ڈاکٹر اسٹیبلشمنٹ کی ٹیسٹ ٹیوب بے بی۔ “میں ہوں نا”۔ یہ صرف تین لفظ نہیں….بلکہ وینٹی لیٹر پر پڑے وجود کو لگی آکسیجن ہے جو اسے آس اور امید پر زندہ رکھتی ہے.. کہ… کبھی نہ کبھی وہ خود بھی سانس لینے لگے گا. (میری بہن اسری غوری کی تحریر سے اقتباس)
ہماری بھی یہی حالت ہے، مریض مستقل وینٹیلیٹر پر اسی اُمید میں بیٹھے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو خود ہی سانس لینے لگے گا۔ آج سے پندرہ ماہ پہلے جب بچہ دنیامیں آیا تو سارے گھر والے انتہائی خوش اور اسکے اعلی مستقبل کی اُمیدوں قائم کئے ہوئے۔
درحقیقت بہت ہی مشکل علاج بلکہ IVF ٹیسٹ ٹیوب پروسیس کے ذریعے ڈاکٹر اسٹیبلشمنٹ کی پوری مدد سے بمشکل یہ حمل ٹہرا اور پیدائش بھی آسان نہیں تھی ماں کی زندگی کو بھی خطرہ تھا (بلکہ Postpartum complications کے اثرات ابھی تک ماں کی صحت و زندگی پر منڈلا رہے ہیں)۔
اب حالت یہ ہے کہ ایک طرف تو بچّے کے شوق میں ماں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا اب بچّہ اور ماں دونوں کئ حالت نازک ہے یعنی نہ خدا ملا نہ وصال صنم۔ اسٹیبلشمنٹ ہسپتال کے ڈاکٹروں کا مسئلہ یہ ہے کہ مشکل سے مشکل”آپریشن” کر تو مہارت سے لیتے ہیں لیکن آپریشن کے بعد کی نگہداشت کے معاملے میں انکا ریکارڈ اچھّا نہیں ہے۔ عموماً مریض یا تو جلد ہی وفات پا جاتا ہے یا کسی اور مسابقتی اسپتال میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر یہ بھول کر کہ جیسی بھی زندگی ہے اسکے ابتداء تو اسٹیبلشمنٹ اسپتال اور اسکے ڈاکٹروں کا احسان ہے (بعد میں انہیں تبرّا بھیجنے والوںُ کی قطار سب سے آگے ہوتا ہے)۔
کچھ تو واقعی ناخلف ہوجاتے ہیں کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی شاید نہ جانے کس “عنصر” سے پیدا ہوئی، باقی جب ڈاکٹر ناکام تجربات کو تلف کرنے کی بجائے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس لئے ناراض ہو جاتے ہیں “پیدا کیا تو پالتے کیوں نہیں”۔
ہمارے یہ ڈاکٹر ہمیشہ “ کھایا پیا کچھ نہیں !! گلاس توڑا بارہ آنے” پر یقین رکھتے ہیں۔ سائنس پر انکا یقین ماشاءاللہ نہ جانے کتنی ناکامیوں کے باوجود ۔۔ تجربات جاری ہی رہتے ہیں کہ کبھی تو کامیابی انکے” بُوٹ” چومے گی۔
دوسری طرف بچّہ بھی انتہائی کمزور خود سانس لینے میں مشکلات کا شکار فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ اسپتال کے وینٹیلیر پر منتقل کردیا گیا۔۔توقع تو یہی تھی کہ چند دنوں میں خود ہی سانس لینے کےقابل ہو جائے گا۔
لیکن اے بسا آرزوے بسا شدہ۔ اب تو والدین بھی اخراجات بھی برداشت سے باہر ہو گئے ہیں۔ اب لیکن چونکہ ابھی تک برین ڈیڈ بھی نہیں ہے اس لئے وینٹیلیٹر بند کرنا بھی مشکل ہے۔
اب تو یہ حال ہے کہ پیدائش پر خوشیاں منانے والے اب صحت یا اللہ سے اسکی “مشکل آسان” ہونے کی دعاء کرنے لگے ہیں۔ آئندہ چند ماہ اہم ہیں کہ ایک مشہور مولانا بجائے دعائے صحت کے نہ صرف وینٹیلیٹر بلکہ “ٹیسٹ ٹیوب” طریقہ پیدائش کو بھی حرام قرار دے کر اسے بند کرنے کا فتوی دے رہے۔ ڈاکٹر اور اسپتال بھی جتنا کمانا تھا کما چکے اب شاید اس مریض سے جان چھڑانے کا کوئی باعزت طریقہ ڈھونڈنے کوشش کررہے ہیں۔
اب دیکھیں مولانا جیتتے ہیں یا مریض معجزاتی طور پر سانس لینے کا قابل ہوجاتا ہے، یا ڈاکٹر خاموشی سے وینٹیلیٹر بند کرکے بے بی کی قدرتی وفات کا اعلان کے ذریعے اپنی جان چھڑائیں (تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو)اور کسی نئے بے بی کے لئے جگہ خالی کردیتے ہیں۔