انسانی زندگی امتحان و ابتلاء سے عبارت ہے اگرچہ بظاہر دنیا کے حسن و جمال اور خوبصورتی و شادابی میں موت بے جوڑ سی لگتی ہے مگر زندگی کے آخری سانس اور موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ یکم مارچ 2006ء کی صبح پھولوں اور بہار و پسرلی ( پشتو زبان میں بہار کو کہتے ہیں) کی آمد پر ایک خطرناک اور دردناک سانحہ رونما ہوا اور پلک جھپکتے زندگی کی خوبصورتی موت کے صحراء یعنی تاریکی و خزان میں بدل گئی کہ زندہ و توانا آواز سالوں سے افغانستان و پاکستان کے مظلوموں کی حمایت میں سرگرم اور فعال قائد جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب پر دن دہاڑے گھر کے سامنے اپنے آبائی علاقے بوستان مین نیشنل ھائے وے میں فائرنگ کرکے لقمہ اجل بنادیئے گئے،موت کی حقیقت اور اہمیت کیا ہے یہ اپنی نوعیت اور خاصیت کے لحاظ سے منفرد اور ممتاز علمی و ادبی موضوع ہے جسے بہت سے نامور سکالرز و دانش وروں اور علماء کرام کی طرح اردو ادب کے مایہ ناز ادیب و مصنف مولانا عبدالکلام آزاد نے بھی دنیا بھر کے کامیاب انسانوں کے آخری لمحات اپنے جاندار قلم سے ضبط تحریر میں لائے ہیں۔
موت اور زندگی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ موت اور حادثے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے اگرچہ انسان پیدا بھی اپنے مرضی سے نہیں ہوتا مگر خالق کائنات کے مقررکردہ ضوابط کے تحت والدین اور خاندان کے پہلو میں پیدائش کا مرحلہ نسبتاً آسان رہتا ہے اور معصومیت کی چیخیں اور مسکراہٹیں زندگی کا آغاز کرتی ہیں زندگی حسن و خوبصورتی کے ساتھ امتحان و آزمائش کا نام ہے اسلامی طرز زندگی میں عقیدہ و ثقافت مسلسل بہتری کی طرف گامزن ہونے کا نام ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی خوبصورت آیت کو نماز کی تکمیل کا آخری کلام مقرر کیا ہے ہےیعنی حسنہ اور خوبصورتی کی دعا ، دنیا اور آخرت دونوں کے لیے مرد و خواتین اور نوجوان صبح و شام بار بار کرتے ہیں دنیا حسنہ اور خوبصورت کیسی ہو جہاں ظلم اور وحشت کے بجائے امن و آشتی ہو غربت و جہالت کے بجائے علم و ترقی میسر ہو انسان عزت اور رواداری پر عمل پیرا ہو ،یہ بنیادی معاشرتی ضروریات مالک ارض و سماء نے انسانوں کی ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ بہتر معاشی و معاشرتی نظام زندگی تشکیل دیں گے تو امن و راحت اور آسانیاں میسر ہونگے اور کمزور و ناتواں نظام سیاست و ریاست میں امن عامہ اور ترقی و خوشحالی کا معاملہ برعکس ہوگا اور غربت و وحشت معاشرے میں راج کرتے ہوئے نظر آئے گا یہ سورج کی روشنی و کرنوں کی تمازت طرح ابدی حقیقت ہے کہ زندگی کا حسن اور خوبصورتی مقصدیت،بیداری ،یکسوئی اور جاندار نصب العین کے زینے سے ہو کر گزرتی ہیں اور موت کا استقبال بھی کامیاب انسان آسانی سے کرسکتا ہے،
بوستان کلی خانان ضلع پشین میں موسم بہار کی نوید کے ساتھ 1963ء میں عبدالعزیز خان مرحوم کے ہاں پیدا ہونے والے جرآت مند قائد جناب نصراللہ خان کاکڑ،زندگی کی بازی پھول کھلنے اور خوشبو سونگھنے سے پہلے ہار گئے_ یہ دینا کی زندگی کی اصل حقیقت ہے نصراللہ خان کاکڑ مرحوم ایک خاندانی اور قبائیلی تنازعے میں لقمہ اجل بنے ان کے وہم و گمان میں بھی اس طرح کی المناک و اچانک موت کہیں نہیں سمائی تھی اور یہی دراصل زندگی کا دھوکا ہے کہ اچھا بھلا انسان موت کی تیاری و آمد سے بے خبر رہتا ہے اگرچہ ان کے گارڈ و محافظ نے موقع پر ہی قاتل کا قصہ تمام کردیا مگر جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب یکم مارچ 2006ء کی پر نور صبح اپنے دو معصوم و نوخیز صاحبزادوں سیاف خان کاکڑ اور بلال خان کاکڑ کے سامنے بے بس ہو کر اگلی دینا میں منتقل ہوگئے اور یوں لمحوں میں دینا کا قصہ تمام ہو کر آخرت کی پائیدار اور ابدی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے،
بناؤ اور بگاڑ یا تعمیر و تخریب کا الہامی ضابطے و قانون بھی عجیب ہوتے ہیں برسوں کی زندگی اور طویل محنت شاقہ سے بننے والی شخصیت و کردار زہر کے تھوڑے سے مقدار اور گولی و بارود کے ذرا سے زور سے ختم ہو کر رہ جاتی ہیں عالم اسلام کے معروف مصنف و مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا معروف کتابچہ,,, بناؤ اور بگاڑ،،،اسی اہم اور معتبر موضوع پر بھرپور علمی و فکری وضاحت فرماتی ہیں۔
جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب سکول و کالج لائف میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ کے جاندار ماحول میں انقلابی فکر و تبدیل شدہ معاشرتی تصورات سے آشنا ہوئے اور پھر موت کے لمحے تک بیقرار رہے_
اسلامی جمعیت طلبہ کے بعد وہ جماعت اسلامی میں ایڈجسٹ نہیں ہوئے جس میں ان کی بیقرار شخصیت اور بہت جلد تبدیلی کی آرزو مندی کا بڑا دخل رہا ہے،
1988ء میں مڈل سکول ڈیلی لورالائی میں اور بعد ازاں ماڈل ھائی سکول لورالائی میں خاکسار پشتون خواہ ایس او سے وابستہ رہے مگر ایک دن اپنے دوست کے ہمراہ لورالائی میں کاکڑی مسجد روڈ پر واقع حاجی اللہ نور ناصر پلازہ میں نوجوانوں کی تنظیم,,,اسلامک یوتھ فورس،،، کے دفتر گئے اور دونوں نے ممبر شپ فارم بھردیا اس دن کی خوشی و مسرت اور ماحول کی تبدیلی کا چاشنی مجھے آج تک یاد ہے اس خوشگوار لمحے نے جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب کے ساتھ بھرپور جوانی میں انقلابی جدوجھد فراہم کرنے کا موقع دیا طالب علمی اور جوان ہونے کے ناطے گھر اور معاشی ذمہ داریوں سے فراغت کے باعث ہم اسلامک یوتھ فورس اور جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب کی انقلابی اور رومانوی شخصیت کے ساتھ جڑ گئے اور یوں تین چار سالوں میں کوئٹہ،لورالائی ،بوستان و پشین اور ژوب و ہرنائی تک بھرپور سیاسی ورک کیا اور میٹرک کے امتحان کے بعد میں کچھ عرصہ کے لئے معروف مصنف و دانش ور جناب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ممتاز ادارے قرآن کالج میں زیر تعلیم رہا اور وہیں سے پنجاب یونیورسٹی کے ذریعے نوجوانوں اور طلباء کی منظم فکری اور نظریاتی گروہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو کر رہ گیا جس نے زندگی کی تشکیل و تعبیر نو میں کلیدی کردار ادا کیا اور مقصدیت و سماجی شعور سے آشنا کراتے ہوئے نصب العین سے جوڑ دیا اگرچہ بعد ازاں آخری لمحے تک جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب کے ساتھ عقیدت و احترام کا بہت قریبی تعلق رہا،
نصراللہ خان کاکڑ مرحوم جرآت مند انسان تھے اور مظلوموں و محکوموں کی دادرسی ان کی زندگی کا بنیادی وظیفہ رہا ان کی زندگی و سماجیات اور سوچ وفکر کے نکھارنے و پروان چڑھانے میں سویت یونین اور سرخ نظریات کے پھیلاؤ اور افغانستان میں روسی افواج کی مداخلت اور افغانوں کے قتل عام اور وحشت و بربریت نے جوہری تبدیلی پیدا کردی یوں وہ نوجوانی اور زمانہ طالب علمی سے ہی افغانوں کے حریت،آزادی،خپلواکی اور اسلامی طرز زندگی کے دفاع میں ہر اول دستے میں چاک و چوبند شامل رہے،وہ روس کی بربریت اور افغانوں کے قتل عام پر مضبوط و توانا آواز بلند کرتے رہے ان سخت ترین حالات میں جب ہمارے نادان دوست یہاں سرخ ٹینکوں کی آمد اور خوف سے صبح و شام علماء اور عوام الناس کو ڈراتے رہتے تھے نصراللہ خان کاکڑ نے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد اور اسلامی افغانستان کے حق میں بھرپور آواز بلند کی اور انھیں سخت ترین مخالفتوں اور حریفانہ کشمکش کا سامنا کرنا پڑا وہ جیل و قید کی صعوبتوں سے گزرے،طعنے سنے اور دھمکیاں و دھاندلیوں کی بھر مار رہی مگر جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب اس نعرہ مستانہ سے باز نہیں آئے وہ مظلوموں افغان راہنماؤں انجنئیر گلبدین حکمتیار اور پروفیسر عبد الرسول سیاف اور احمد شاہ مسعود و پروفیسر برھان الدین ربانی مرحوم کے قریب رہے،
افغانستان کا دیرینہ تنازعہ اور پشتونوں کے درمیان نظریاتی تقسیم اور اندرونی کشمکش کا ایک نہ ختم ہونے والا سلگتا مسلہ بن گیا ہے آج حالات تبدیل ہورے ہیں سویت یونین بکھر کر دوبارہ توانائی و ترقی کے ساتھ سنجیدگی اور متانت سے روس کے نام سے مزاکرات،مکالمے اور جرگے کی راہ پر لوٹ آیا ہے افغان مزاحمتی قوتوں کے لئے خیر خواہی،پاکستان سے دوستی کی آرزو مندی اور سی پیک و گوادر میں شراکت داری کے لئے جنگ کے بجائے مذاکرات اب روس کا ایجنڈا ہے ایران و ترکی کے ساتھ روس کی دیرینہ دوستی اور روابط بہتر و مثالی ہیں مگر افغان قوتیں اور خطے کے ممالک و ریاستیں اب تک نظریاتی لڑائی اور حسد و بعض میں جل رہے ہیں معاشی و سماجی مفادات کا صحیح ادراک نہ کرتے ہوئے بھی دشمنیوں اور نفرتوں کو بڑھانے میں پیش پیش ہیں پاکستان،ایران ،سعودی عرب اور ترکی و آذربائجان کے ساتھ ہندوستان و چین کو بھی اب بے لاگ جائزہ لینا چاہیے اور کابل کو مزید آگ کے شعلوں میں نہیں جلنا چاہیے،افغانوں کے درمیان باوقار اور انتہائی معتبر ڈائیلاگ و مکالمے کا آغاز بنیادی ضروریات میں سے ہیں انتہا پسندی اور بے جاء ضد و بے معنی نظریات نے افغانوں کو تباہی و بربادی کے آخری دہانے پر لاکھڑا کیا ہے جسے اب اجتماعی دانش و حکمت سے امن و آشتی اور ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور برمحل استدلال و دانش سے استفادہ کرتے ہوئے افغان غمزدہ خاندانوں ماووں اور بچوں و نوجوانوں اور بزرگوں و خواتین کے لئے ٹیکنالوجی اور اکنامک گروتھ کے راستے کھولنے کی سبیل پیدا ہوسکیں ہر طرف غم اور موت نے افغانوں کی خوشیاں منانے کا حس ہی تباہ کرکے رکھ دیا ہے،فہمیدہ افغان گوریلا لیڈر جناب انجنئیر گلبدین حکمتیار نے اسی نزاکت و انسانی تباہی کو اخذ کرنے اور سمجھتے ہوئے باوقار اور کامیاب مکالمے کی ابتداء کی اور سروخرو رہے،نصراللہ خان کاکڑ صاحب زندہ رہتے تو آج افغان حکومت اور حزب اسلامی افغانستان کے عزت مندانہ و کامیاب معاہدے پر خوشیاں مناتے،
نصراللہ خان کاکڑ صاحب نے علاقے اور عوام الناس کی مسلسل خدمت کی اگرچہ وہ انتخابات میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے مگر مسلسل خدمات و جدوجھد اور عزم و استقلال نے اسے عوام کی امیدوں کا مرکز و محور بنایا،اسلامک یوتھ فورس،اسلامی انقلابی پارٹی،جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرنے اور بعد ازاں پاکستان ورکرز پارٹی کے قیام و جدوجھد نے اسے پختہ سیاستدان بنایا،سود کے خلاف مزاحمت اور بھرپور جدوجھد نے مظلوموں اور قرض داروں میں تحفظ کا احساس پیدا کیا،
وہ معاشرتی مسائل پر بے حد حساس شخصیت کے مالک تھے اور آخری حد تک جانے کا خاصہ رکھتے تھے،
2005 اور 2006 میں جن دنوں میں جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب قتل ہوئے وہ بدامن کے خلاف بھرپور تحریک مزاحمت چلارہے تھے اور ان کے پروگرام میں ڈیرہ بگٹی و سوئی سے امن مارچ کا آغاز بھی تھا وہ وزیراعظم جناب شوکت عزیز صاحب کے مشیر مقرر ہونے والے تھے اور ایک سیاسی سفیر کے ذریعے وہ صوبے میں امن عامہ قائم کرنے میں کردار کے خواہشمند تھے ابھی نواب اکبر خان بگٹی صاحب حیات تھے مگر قدرت کا نظام کار دیکھئے اور کچھ لوگوں کا مکروہ کردار دیکھنے کے قابل ہیں کہ نصراللہ خان کاکڑ صاحب خاندانی تنازعہ کا شکار ہوئے اور نواب بگٹی صاحب کو ریاست کے سربراہ نے کھلے عام دھمکی دے کر قتل کیا گیا مگر جناب نصراللہ خان کاکڑ صاحب کے جانباز محافظ و باڈی گارڈ نے موقع پر ہی قاتل کو قتل کرکے قصہ تمام کردیا جبکہ نواب بگٹی صاحب کا قاتل اب تک سرعام گھوم پھر رہے ہیں اور سیاستدان بننے کی ناکام کوششیں جاری رکھیں ہوئے ہیں،
یکم مارچ 2021 ء کو جناب نصراللہ خان کاکڑ شھید کی پندرہویں برسی منائی جارہی ہے پلک جھپکتے پندرہ برس گزر گئے یکم مارچ 2006ء کی شام مکران کے ساحلی پٹی کا تفصیلی دورے کے موقع پر ممتاز دانشور و مفکر جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر و سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالحق بلوچ صاحب کے ھمراہ پنجگور میں تھے جب شام کو بی بی سی اردو نیوز پر نصراللہ خان کاکڑ کے المناک قتل و غارتگری اور احتجاج کی دردناک خبریں سنی یعنی صرف چودہ پندرہ سال قبل بھی ٹیکنالوجی کے کم استعمال کے باعث خبریں و اطلاعات شام کو ٹی وی کے خبر ناموں یا ریڈیو سے ملتی تھی یا اگلے صبح کے اخبارات سے،اب پل پل کی خبرSms ،واٹس آپ،ٹیوٹر سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے فوراً مل جایا کرتی ہیں،ٹیکنالوجی کی شکلیں و افادیت تبدیل ہورہے ہیں مگر ہمارے اذھان اور کلچر و رواج جامد ہیں اور جو خطرے کی اصل گھنٹی ہیں،
رب العزت مغفرت فرمائے نصراللہ خان کاکڑ مرحوم کی ان کی بھرپور جدوجھد اور استقامت کو قبول فرمائے اور معاشرتی تبدیلی و ترقی کے لئے ان کی بے تاب آرزؤں اور ارمانوں کو عملی شکل عطاء فرمائے،
ہم سب نے موت کے مرحلے سے گزر کر اصلی و ابدی زندگی کی طرف لوٹنا ہے کامیاب و کامران ہے وہ فرد جو زندگی کا فرض ادا کریں اور معاشرتی خدمت کو اپنا شعار بنائے ظلم و بربریت کے خلاف ڈٹ جائیں اور مظلوموں کا سہارا بنیں،
نصراللہ خان کاکڑ جدوجھد و مزاحمت کے علامت تھے ان کے سیاسی جانشین و بیدار مغز صاحب زادے جناب بلال خان کاکڑ صاحب،باوقار اہلیہ صاحبہ اور خاندان کا فرض ہے کہ معاشرتی تبدیلی کے لئے اپنا فرضِ ادا کریں اور شھید نصراللہ خان کاکڑ کے مشن اور نام کو زندہ و پائندہ رکھیں