جب سے کرونا وائرس کی وبا آئی ہے، ہم سب ایک مخمصے میں پھنس گئے ہیں۔ مخمصہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کو کیا سمجھیں۔ خدا کا عذاب یا خدا کا انعام۔ عذاب تو یہ ہے کہ لوگ بیمار پڑ رہے ہیں، مر بھی رہے ہیں اور انعام یہ کہ سڑکوں پہ ٹریفک کا پہلے جیسا تکلیف دہ رش نہیں رہا۔ بازار بڑی حد تک سنسان ہوگئے، پٹرول کی قیمتیں نیچے آگئیں۔ گھروں میں رشتہ داروں نے آنا جانا چھوڑ دیا۔ ان کی مہمان داری پہ اٹھنے والا خرچہ پانی نہ رہا۔ اور بھی بہت سے فائدے ہوئے جن کا بیان ضروری نہیں۔
کرونا وائرس کیا ہے؟ ایک ایسا جرثومہ جو نظر نہیں آتا مگر اندر آدمی کے آجاتا ہے اور آکر کیا کرتا ہے، یہ تو ٹھیک سے نہیں معلوم لیکن آخر آخر کو آدمی وینٹی لیٹر پہ پہنچ جاتا ہے۔ وینٹی لیٹر سے وہ کہاں جاتا ہے، یہ بھی نہیں پتہ۔ البتہ قبرستان ضرور پہنچ جاتا ہے جو پہلے سے بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں اب کسی کو دفن کرنے کے لیے دوگز زمین بھی باقی نہیں رہی لیکن گورکن پھر بھی گنجائش نکال لیتا ہے۔ بس اس کی مٹھی گرم ہونی چاہیے۔ کرونا کا جرثومہ آدمی کی روح کو زمین سے اٹھاتا اور آسمان پہ پہنچا دیتا ہے۔ بدن تو خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ روح ابدی اور لافانی ہے، برزخ میں پہنچ جاتی ہے اور قیامت تک عذاب و ثواب جھیلتی رہتی ہے۔ انسان کچھ نہیں ہے، اگر کچھ ہے تو روح ہے یا قلب ہے۔ روح بھی اللہ کی اور قلب بھی اسی کا۔ لیکن ہم لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے وہ ہمارا جسم ہے۔ اسی لیے ہم ساری زندگی جسم ہی کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کھانا پینا، پہننا اوڑھنا، رہنا سہنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا __ بس یہیں اور اسی حد تک ہماری سرگرمیاں رہتی ہیں۔ قلب کی حالت کیسی ہے، نیّت کیسی ہے، روح پر کیا گزر رہی ہے، اس پہ ہم لوگ توجہ نہیں کرتے، توجہ کریں بھی تو کیسے۔ ہم ان کی حقیقت کو جانتے ہی نہیں۔ نہ جاننا کوئی اچھی بات نہیں اور جان کر نہ جاننا تو اور زیادہ بری بات ہے۔
پچھلے دو تین ماہ سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس نے دنیا اور انسانوں کی حالت بدل دی ہے۔ مسجدوں اور عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والے نہیں رہے، بازار اور سڑکوں پہ بھی سناٹے کا راج ہے۔ لاک ڈائون کی اس حالت پہ رہتے رہتے ہم لوگ بیزار ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اب لاک ڈائون بھی نہیں رہا۔ کرونا کے جرثومے سے بے خوف ہوکر ہم گھروں سے باہر نکل آئے ہیں Social Distansing بھی ایک مذاق بن گیا ہے۔ البتہ ہاتھ ملانے اور جھپی ڈالنےمیں ہم اب بھی احتیاط برتتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھروں پہ آنا جانا بھی ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔ ہمارے بچّے کمپیوٹر پر آن لائن کلاسیں لے رہے ہیں۔ اکثر ملازم پیشہ لوگ بھی دفتر کا کام گھر ہی سے نمٹا رہے ہیں۔ ان سرگرمیوں نے گھروں کو آباد کر دیا ہے۔ بجلی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں لیکن میاں بیوی کے جھگڑوں اور اختلافات میں کمی آگئی ہے۔ کیوں کہ اب شوہروں نے کچن اور غسل خانوں میں بیویوں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ہے۔ وہ برتن اور کپڑے دھو لیتے ہیں۔ مرد دفتر نہیں جاتے تو دیر سے لوٹ کر آنے کا بیویوں کو شکوہ نہیں رہا۔ البتہ بچّوں کو شکایات ہیں۔ یہ شکایت کہ آئوٹنگ نہیں ہو رہی ، موبائل سے کب تک کھیلیں۔ اور فون پر دوستوں سے کہاں تک اور کب تک گپ شپ کریں۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ صورت حال کب تک رہے گی۔ ہم لوگ کب تک اپنے گھروں پہ نظر بند رہیں گے؟ کب تک مسجدوں اور عبادت گاہوں سے دُور رہیں گے؟ کب تک چہروں پہ اپنے نقاب ڈالے رہیں گے؟ اور کب تک نلکوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے۔ ایک مخمصہ ہے جس سے ہم نکل نہیں پارہے۔ پریشانی یہ بھی ہے کہ کرونا وائرس کو کیا سمجھیں۔ ایک عالمی سازش، خدا کا عذاب یا ایسی ہی ایک وبا جو ہر سو سال کے بعد آجاتی ہے اور دنیا کا سکون غارت کر دیتی ہے۔ لیکن ایسی وبا جیسی کرونا وائرس کی وبا ہے، دنیا میں کبھی نہیں آئی۔ جو وبائیں آتی رہی ہیں، ان سے انسان فنا کے گھاٹ اترتا رہا ہے۔کسی بھی وبا سے انسان کی سماجی اور مذہبی زندگی متاثر نہیں ہوئی۔ کسی وبا نے بھی انسان کی معاشی سرگرمی کو اس طرح کبھی متاثر نہیں کیا اور کوئی بھی وبا اتنی عالمگیر کبھی نہیں آئی کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ویرانی اور سناٹے کا راج ہوگیا ہو، ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہوں۔ کوئی مر گیا ہو اور کوئی بچ گیا ہو۔ جو بچ گیا ہو وہ مستقلاً بچ گیا ہو اور جو مر گیا ہو اس کو قبرستان میں اس طرح دفن کیا گیا ہو کہ نماز جنازہ کے لیے نمازی میسر نہ آئے ہوں۔ اس ساری صورت حال میں انسان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اسے اس جرثومے کی تباہ کاریوں اور اثرات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ لیکن وہ انسان ہی کیا جو کسی واقعے سے کوئی سبق سیکھ سکے۔ انسان نے سب کچھ سیکھ لیا ہے سبق نہیں سیکھا۔ روپیہ پیسہ اور جائیداد پکڑ لیتا ہے اور بہت مضبوطی سے پکڑتا ہے مگر عبرت نہیں پکڑتا ہے۔ سوچتا ہے بھلا عبرت بھی کوئی پکڑنے کی چیز ہے۔ پکڑنا ہی ہے تو کوئی موٹی اسامی پکڑو جس سے چار پیسے کا فائدہ ہو جائے۔ شاید اسی لیے خدا نے ایک ایسا جرثومہ بھیج دیا جس نے انسان کو انسان سے جدا کر دیا۔ انسان کا انسان سے ملنا ایک نعمت بھی ہے اور ایک مصیبت بھی __ ہمارے قومی شاعر اکبر الٰہ آبادی نے فرمایا تھا۔
؎ یہ ملنے ہی سے اکثر رنج بھی ہو جاتے ہیں پیدا
جو سچ پوچھو تو ملنے سے نہ ملنے کا گلہ اچھا
ہم لوگ پہلے نہ مل کر نہ ملنے کا ایک دوسرے سے گلہ کرتے تھے۔ اب ہم مل کر ملنے کی شکایت کرتے ہیں کہ میاں ملنا ہی ہے تو ذرا فاصلے پر رہ کر ملو، یہ کیا طریقہ ہے کہ گھسے آرہے ہو۔ Social Distensing کا خیال کیوں نہیں رکھتے۔ چہروں کو بھی ہم نے چھپا رکھا ہے ماسک میں۔ نقاب پوش حسینہ پر پہلے فلمیں بنتی تھیں جب فلمیں بلیک اینڈ وہائٹ ہوتی تھیں۔ اب ہم سب اس کلرڈ اس رنگین دور میں نقاب پوش حسینہ بنے پھر رہے ہیں۔ ہاتھوں میں بھی دستانے ہوتے ہیں پھر بھی احتیاطاً ہاتھ نہیں ملاتے۔ گھر آکر کپڑے بدل لیتے ہیں۔ نہ بدلیں تو سینی ٹائزر سے چھڑکائو کرنا نہیں بھولتے۔ یہ کیسی حرکتیں اور حماقتیں ہیں جس میں ہم مبتلا کر دیے گئے ہیں ۔ اور کب تک اس مخمصے میں پڑے رہیں گے، اس کا بھی علم نہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے تویہ کہہ کر اور ڈرا دیا ہے کہ ہر شخص کرونا میں مبتلا ہوگا اس لیے ہمیں اس جرثومے کےساتھ خود کوجینے کا عادی بنا لینا چاہیے۔ بھلا بتایئے یہ کیا بات ہوئی __ اگر ساری زندگی ماسک سے چہرہ چھپانا پڑ گیا تو بیوٹی پارلروں اور میک اپ کے سامان کا کیا بنے گا۔ کیا ہم مسکرانا چھوڑ دیں، ہنسنے اور قہقہہ لگانے سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخر ہم کریں کیا۔ چلیے مہمانوں سے تو جان چھوٹ گئی جو بن بلائے آجاتے تھے۔ دوستوں کی محفلیں اور گپ شپ سے بھی جاتے رہے جن سے بیویوں کو شکایت رہتی تھی۔ نہ دفتر جاتے ہیں نہ بیگمات کو لنچ باندھ کر دینا پڑتا ہے۔ پہلے بچّوں سے Social distensing رہتی تھی کہ کرونا کے بغیر ہی والدین اور بچّوں میں فاصلے تھے۔ وہ گھر میں کب آتے ہیں، کہاں جاتے ہیں، کس سے ملتے ہیں، کن صحبتوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں، ان سے ہمیں نہ دل چسپی تھی، نہ جانتے ہی تھے۔ اب گھروں میں چوبیس گھنٹے رہنا پڑ رہا ہے تو پتہ چل رہا ہے کہ ہاں بچّے بھی ہیں اور ہمارے ہی بچّے ہیں۔ پڑوس سے آئے ہوئے بچّے نہیں ہیں۔ تو کرونا جو آیا ہے، کچھ سوچ سمجھ کر ہی آیا ہے،خود نہیں آیا تو بھیجا گیا ہے۔ کس نے بھیجا ہے؟ یہ ہم نہیں بتائیں گے۔ اگر بتائیں گے تو آپ انکار کر دیں گے اور جواب میں کوئی نہ کوئی سازشی تھیوری لے آئیں گے اور پھر ہم لاجواب ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ سازش ہم نے کبھی کی نہیں تو سازشی تھیوری کو کیسے سمجھیں۔ کرونا وائرس یقیناً ایک سازش ہے، یہ ہم بھی کہتے ہیں لیکن یہ کس کی سازش ہے؟ قدرت کی یا امریکا اور چین کی۔ بس یہ فیصلہ کرنا رہ گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کبھی نہ کبھی ہو جائے گا، اگر امریکا اور چین ویسے ہی رہ گئے جیسے ہیں تب نا!