم تاخیر سے کیوں پہنچے۔ میں نے بہانہ بنایاآٹو ملنے میں دیر ہوگئی تھی۔ کہنے لگے تم دبئی جارہے ہو ، وہاں یہ بہانہ کام نہیں آئے گا۔ وہاں تمھاری وقت کی پابندی کو دیکھ کر تمھاری کارکردگی ناپی جائے گی، خواہ عملًا کارکردگی کچھ نہ ہو۔دبئی گیا تو مولانا کی بات کو حرف بہ حرف درست پایا۔ مولانا نے ہم دونوں کو ایک نصیحت کی کہ ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنا آئیڈیل سمجھنا، تمھارے رشتے خوش گوار رہیں گے، میری بیوی اس مشورے پر ابھی تک سختی سے عمل پیرا ہے۔
دو سال میں دبئی سے واپس ہوجانے کا ارادہ تھا، مگر قبرستان کی خاردار سنہری جھاڑیاں بری طرح جکڑے ہوئی تھیں اور کسی طرح نکلنے نہیں دے رہی تھیں، آخر کار آٹھ سال بعد لوٹا۔ مولانا کی خدمت میں پہنچا۔ سوچا شاید مولانا مجھے بھول گئے ہوں گے۔ نام بتایا کہنے لگے تمھارا نام میرے دل پر پتھر کی طرح نقش ہے۔میں نے کہا قبرستان سے لوٹ آیا ہوں۔ مولانا نے حسب معمول پوچھا اپنی تازہ دریافت پیش کرو۔ اس مرتبہ میں پہلے سے سوچ کر آیا تھا جھٹ سے بتادی، پھر مولانا نے سورہ فاتحہ کے مضامین پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی دریافتیں بتائیں۔دیر تک گفتگو رہی، مجلس میں برادرم ابوالاعلی سید اور مولانا صباح الدین ملک صاحب بھی شامل تھے۔ مولانا نے بتایا کہ انھوں نے طے کرلیا ہے کہ اب وہ صرف انگریزی میں لکھیں گے۔ اس میں وہ زیادہ خوشی محسوس کررہے ہیں۔ ان کو قارئین کی نئی دنیا ملی ہے۔ میں ڈر رہا تھا کہیں مولانا یہ نہ پوچھ لیں کہ تم نےاپنی انگریزی اچھی کرلی؟ چلتے ہوئے مولانا کی صاحب زادی ڈاکٹر فریدہ خانم نے کہا مولانا کئی دنوں سے نزار چل رہے تھے۔ آج تم لوگوں سے مل کر تر وتازہ ہوگئے۔میں نے ان کے ساتھ ملاقات کی خبر فیس بک پر ڈالی، بعض احباب نے سوال کیا کہ آپ نے ان کے فکری انحراف کی اصلاح کی کوشش کی؟!!
مجھے ان کی سادگی پر ہنسی آئی۔ انھیں کیا پتہ کہ میں تو شہتوت کے پیڑ کے نیچے شہتوت کھانے گیا تھا۔
مولانا وحید الدین خان اس دنیا کے تزئین کاروں میں سے تھے۔ اللہ تعالی انھیں جنت میں اونچا مقام عطا فرمائے۔