“تم کچھ لوگوں کو ہمیشہ احمق بناسکتے ہو، اور کبھی کبھی تمام لوگوں بھی بیوقوف بنا سکتے، لیکن تم تمام لوگوں کو ہمیشہ بیوقوف نہیں بنا سکتے”
ابراہام لنکن
ہمارے ایک عاشق “تبدیلی “ دوست نے کتابی چہرے یعنی فیس بُک پر بین القوامی بازار میں تیل کی قیمتیوں میں 80 ڈالر فی بیرل تک جانے کا مژدہ سُنا کر آئندہ ماہ پیٹرول بم کے دھماکے لئے تیار کرتے ہوئے طنز کیا ہے کہ کیا اسکی ذمہ داری بھی عمران خان پر ہو گی؟
کوئی ہم کو بتلائے کہ بتلائے کیا!!
جب ہم نے انہیں متوجہ کیا کہ ماشاء اللہ 2011 سے 2014 تک تیل کی قیمتیں 91 سے110 فی بیرل کے درمیان تھیں۔اسوقت تو شاید ہمارے ہاں پیٹرول 200 روپے فی لیٹر ملتا ہوگا؟
اس پر انہوں نے ناراض ہو کر یہ جواب دیا :-
1۔ اس وقت ڈالر کی قیمت 98 روپے تھی
2۔ ڈالر کی قیمت 98 پر رکھنے کے لیے سالانہ 3 بلین ڈالر اوپر لگائے جاتے تھے 3 بلین ڈالر سالانہ کو پٹرول کی قیمت میں شامل کرو اور کیلکولیشن کرکے بتاو کہ پٹرول کی اوریجنل قیمت کتنی بنتی ہے۔
جس چیز کا علم نہ ہو اس میں ٹانگ نہیں اڑاتے
کوئی ہم کو بتلائے کہ بتلائیں کیا!!
اسوقت تو صرف 2011 سے 2014 تک تیل کی قیمتوں کو بنچ مارک بنایا ۔جہاں تک ڈالر کو اسٹیبلائیز رکھنے کا 3 بلین ڈالر کے خرچے پورا پورا تیل کی امپورٹ پر تھوپنا بھی غیر حقیقی اور لوگوں کو بیوقوف بنانے والی بات ہے۔ کہ ڈالر کی شرح کمی و بیشی کا اثر ساری درآمدات پر ہی پڑتا ہے نہ کہ صرف تیل پر۔
2014 میں ہماری جملہ درآمدات 47 بلین ڈالر تھی بشمول تیل کے۔اگر مان بھی لیا کہ سابقہ حکومتیں تین بلین ڈالر خرچ کرکے ڈالر 98 یا سوروپے کی حدپر رکھنے میں کامیاب ہو گئی تھیں تو یادرہے کہ یہ تین بلین ڈالر کا خرچہ صرف تیل ہی نہیں بلکہ 47 بلین کی امپورٹ پر تقسیم کردیا دیا توبمشکل 6.3% فیصد اثر آتا ہے۔
جبکہ 2018 میں جب شاہد خاقان عبّاسی کے دور وزارت عظمی میں تب بھی ڈالر 110سے 115 کے درمیان ہی گشت کررہا تھا ، یہاں تین سالوں میں درحقیقت روپیہ 50% سے زیادہ ڈی ویلیو ہو گیا ۔آج 171 سے بھی اوپر کی بات ہورہی ہے اور جانے کہاں رُکے گی۔
حالیہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لئے تکلیف دہ تو ہے لیکن درحقیقت 2018 شاہد خاقان عباسی کے دور حکومت میں جب بین القوامی منڈی میں تیل قیمتیں 35 ڈالر فی بیرل اور پاکستانی روپیہ 110 روپے کے آس پاس تھا اسوقت بھی ہمارے ہاں پیٹرول کی قیمت ڈالر کے ریٹ کے لحاظ سے اس وقت 35 ڈالر فی بیرل والا تیل 0.75$ فی لیٹر 87 روپے فی لیٹر کے حساب سے مل رہا تھا۔ آج تیل کی بین القوامی قیمت 77 ڈالر فی بیرل سے اوپر ہے، جبکہ ریٹیل قیمت ڈالر کی موجودہ قیمت کے مطابق اب بھی 0.75$ فی لیٹر ہے۔
اس لحاظ سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت عوامی ردعمل کی وجہ سے پیٹرول کی قیمتوں کو کم سے کم رکھنے کی ازحد کوشش کررہی ہےلیکن حالیہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ نے ان کے ہاتھوں کو بھی باندھ دیا ہے۔
جہاں تک مجموعی مہنگائی کی بات ہے درحقیقت موجودہ حکومت کی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ کی پالیسی کی وجہ سے ہماری درآمدات کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی۔
اس کے ساتھ ہی مقامی مافیا و کارٹیل جو کہ آٹے چینی و دیگر اشیائے ضرورت کو کنٹرول کرتے ہیں (جن کا کھُرا ہمارے وزیراعظم کے اہل دربار ہی سے ملتا ہے) نے قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کے ذریعے عوام کی کمر توڑنے اپنا کردار ادا کیا۔ان سے نہ روپے کی قیمت قابُو میں آئی اور نہ چینی ، آتا و دیگر مافیا کے خلاف کچھ کر سکے۔
یقیناً ایکسچینج ریٹ کی اضافے کی ذمہ داری اس حکومت ہی کی ہے ۔ جتنی بھی روپے و ڈالر کی شرح مبادلہ پر بحث کی جائے یہ ایک حقیقت ہے ہم زیادہ تر چیزیں برامد کرتے ہیں۔ اور ڈالر کے تبادلے کی شرح براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتی ہے۔
جہاں تک کرنسی کی غیر حقیقی شرح تبادلہ کی بات ہے یہ کوئی اچھوتی بات نہیں ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے مرکزی بینک اپنی پالیسی کے مطابق اپنے ایکسچینج کی قیمت کو مطلوبہ حد میں رکھنے کے لئے مداخلت کرتے ہیں۔اس حکومت نے بھی شنید ہے کہ حال ہی میں 2 بلین ڈالر بازار میں پھینکے ہیں۔تب بھی آج ڈالر 172 کو چھو چُکاہے۔
چین نے درحقیقت اپنی کرنسی کی شرح مبادلہ کم رکھی ہوئی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے۔اگر اس کی کرنسی کی قیمت بڑھتی ہے تو بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی مصنوعات کی قیمتیں مہنگی ہو جائیں گی۔اس لئے وہ امریکہ کے انتہائی دباؤ کے باوجود اپنے کرنسی کے دام بڑھانے پر راضی نہیں ہے۔
یقینا اس تباہی کا کوئی نہ کوئی تو ذمہ دار ہوگا، پر اپنے گریبان میں کون جھانکے۔کم از کم یہ تو نہیں کریں گے – اوپر سے سوشل میڈیا پر چھوڑے ہوئے گوئیبلز کے ذریعے جھوٹی کہانیاں پھیلا کر سمجھتے ہیں کہ لوگ احمق ہیں۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود اگر ڈالر کو 100 پاکستانی روپے کے قریب رکھتے اور اپنے دوستوں کی آٹا چینی مافیا کو نتھ ڈالنے والے دو کام کرلیتے تو آج والا حال نظر نہیں آتا، عوام یقیناً انہیں دوسرا موقع دینے پر راضی ہو جاتے، کہ بد انتظامی تو ہمیشہ ہی رہی ہے ، یہ مہنگائی کا طوفان ان دو ہی معاملات کا نتیجہ ہے، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت ۔
اس حکومت کی معیاد کے ختم ہونے میں دو سال سے کم عرصہ رہ چُکا ہے، غالبا انہیں بھی اپنی کارکردگی و عدم کارکردگی کا احساس ہے۔ اگر کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج بھی انہیں جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی ہوں تو اللہ ہی ان پر رحم فرمائے۔
بظاہر وقت تیزی سے پھسلتا جارہا ہے، زمینی حقیت یہی ہیں کہ حُکمران جماعت کا بنیادی حامی اب بھی موجود ہے۔ لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن اور جذباتی حامی اسے ملنے والے ووٹوں کے دس پندرہ فیصد ہی ہوتا ہے، لیکن ان کی حرکت پذیری کی وجہ سے جو لہر بنتی ہے جو عام ووٹروں کو ساتھ بہا کر لیجاتی ہے۔
بظاہر حامیان و کارکنان میں اضمحال کے آثار نظر آرہے، عام افراد توبڑی حدتک متنفر و بیزار نظر آرہے اس کا نتیجہ یقیناً ان کے حامیان و کارکنان ن لیگ یا دوسری جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے ۔لیکن انہیں بھی ووٹ دینے کے لئے باہر بھی نہ نکلیں (یہی کچھ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں ہوا)اور 2023 کے انتخابات میں 2018 والی پُرجوش جذباتی لہر شاید نہ دیکھ سکیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کی مدت جولائی 2023 میں ختم ہورہی ہے۔ اس لحاظ سے اس پارلیمان کے آخری 20 ماہ رہ گئے ہیں۔اب ان بیس ماہ میں کون سا ایسا کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے جو گذشتہ تین سال میں نہ کرسکے؟ یقیناًحکومت کے پاس مزید وقت نہیں ہے کہ جو کچھ وہ تین سالوں میں نہ کرسکے وہ باقیماندہ بیس ماہ میں کرنے کا خواب دیکھنا مشکل ہے۔
جہاں تک ووٹروں کی فہرست کی ذمہ داری الیکشن کمیشن سے لیکر نادرا کے حوالے کرنے والا اقدام ہے وہ ہر لحاظ سے قابل قبول ہے کہ نادرا کے پاس ہر شھری کا مکمل ریکارڈ ہے، درحقیقت ہر ووٹر اپنے شناختی کارڈ کے مطابق پتے اور حلقے میں ہی ووٹ ڈالنے کا حقدار ہونا چاہیے۔
ان کے تر کش کا آخری حربہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین ایک طرف تو انتخابی پروسیس کی رفتار کو تیز کرسکے گا دوسری طرف اس نظام میں گڑبڑ کر کے “مثبت” نتائج حاصل کرنا بھی آسان ہوگا۔ الیکشن کمیشن کی اس مشین کے بارے میں مزاحمت پر اس حکومت کے وزراء کی منہ سے نکلتی ہوئی آگ اس بات کا اظہار ہے کہ اب یہی ان کا آخری سہارا ہے۔
وَمَکَرُوا وَ مَکَرَاللّه وَاللّه ُ خَیْرُ الْماکِرین