ادب تفریح ہی کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد بھی ہوتا ہے۔ یہ مقصدیت اور افادیت اجتماعی زندگی کی ترجمانی میں خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ اسی لیے اور ادب میں اس اجتماعی اور سماجی زندگی کی ترجمانی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ شاعری میں غزل سب سے زیادہ مقبول صنف ہے۔ اسی طرح شاعری بھی صرف مرصع سازی کا نام نہیں بلکہ فرد اور معاشرے کے درمیان پائی جانے والی کہانی ہے جس میں غم و یاس کا بھی ذکر ہے تو رنگ ونشاط کے خلوت خانے بھی ۔
نئی نسل کے شاعر عرباض عرضی کی شاعری میں محبت بھی ہے،محبت کا غم بھی ہے،زندگی کی تلخیاں بھی ہیں اور سب سے اہم پیغام یعنی نئی روشنی کی امید بھی ہے اور ادائے مطلب میں بے انتہا سادگی بھی۔
عرباض کا پہلا مجموعہ کلام “دوبارہ” مجھے28ستمبر بروز پیر 2020 کی شام موصول ہوا۔اس کی ورق گردانی کے بعد میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ عرباض نئی نسل کے ایسے شاعروں میں شمار کئے جانے کے قابل ہیں ۔جن کے اندر ایک تخلیقی دنیا آباد ہے جس کے عناصر جب خارجی دنیا سے ٹکراتے ہیں تو تصادم کا اظہار لا محالہ زبان کے اس مرکب رنگ ہی سے ہو سکتا ہے جو اپنی روشنائی خارجی فضا سے اور سرخی خون دل سے مستعار لیتا ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ عرباض نئ نسل کا وہ شاعر ہے جو اپنے درد کے احساس سے محبت کے پھول کھلانا جانتا ہے۔وہی خاموش نظروں کی پہچان بھی رکھتا ہے۔اور جب اپنے نام پر کہرام برپا ہوتے دیکھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا درد کم ہو رہا ہے۔
اس کو بھی مرے درد کا احساس ہوا تھا
ایک پھول محبت کا مرے دل میں کھلا تھا
کچھ شعر غم ہجر سے پہلے بھی ہوئے تھے
اک شخص مجھے عشق سے پہلے بھی ملا تھا
اظہار کی اب کوئ ضرورت ہی نہیں تھی
خاموش نظر نے مجھے پیغام دیا تھا
چھیڑا تھا کسی نے جو وہاں زکر تمہارا
سنتے ہی ترا نام مرا سانس رکا تھا
عرباض وہ لوٹ ائے گا کیسے یہ بتاو
جو شخص مرے دل سے کہیں بھی نہ گیا تھا
دشمن کو یہ امید تھی میں زندہ رہوں گا
یاروں کی کہانی میں مجھے مار دیا تھا
اس غزل کے اشعار پڑھ کر عرباض سے یہ کہنا ہے کہ کہانی میں کردار بےشک مر جائیں لیکن محبت اپنے کرداروں کو کبھی مرنے نہیں دیتی اور تم تو محبت کے شاعر ہو۔اور اس غزل کے اشعار کا حوالہ ایک داستان ہے جو قاری پر خود بخود عیاں ہوتا جاتا ہے۔
عرباض کی شاعری فنی اعتبار سے کسی حد تک مکمل ہے۔ ابھی تو اس میدان کے وہ شہسوار ہیں اور یقیناً نئی طرز نگارش سے قلم کی تاثیر کو اشعار کے ذریعے ابھار کر اپنا نام روشن کر سکتے ہیں۔اور انشااللہ کریں گے۔
عرباض کی شاعری میں سادگی اور گہرائی ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے
بچ کے رہنا ذرا سمندر سے
چھپ کے بیٹھا ہے ناگ پانی میں
مار کر مجھ کو مرے قاتل نے
سرکشی قبر میں اتاری ہے
خوب رم جھم ہوئی کناروں پر
تشنہ لب ہم رہے سمندر میں
سارے دریا میں آگ تھی عرضی
اور ہم کو عبور ہونا ۔۔۔۔۔۔۔تھا
شاعر سچ کہتا ہے اور یہی سچائی ادب کی خدمت ہے۔محبت میں اصولوں سے کنارہ کا درس دینے والا یہ شاعر استخارہ کے زریعہ بھی اس محبت کا علاج چاہتا ہے۔ عرباض تمہیں بہت بہت مبارک ہو تمہارا پہلا مجموعہ منظر عام پر آگیا ہے۔جو تمہاری کامیابی ہے۔دعا ہے تمہاری یہ تازگی،تمہارا نیاپن،اور تمہاری یہ سخن وری تمہاری پہچان بنی رہے۔اور تمہارا ادبی سفر کامیابی کی طرف گامزن رہے۔آمین