سپریم کورٹ نے گو کہ سینیٹ الیکشن کو آئین پاکستان کے تحت الیکشن قرار دیا ہے مگر ساتھ 1973 کے آئین سے قبل کے ایک عدالتی فیصلے کا حوالہ دے کر خفیہ ووٹ کے مطلق اطلاق کی نفی بھی کر دی ہے۔ اس ضمن میں ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن پر بار کوڈ ٹائپ کے کسی ٹریکینگ سسٹم کو اختیار کرنے کا دباؤ بڑھے گا جس سے بوقت ضرورت ووٹر کی شناخت ہوسکے گی۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیسے ہوگا کہ کسی ممبر نے کرپشن کی وجہ سے پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ ڈالا ہے یا پھر ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پارٹی لائن چھوڑی ہے؟ خفیہ ووٹ بہرحال آئین کا صرح تقاضا ہے۔ اتنے واضح تقاضے کو کسی بھی دوسرے مقصد کی خاطر’ چاہئے وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو’ عملی طور پر تحلیل کر دینا کسی طور پر آئین کی تشریح و اطلاق نہیں ہے بلکہ یہ آئین میں غیر اعلانیہ ترمیم کے مترادف ہے۔ اگر ووٹ نے خفیہ نہیں رہنا اور اسے کسی پروسیجر کے ذریعے آشکارا کرنے کی گنجائش نکالی گئی تو آئین نے جس خفیہ ووٹ کی بات کی ہے اس کی کیا تعبیر کی جائے گی؟ اب ایسا تو ہے نہیں ہے آئین میں مذکورہ تعبیر لایعنی و مہمل ہے۔