پوری دینا میں سائنسدان کورونا وائرس کے علاج کے لئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں، لیکن ایک بچّی کانام ان کوششوں میں نمایاں طور پر سامنے آیا ہے۔
2020 کے 3M ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ جیتنے والی امریکی ریاست ٹیکساس کے قصبے فرسکو، کی 14 سالہ بھارتی نژاد انیکاچیبرولو
Anika Chebrolu نے 25000 ڈالر کا انعام بھی جیتا، لیکن اسکی ایجاد ممکنہ طور کورونا وائرس کے علاج میں ایک اہم پیش قدمی بن سکتی ہے۔
آنیکا نے in-silico methodology کے زریعے ایسا مالیکیول تلاش کیا ہے جو سارس کووڈ (SARS-CoV-2) وائرس کو اکھٹا کردیتی ہے۔
انیکا نے سی این این کو انٹرویو میں کہا “گذشتہ دو دنوں میں میرے پروجیکٹ کے بارے میں میڈیا میں بہت گفتگو ہورہی ہے کیونکہ اس کا تعلق کووڈ (SARS-CoV-2) وائرس سے ہے۔ جو کہ ہماری مشترکہ خواہش کا اظہار ہے کہ کس طرح اس وباء سے جان چھُڑائی جائے۔ہر شخص کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ ہم اپنی عام زندگی کی طرف جلد از جلد لوٹ سکیں”۔
کورونا وائرس چین سے شروع ہوا اور سب تک دنیا بھر میں ۱۱ لاکھ سے زائد افراد کی اموات کا ذمہ دار ہے، امریکہ میں اب تک 225,000 سے زائد جانیں لے چکا ہے۔
انیکا نے اپنا پروجیکٹ اسوقت مکمل کیا تھاجب وہ آٹھویں جماعت میں تھی لیکن اسوقت اس کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ وہ کووڈ 19 کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ابتدائی طور پر اسکا خیال تھا کہ in-silico طریقے کو استعمال کرکے کوئی ایسا مرکزی عنصر تلاش کیا جائے جو انفلوئیزا وائرس کے پروٹین کو یکجا کرسکے۔
انیکا نے بتایا کہ “اتنا وقت وائرس، وباؤں، اور ادویات کی ایجادات کے بارے میں تحقیق و مطالعے کے بعد یہ پاگل پن لگتا ہے کہ ہم اب تک اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں۔چونکہ کورونا وائرس نے دنیا میں اتنے کم عرصے اتنی تباہی مچائی ہے اس لئے اپنے استاد یا کے مشورے سے میں نے اپنے پروجیکٹ کو SARS-CoV-2 پر مرکوز کردیا۔”
انیکا کا کہنا ہے کہ وہ 1918 کے فلُو وباء کے بارے میں پڑہنے اور یہ جاننے کے بعد کہ تمام تر ویکسینوں اور انفلوئیزا کی ادویاء کے باوجود ہر سال امریکہ میں اموات کاسلسہ جاری ہے ،کے بعد وائرسوں کے علاج تلاش کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
3M کے اس مقابلے کی جج ڈاکٹر سنڈی موس کا کہنا ہے کہ” انیکا ایک تحقیقی ذہن کی مالک بچّی ہے اور اس نے اپنی جاننے کی خواہش کو کورونا کی ویکسین کے بارے میں سوالات پوچھنے کے لئے استعمال کیا، اس کا کام تفصیلی ہے اور اس نے بہت زیادہ تحقیق کی ہے۔ اس سارے عمل میں اسے تخلیق کاری کے عمل کی سمجھ بھی آئی اور وہ اپنے خیالات کو پیش کرنے کی شاندار صلاحیت رکھتی ۔ اس کا اپنے وقت اور صلاحیتوں کو دنیا کی بہتری کے لئے استعمال کرنے کا عزم ہم سب کے لئے اُمید افزا ہے”۔
انیکا کا کہنا ہے کہ اعلی ترین نوجوان سائنسدان کا اعزاز جیتنا اس کے لئے اعزاز ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔اسکا اگلا ہدف سائنس دانوں اور محققین کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اپنی تحقیقات کے نتائج کو آگے بڑہاتے ہوئے وائرس سے ہونے والے امرض اور اموات پر قابو پانا ہے۔
“میری ایسے عنصر کی تلاش کی کوشش جو SARS-CoV-2 کورونا وائرس کے پروٹین کو اکٹھا کرسکے بظاہر سمندر میں ایک قطرے کے مترادف ہو لیکن پھر بھی ان تمام (اس وائرس سے مقابلے کی) کوششوں میں میرا حصہ تو ہوا، اب اس مالیکیول کو آگےکس طرح بڑہانا ہے، اسکے لئے ماہرین virologists اور دوا سازی کے ماہرین مل کر کوشش کریں تب ہی اس می کامیابی کا فیصلہ ہوگا۔
اپنے ڈاکٹر یا سائینس دان بننے کے خواب کی تکمیل کے لئے پڑہائی اور لیباریٹری میں ریسرچ کے علاوہ انیکا ایک عام 14 سالہ بچّی بھی ہے، تعلیم اور ریسرچ کے علاوہ وہ گزشتہ آٹھ سال سے انڈین کلچرل ڈانس سیکھ رہی ہے۔