سب سے پہلے میں یہ اعتراف کر نا چا ہتا ہوں کہ آسیہ میر نے جب سے مجھے اپنی یہ کتاب ”اقبال اور کارل ما رکس کا فکر ی قرب و بُعد“ دی ہے تب سے اب تک یہ میر ی میز پر ویسی کی ویسی پڑی ہے اور میں نے اس کا ایک صفحہ تک نہیں پڑھا۔کیوں؟ اس کی وجہ آگے چل کر بتا تا ہوں۔
خواتین وحضرات! میں ایک طو یل عر صے سے ادبی اعتکاف میں ہوں جس کے با عث کسی ادبی تقر یب میں تقر یباً ہی جا تا ہوں۔ آج بھی یہاں آیا ہو ں تو آسیہ میر کے معصو ما نہ پیغا م کے با عث کہ میں عورتوں کے غصے سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا ان کے پیا ر سے ڈرتا ہوں۔ میں تقر یر کا نہیں تحر یر کا آدمی ہوں اور وہ بھی قدرے شگفتہ، جب کہ یہ کتاب ایک سنجیدہ گفتگو کی متقا ضی ہے جس کے لئے یہا ں سینیٹر ولید اقبال، حامدمیر، کنو ر دلشاد اور ڈا کٹر شا ہد اقبال کا مران جیسے بڑے سینئر اور نا مور دانش ور موجود ہیں۔ ویسے بھی میں نے دیکھا ہے کہ اقبالؒ کے حوالے سے کوئی محفل ہو وہ خودی سے با ہر نہیں نکلتی اور گفتگو کر نے والے خود سے با ہر نہیں نکلتے۔
پہلے بھی اور آج بھی اگر کو ئی خو بصورت خا تون ایم فل یا پی ایچ ڈی کر نے کے سلسلے میں مجھ سے مشورہ کر نے آئے تو میرا سب سے پہلا سوال یہ ہو تا ہے کہ کیا تمہا ری شا دی ہو چکی ہے۔ جواب اگر ہا ں میں ہو تو پھر پو چھتا ہوں کتنے بچے ہیں اور ان کی عمریں کیا ہیں۔ اگر وہ جواب میں کہے کہ بچے ابھی چھو ٹے ہیں یا یہ بتا ئے کہ عنقر یب میری شا دی ہو نے والی ہے تو پھر دریافت کر تا ہوں کہ گھر یلو خا تون ہو یا کہیں پڑ ھا رہی ہو اور اگر وہ کہہ دے کہ گھر یلو خا تون ہوں تو صا ئب مشورہ دیتے ہو ئے اسے کہتا ہوں کہ بی بی گھر بیٹھ کر آرام سے لکھو، پڑ ھو۔ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے چکر میں کیوں اپنی جوانی اور اپنے ممتحن کی عاقبت خراب کر نے کے درپے ہو۔ یو نیو رسٹیوں کے چکر لگا لگا کر تمہا ری جو تیاں بھی گھس جائیں گی اور تم خود بھی گھس جا ؤ گی۔ہاں البتہ اگر خا تون کہیں ملا زمت کر رہی ہو یا اس کے بچے قدرے بڑے ہو چکے ہوں یا فی الحال اس کا شادی کر نے کا کوئی ارادہ نہ ہو تو پھرمیں اسے ایم فل کر نے کا ضرورمشورہ دیتا ہوں کہ یہ اس کے کیر ئیر اور مستقبل کا مسئلہ ہو تا ہے۔
یہاں معا ملہ یہ ہوا کہ آسیہ میر نے ایم فل کر نے سے پہلے مجھ سے مشورہ ہی نہیں کیا ورنہ شا ید …………چلئے چھو ڑ ئیے اس بحث کو اور آئیے تھیسز کی طرف۔ آسیہ میر سے میر ی پہلی ملا قات تب ہو ئی جب یہ ایم فل کا تھیسز لے کر اس کی اشا عت کی غر ض سے این بی ایف میں میر ے پا س آئیں۔ تب بھی آج کی طر ح ان کے میا ں، ان کے ساتھ تھے جنہیں ہما رے دوست جبار مرزا میاں چنوں کہتے ہیں۔ (کتا ب کاانتساب بھی ان ہی کے نام ہے ”بے حد مہر بان شو ہر اور پیا رے بچوں کے نام“)۔میں کبھی تھیسز کو دیکھوں کبھی آسیہ میر کو اور کبھی ان کے میاں کو۔ مجھے ان تینوں میں کو ئی مناسبت نہ نظر نہ آئے تو دوبارہ یہی عمل دہراؤں۔
مشکل مو ضو ع بلکہ مشکل تر ین مو ضو ع اور اس پر ایک نا زک سی خا تون کا لکھنا؟میں نے آسیہ پر سوالا ت کر نا شروع کردئیے۔ کا رل ما رکس کے حوالے سے، علا مہ اقبال کے حوالے سے، ان دونوں کے نظر یات کی قر بت کے حوالے سے اور دوری کے حوالے سے اور ہر سوال کے جواب میں میر ی حیر ت بڑ ھتی جا ئے کہ اس خا تون کے پا س اس قدر سکہ بند معلو مات کیسے آئیں۔ پھر پتہ چلا کہ ان کے والد اسحق میر ایک پکے کا مر یڈتھے اور جد لیا ت، با ئیں با زو اور سو شلزم کامطا لعہ ان کی گھٹی میں پڑا ہو اتھا۔ تب مجھے کا مل تسلی ہو گئی اور پھر میں نے ان سے تھیسز لے کر دو دن تک مکمل یکسو ئی سے پڑ ھا۔
دوران مطا لعہ مجھ پر کئی گر ہیں کھلیں اور مجھے اندازہ ہوا کہ اس مو ضوع پر اتنی جا معیت، اتنی محنت، اتنی غیر جانبداری اور اتنے خلوص کے ساتھ شا ید ہی آج تک کسی نے کو ئی کام ہو۔ بہت ہی فکر انگیز حقیقتوں اور انکشا فات پر مبنی اس کتا ب کے بیشتر حصے میر ے لئے ایک خو شگوار حیر ت کا سماں پیدا کر رہے تھے۔ میں نے بہ ادنی ترا میم اس کتا ب کو نیشنل بک فا ؤ نڈ یشن سے شا ئع کر نے کا فیصلہ کر لیا اور پھر یہ کتاب شا ئع ہو گئی۔خواتین و حضرات!آج تک کارل ما رکس کے ما ننے والوں نے، علامہ اقبال کو تر قی پسند شا عر نہیں ما نا۔ اس کے با وجود کہ یہ شعر بھی علا مہ اقبال کا ہی ہے:
اٹھو مری دنیا کے غر یبوں کو جگا دو
کا خ امراء کے درودیوار ہلا دو
دراصل تر قی پسندوں کے نز دیک، ترقی پسند کہلوا نے کے لئے صرف ایسے اشعار کا فی نہیں ہو تے۔ شا عر کا تر قی پسندوں کے گروہ میں شا مل ہو نا ضروری ہو تا ہے، خواہ اس کی شا عری میں کچھ ہو یا نہ ہو۔اسرار الحق مجاز کہا کر تے تھے کہ تر قی پسند وہ ہوتے ہیں جو محلوں میں رہ کر جھگیوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ آج جب کہ تر قی پسند تحر یک دم تو ڑ چکی ہے اور وہ ملک بھی ٹو ٹ چکا ہے جس نے تر قی پسند تحر یک کو جنم دیا تھا پھر بھی ادب فکر اور فلسفے پر اس تحر یک کے اثرات برملا دیکھے جا سکتے ہیں۔ آج جب کہ ہما رے ہا ں معا شی نظر یات کم اور بد معا شی نظر یات زیا دہ مقبول ہیں، ایسے میں یہ کتاب ایک نعمت غیر متر قبہ کا درجہ رکھتی ہے اور علا مہ اقبال ہمیں ایک بہت بڑے ما ہر معا شیا ت کے روپ میں سامنے آتے دکھا ئی دیتے ہیں جو بے شما ر لو گوں کو رزق اور روز گار فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے نام پر بننے والے اداروں کے ملا زمین اور ان پر کتابیں شائع کر کے کما نے والوں کو، ان کا شکر گزار ہو نا چا ہئیے۔
(12 نو مبر 2020 ء کو کشمیر ہاؤ س میں سینٹر ولید اقبال کی صدا رت میں منعقد ہو نے والی کتاب کی تقر یب رو نما ئی میں پڑ ھا گیا)