اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر فیڈرل شریعت کورٹ کے ساتھ چلنا شروع کریں تو آپ کو COMSTECH یعنی Organization of Islamic Cooperation Standing Committee on Scientific and Technological Cooperation کی بلڈنگ نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پچھلی طرف پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کی عمارت ہے۔ تھوڑا سا آگے چلیں تو پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے دفتر کی بلڈنگ نظر آتی ہے۔ مزید آگے چلیں تو آپ کو پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بلڈنگ نظر آتی ہے۔ تھوڑا سے گھوم کر آگے جائیں تو آپ پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی بلڈنگ کے سامنے پہنچ جائیں گے۔
یہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں ساتھ ساتھ قائم سائینسی تحقیق و تعاون کے اداروں کے دفاتر کی تفصیل ہے۔ اس شہر بے مثال میں دیگر کئی مقامات پر سائنسی تحقیق کے لئے قائم کردہ حکومتی اداروں کی وسیع و عریض عمارتیں موجود ہیں۔ ریڈ زون میں قائم ان عمارتوں کا خرچ اور ان میں کام کرنے والے لوگوں کی تنخواہوں اور سالانہ بجٹس کا بوجھ ملک کے عوام کے ٹیکسوں سے جمع کردہ میزانیہ پر ڈالا جاتا ہے۔ اسلام آباد کے سب سے قیمتی علاقے میں قائم ان چند دفاتر کی صرف زمین کی قیمیت کا تعین بھی کیا جائے تو معاملہ اربوں روپوں تک جا پہنچتا ہے۔
ان تمام وسائل کو صرف کرنے کے بعد اور سائنسی تحقیق کے اداروں کو پاور کاریڈورز کے پڑوس میں بسا کر ہم یہ سوال کرنے کا حق تو رکھتے ہیں کہ آخر سائنسی تحقیق کے ان اداروں کا آوٹ پٹ کیا رہا ہے؟ وہ کون سی سائنسی و طبی ایجادات ہیں جو ان اداروں کی کوششوں سے پاکستان کے عوام کو میسر آسکیں ہیں؟ ان اداروں کی کوششوں سے سائنسی تحقیق کے وہ کون سے پہلو ہیں جن کو مقامی سطح پر پاکستان میں پروان چڑھا کر ان اداروں نے ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار ادا کیا ہے؟ ان اداروں کی پالیسیوں اور فنڈنگ سے کتنے ایسے پیٹنٹس پاکستان میں اور بیرون ملک حاصل کئے گئے ہیں جن کی حقیقی کمرشل ویلیو لائسنسنگ کی صورت میں سامنے آ سکی ہے؟ پیپرز مشین پروفیسرز کے جنک پیپرز (ایک پیپر پر ڈے کے تھوک کے حساب سے) کے علاوہ کون سی ٹیکنالوجی ان اداروں کے ذریعے پروان چڑھی جو کراچی’ لاہور’ فیصل آباد’ سیالکوٹ وغیرہ میں قائم صنعت میں ٹیکنیکل know-how کے طور پر استعمال ہو رہی ہے؟
یہ سوالات اور ان سے جڑے ہوئے دیگر کئی سوالات صرف ریڈ زون میں قائم شدہ ان اداروں سے کرنے کے لئے نہیں ہیں۔ یہی سوالات ہم ایچ ای سی اور پاکستان بھر کی جامعات سے بھی کرنا چاہتے ہیں کہ ایچ ای سی کے قیام کے ساتھ ہی NRPU اور دیگر پراجیکٹس کے ذریعے سائنسی تحقیق کے لئے جو فراخدلانہ فنڈز دیئے گئے ان سے مستفید ہونے والے پراجیٹکس کی actual impact assessment کیا رہی؟ پراجیکٹس رپورٹس تو بہت سے وجود میں آئیں جو فائلوں اور ڈبوں میں بند ہو چکی ہیں مگر پاکستان کے عوام اور مقامی صنعتوں کو ان سب پراجیکٹس سے کیا فائدہ حاصل ہو سکا ہے؟
ہم جب بھی اس موضوع پر لکھتے ہیں تو سائنسی تحقیق و دریافت کے شعبے سے وابستہ ہمارے مہربان اور دوست ناراض ہو جاتے ہیں۔ وہ اسے ذاتی تنقید پر محمول کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے ایک مہربان نے ایسی ہی ایک تحریر پڑھنے کے بعد بھری میٹنگ میں ہمیں ایچ ای سی اور یونیورسٹی کے خلاف کمپین کا مرتکب قرار دے دیا۔ یہ صاحب پوری زندگی خود کو سائنسدان کہلانے اور کہلوانے کی کوشش کرتے رہے مگر آج تک ایک ایسی سائنسی ایجاد ان کے پلے نہیں ہے جسے یہ کسی معمولی سی انڈسٹری کو لائنسس کر سکے ہوں۔ ڈبہ بند پیپرز اور تحقیق کی بنیاد پر (جن میں سرقے کی کہانی ملک کے ایک نامور استاد اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں اور موصوف اس سرقے کے جرم سے معافی مانگ کر اور یہ کہہ کر نکلے کہ ان کا سرقہ ایچ ای سی کی سرقہ پالیسی کے منظر عام پر آنے سے پہلے کا تھا!) اس طرح کے لوگ سائنسی تحقیق کے فنڈز کو شیر مادر سمجھ کر ڈکار رہے ہیں۔ ہم ان تمام احباب سے گزارش کرتے رہتے ہیں کہ ہمارا مقصد قطعی طور پر سائنسی تحقیق کے لئے دستیاب وسائل و فنڈز کو روکنے کی کمپین کرنا نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فنڈز پہلے ہی بہت کم ہیں اور سائنسی پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز کے لئے بھی مزید ریسرچ فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ مگر وسائل کی کمیابی کے اس دور میں یہ پوچھنا ضروری ہے کہ اربوں روہے کے جو فنڈز ان اداروں پر خرچ کئے جاتے رہے ہیں ان کا کوئی حقیقی نتیجہ بھی نکلا ہے یا نہیں؟
باقی رہی ریڈ زون میں قائم سائنسی اداروں کی کہانی تو وہاں پاور اور مناصب کا جو گندہ کھیل چلتا ہے اسے واقفان حال بخوبی جانتے ہیں۔ ان تمام اداروں کو فوری طور پر یہاں سے نکال کر جامعات میں منتقل کیا جائے کہ جھوٹی سچی ریسرچ اگر کہیں ہوتی ہے تو وہ یہ جامعات ہی ہیں۔ یہ ایک نام نہاد سی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل اشرافیہ جو اسلام آباد کے پاور کوریڈورز میں گھومتی ہے’ سارا کھیل انہوں نے اپنے مفادات کے گرد گھما رکھا ہے۔ انہیں واپس کیمپسز میں بھیجیں تو کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔