ماں، بابا اور تینوں بھائیوں کی لاڈلی گڑیا تھی وہ….
چھوٹی سی فراک پہنے، گڑیا گڑیا کھیلتی گڑیا نہ جانے کب بڑی ہو گئی….. معلوم ہی نہ چلا…
دور اندیش ماں، اپنی حیثیت کے حساب سے ایک نئے اور بڑے سے صندوق میں چھوٹی موٹی چیزیں بھرنے لگی-
بابا نے بھی فیکٹری میں اوور ٹائم کرنے کے اوقات بڑھا دیے- اب وہ اکثر اتوار کو بھی اوور ٹائم لگا آتے اور ماں کو کہتے…
اری نیک بخت گھر بیٹھ کر کرنا ہی کیا ہے-
بڑے بھیا نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیوشنز پڑھانا شروع کردیں اور شام کو ہائی وے پر ایک ریسٹورنٹ میں ملازمت-
چھوٹے دونوں بھائی اچانک ہی ذمہ دار ہو گئے اور ساتھ ہی اپنی غیر ضروری اور بے جا خواہشات سے دستبردار بھی-
شاید ساری بہنوں کے بھائی کم عمری میں ایسے ہی ذمہ دار ہو جاتے ہیں-
جب بھی ماں، بابا سے سرگوشیوں میں اس کے ہاتھ جلدی پیلے کر دینے کی خواہش کا اظہار کرتی تو وہ بغور اپنے ہاتھوں کو دیکھتی کہ اچھے بھلے اس کے ہاتھ پیلے ہو کر کیسے لگیں گے-
جلد ہی اس کو ہاتھ پیلے ہونے کی سمجھ بھی آ گئی، جب ایک شام کچھ سجی سنوری، میک اپ زدہ خواتین، ہر ہر زاویے سے اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد اس کے منہ میں زبردستی مٹھائی ٹھونس گئیں-
اس کو میٹھا کبھی پسند نہیں تھا!!
اور شاید قدرت کو اس کی یہ بات!!
ماں پرجوش ہو کر بولی اب میری گڑیا کی قسمت بدلے گی- اپنے گھر جا کر!!
گڑیا سوچتے رہ گئی کہ اتنے برسوں سے پھر وہ کس کے گھر میں رہ رہی تھی-
گھر بدلا، دہلیز بدلی، قسمت پھر بھی نہ بدلی-
البتہ زندگی میں اپنوں کی محبت کی شیرینی نمکین آنسوؤں سے بدل گئی-
جس کا نام اس کے نام کے ساتھ جُڑا تھا… اُس کو اِس نام کے جُڑنے سے زیادہ ذرا ذرا سی غلطی پر ہاتھ جَڑنا زیادہ اچھا لگتا تھا- گڑیا کو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا مگر وہ یہ سب پلٹ کر دیکھنا بھی کہاں گوارا کرتا تھا البتہ رات اپنی ضرورت بڑے اہتمام سے پوری کرتا-
گڑیا سوچتی کاش اس ضرورت میں ہی تھوڑی سی محبت بھی شامل ہو جاتی تو کیا ہو جاتا-
باقی پورا دن پھر وہی عورتیں، جو بس اس دن مٹھائی کھلانے کے وقت اس کے سامنے مسکرائی تھیں، زہر اگلتے رہتیں-
انہیں ماں کا بھیجا ہوا صندوق جو پسند نہیں آیا تھا-
بقول ان عورتوں کے اسی صندوق میں بہت کچھ آ سکتا تھا-
ماں بھی کتنی بھولی تھی جو اسے ڈھنگ سے صندوق بھرنا بھی نہ آیا تھا-
پھر گڑیا کے پیلے ہاتھ نیلے ہو جاتے-
لفظوں کے نشتر روح پر سہنے کے علاوہ اُن عورتوں کے وار وہ اپنے ہاتھوں پر جو روکتی تھی-اس کی بس یہی کوشش ہوتی کہ کوئی ضرب اس کی کوکھ پر نہ لگنے پائے جہاں معصوم دھڑکنوں کا رقص جاری تھا-
ویسے یہ گھر بدلنے کے بعد ماں باپ بھی کتنے مطمئن ہو جاتے ہیں نا!!!
ماں کبھی کبھی جب اس سے ملنے آتی تو اس کو دیکھ کر نہ جانے کیوں نظریں چرا جاتی، مگر بابا جاتے وقت اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کی ہمت ضرور بندھا جاتے-
شاید صندوق ڈھنگ سے بھر کر نہ بھیجنے کا افسوس ماں کو بھی ہوتا ہوگا-
مگر اس نے تو کبھی کچھ نہیں بولا تھا!!
نہ ماں بابا کو اور نہ ہی ان عورتوں کو-
وہ محبت اور نفرت سے بھرے جذبات کے سمندر میں برداشت کے چپوؤں سے اپنی شکستہ سی کشتی چلانے کی بھرپور کوشش کرتی-
کبھی کبھی وہ اپنے اس صندوق کو دیکھتی اور سوچتی کہ اس صندوق میں ایسا کیا بھرا جانا چاہیے تھا جس سے ان عورتوں کا دل محبتوں سے بھر جاتا اور وہ خوش ہو جاتیں-
صندوق تو نہ بھرسکا تھا مگر پھر ایک دن برداشت کا پیمانہ اتنا لبریز ہوا کہ چھلک پڑا…..
مگر اس کی برداشت کا نہیں….
کھانا پکاتی گڑیا کو، روزمرہ معمول سے ہٹ کر، لفظوں کی تپش روح کے علاوہ اپنے بدن پر بھی محسوس ہوئی-
آج دوسری بار گڑیا نے ان عورتوں کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا-
کتنی پر اسرار مسکراہٹ تھی!!!
پھر ڈاکٹروں نے گھر والوں کو بتایا کہ اس کا پچھتر فیصد سے زائد جسم جل چکا تھا-
اس کی کوکھ میں جاری معصوم دھڑکنوں کا رقص یکلخت تھم گیا تھا، شاید ان کے لیے اس جھلساتے استقبال کی حدّت اور شدّت کو برداشت کرنا مشکل تھا-
اس کے اطراف کھڑے اس کے ماں، بابا، بھائی…. بس اپنے ہی تو پریشان تھے-
کچھ نہیں ہوگا گڑیا-
تو واپس ہمارے ساتھ اپنے گھر چلنا-
سب ٹھیک ہو جائے گا-
اپنا گھر!!!! اس نے حیرت سے سوچا-
پھر وہ کس کا گھر تھا؟
سانسیں اکھڑنے لگیں-
اور آج نہ جانے کیوں…..
اس کی رکتی سانسوں کو دیکھ کر سب سے زیادہ وہی لوگ گھبرا رہے تھے، جو اِس وقت اس کو ہمت دلا رہے تھے-