قومی معاملات جس رخ پر چل نکلے تھے، ان میں امور ریاست اگر کسی حادثے سے دوچار نہ ہوتے تو حیرت ہوتی۔
کراچی میں جس انداز میں کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا اور ان کی گرفتاری ہوئی، اس پر سندھ پولیس کی طرف سے انتہائی سخت ردعمل آیا ہے۔ سندھ پولیس کے گریڈ اکیس کے ایک افسر عمران یعقوب نے چھٹی پر جانے سے قبل اپنی درخواست میں لکھا کہ پولیس کو بے عزت کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد پولیس کا مورال ڈاؤن ہو چکا ہے۔
ان واقعات سندھ پولیس نے مشترکہ طور پر ردعمل کا اظہار کیا ہے اور تقریبآ تمام تر اہم افسروں نے بطور احتجاج چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔ بریں ہیں کہ ان افسروں کا فیصلہ ہے کہ اگر اس معاملے کو مناسب طریقے سے ڈیل نہ کیا گیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ڈیوٹی پر کبھی واپس ہی نہ آئیں۔
قومی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو گا کہ کسی صوبے میں پوری کی پوری پولیس فورس ہی ایک واقعے پر احتجاج کر کے رخصت پر چلا جائے۔ فوری طور پر یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ بحران صوبے کی سطح پر پیدا ہوا ہے لیکن فی الحقیقت یہ ایک قومی بحران ہے جس سے پورا نظام داؤ پر لگ گیا ہے۔
اب یہ ایک نازک بات ہے لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک کے دو ادارے آمنے سامنے اکھڑے ہوئے ہیں۔
سندھ پولیس کے اس ردعمل کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود سیاسی بحران میں سب ریاستی ادارے بھی شریک ہو گئے ہیں۔ یہ سب اس طرز عمل کا نتیجہ ہے جس کا چلن 2018ء کے انتخابات کے بعد شروع ہوا۔ بدیہی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نظام ریاست ایسے کوتاہ اندیش اور کم فہم لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جن کی نگاہ میں نظام ریاست اور اس کی نزاکتوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اس طرز عمل کی فی الفور اصلاح ہونی چاہئے اور ایسے حادثات کے ذمہ داروں کا ہاتھ پکڑنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں کے طرز عمل کی وجہ سے ملک میں انارکی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔