سابق وزیراعظم محترم نوازشریف کی والدہ ماجدہ محترمہ شمیم اختر کی وفات کی خبر پورے ملک میں افسوس کے ساتھ سُنّی گئی کہ سیاسی اختلافات کے باوجود مائیں اور بیٹیوں بالخصوص وہ جو بذات خود سیاست سے لاتعلق ہوں کی عزت و احترام تمام اختلافات سے بالاتر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے دیگر عمائدین کے ساتھ وزیر اعظم و مسلح افواج کے سربراہ نے بھی اس سانحے پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔
اس وقت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں موجودہ حکومت سے نجات کی پی ڈی ایم کی تحریک بھی آہستہ آہستہ رنگ پکڑتی نظر آرہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اگر اس وقت نواز شریف ملک میں موجود ہوتے تو رنگ مزید گہرا ہوتا۔ مجھے یقین ہے نواز شریف بھی واپسی کے لئے مناسب وقت کے منتظرہیں۔
فوجی اصطلاح میں PDM کی آرٹلری (توپخانے) نے دشمنوں کو مورچوں کی آڑ میں دبکنے پر مجبور کرکے اور اسکی آڑ میں انفینٹری کو آگے بڑہنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اب تک یقیناً آرٹلری کا فائر درست گر رہا ہے، لیکن مطلوبہ زمین تیار ہونے میں ابھی وقت ہے۔ اس وقت ففٹی ففٹی والی صورتحال تھی کہ اچانک یہ سانحہ ہو گیا۔
ویسے حکومت بھی تھوڑی خوش قسمت ہے، علامہ خادم حسین رضوی کے گزشتہ ہفتے والے دھرنے سے اگر سختی سے نمٹا جاتا اور خدانخواستہ ان کی وفات کسی قسم کی حراست کے دوران ہوتی تو اسے بیماری کی موت کی بجائے قتل گردانا جاتا اور جنازے میں جس قسم کا ہجوم دیکھا گیا ہے وہ مشتعل ہوکر انہیں شھید قرار دیکر اس حکومت کے خاتمے کا بگل ہی نہیں بجاتا بلکہ شاید اینٹ سے اینٹ بجا سکتا تھا۔
علامہ خادم حسین رضوی کی تدفین سے بآسانی فارغ ہونے اور کچھ حلقوں طرف سے موت پر شکوک کے اظہار کے باوجود مجموعی طور تحریک لبیک اور انکے معتقدین نے اس موت کو قدرتی تسلیم کرکے حکومت پر ایک ممکنہ بڑے دباؤ کو ختم کردیا ہے۔
موجودہ صورت حال میں نوازشریف کی والدہ کی وفات کی ٹائمنگ نے بڑی حدتک فیصلہ نواز شریف کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا ہے۔ یادرہے کہ انکے بچّے اپنی والدہ کی میت پر نہ آسکے تھے، اور وہ خود بھی اپنے والد محترم کی میت کے ساتھ (مجبوراً) سعودی عرب سے نہ آسکے تھے، اب کیا والدہ کے لئے بھی اس سے ملتا جُلتا سلسلہ ہوگا؟
اگر نواز شریف گرفتاری کا خطرہ مول لے کر واپس آنے کا فیصلہ کرلیں (جس کا امکان کم ہے) تو اس بات کا امکان رہے گا کہ یہ حکومت اپنی نااہلی کے بوجھ تلے زیادہ عرصے تک کھڑی نہ رہ پائے گی پھر بھی فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے،کیا وہ بیٹی کو تخت نشین کرانے کے لئے تختے کا خطرہ مول لینا قبول کریں گے؟
بظاہر اس کا امکان کم ہے، نواز شریف کا ٹریک ریکارڈ اس معاملے واضح ہے۔امریکی جنرل جارج پیٹن نے 1944ء کی ایک تقریر کا اقتباس:
“کوئی احمق خود جان دیکر اپنے وطن کے لئے جنگ نہیں جیت سکتا بلکہ احمق دشمنوں کو ان کے ملک کے لئے موت سے گلے لگانے پر مجبور کرکے جنگ جیت سکتا ہے۔”
اولیور گولڈ اسمتھ کا کہنا ہے:
“جو لڑا اور بچ کر نکل گیا، وہ اگلی لڑائی کے لئے زندہ رہے گا، جب کہ وہ جو لڑائی میں مقتول ہو گیا وہ کبھی لڑنے کے لئے واپس نہیں آسکتا”۔
یہی معاملہ کچھ حدتک نواز شریف اور ہر عقلمند شخص کا ہے جو بجائے ناقابل فتح جنگ میں لڑکر مقتول ہونے کے، ایک قدم پیچھے ہٹ کرنئے معرکے کے لئے خود کو محفوظ رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔درحقیقت شھادت ایک قیمت ہے جو ہر سپاہی کو ادا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوتا ہے لیکن اس کی اصل ذمہ داری جان دینا نہیں بلکہ کم سے کم نقصان کے عوض دشمن کو شکست دینا ہے۔
یہ ہمارے جذباتی معاشرے کے لئے غیر مقبول اور ناقابل ہضم بات ہے لیکن عقلمند جذباتی نہیں ہوتا یہی اسکی کامیابی کا راز ہے۔
فی الوقت پی ڈٰ ی ایم نواز شریف کی ملک میں موجودگی (چاہے جیل ہی میں کیوں نہ ہو) کے بغیر محض آواز و موسیقی کا شو ہے، جس میں نیم رضامند زرداری، اور پرُجوش طور پر شریک مولانا فضل الرحمن کی موجودگی کے باوجود قومی سطح پر مسلمہ لیڈر شپ کا فقدان ہے۔درحقیقت اس سارے کھیل کا مقصد برات کے اصل دولہا نواز شریف کو میدان میں اُتارنے کے لئے ماحول تیار کرنا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے دوست اور سینئر صحافی فاروق عادل جو شریف فیملی سے ذاتی واقفیت بھی رکھتے ہیں، نے مجید نظامی مرحوم کے حوالے سے محترمہ شمیم اختر مرحومہ کو شریف خاندان کی روحانی قوت کا منبع قرار دیا ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نقصان کے اس خاندان کی سیاسی و خانگی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
بزرگوں کا سایہ وہ سیمنٹ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر خاندانی یکجہتی کی عمارت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔یادرہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے بچّوں کے درمیان سیاسی وراثت پر اختلافات کی خبریں تواتر سے آتی ہی رہی ہیں۔
اگر اس میں سچّائی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ والدہ محترمہ کی مضبوط شخصیت اور ان کے احترام کی وجہ سے یہ سب اُبھرنے نہیں پایا، اب اس شجر سایہ دار سے محرومی کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب وقت بتائے گا یا ہمارے وہ احباب جو اس خاندان کے معاملات سے گہری واقفیت رکھتے ہیں ہی کچھ پیش گوئی سکتے ہیں۔ یہ وقت سیاست سے زیادہ مرحومہ کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے لئے اس عظیم صدمے کو صبر و استقامت سے برداشت کرنے کی دعاؤں کا ہے۔