امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کہ طالبان اچھے لوگ نہیں ہیں لیکن ہم اُن سے مشترکہ مفاد میں تعاون کریں گے، نے بلّی کو بڑی حدتک تھیلے سے باہر نکال کر چھوڑ دیا ہے۔ اب بلّی جانے اور چوھے۔۔ سوال یہ بھی ہے بلی تو موجود ہے اب چوہے بے تحاشا ہیں نہ جانے کس کا نمبر آئے، یہ بِلّی کی مرضی۔
یقیناً طالبان و امریکہ کے درمیان کوئی پُرانا عشق نہیں جو اچانک ہی عود کر آیا ہو۔ حالات کے جبر نے انہوں نے ایک دوسرے کو قبول کرنے پر مجبور کردیا۔
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ تو میرا نہیں تھا اَور میں تیرا نہ تھا
درحقیقت امریکہ کے عراق ایڈونچر کے نتیجے میں نیا جن داعش یا دولت اسلامیہ کی صورت میں بوتل سے باہر نکل آیا اس سے نمٹنے کے لئے۔۔۔ اب افغان طلباء ایک چھوٹی بُرائی کے طور پر زیادہ قابل قبول نظر آنے لگے۔
بظاہر یہ کھیل 2018سے دوحہ مزاکرات کے بعد شروع ہوا لیکن درون خانہ کچھڑی بہت دور و دیر سے پک رہی تھی، حال میں وال اسٹریٹ جنرل کو داعش کے افغانستان کے سربراہ ابو عمر خراسانی نے کے ہاتھوں مارے جانے سے قبل دئیے جانے سے جانے والے انٹرویو میں دعوی کیا تھا کہ2017 میں ننگرہار اور جوزجان میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں کو چھُڑانے کے لیے آپریشن میں امریکی و افغان فوج اور اسٹوڈینٹس نے ایک دوسرے سے تعاون کیا۔
وہ اس کامیاب آپریشن کو طالبان کی حالیہ حیرت انگیز فتوحات جس میں امریکہ کے راستے سے ہٹ جس نے سے لیکر افغان فوج کے مزاحمت نہیں نہ کرنے اور طالبان کا کابل تک کاراستہ صاف ہونے سےمنسلک ہونے کا اشارہ کیا ہے۔
اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ طالبان ،امریکی فوج یا امریکی پروردہ افغان حکومت کے درمیان کسی نہ کسی درجے پر تعاون کم از کم 2017 سے جاری تھا۔
موجودہ صورت حال کابل ائرپورٹ اور انخلاء کی صورتحال کی وجہ سے وہ خفیہ تعاون کھلے تعاون کی میں تبدیل ہے ہو گیا۔ کابل کے دھماکے کو بعد امریکی CENTCOM کے کمانڈر جنرل فرینک میکنزی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ ایرپورٹ پہنچنے والے افغان باشندوں کی چیکنگ و اسکریننگ کے لیے طالبان پر انحصار کررہا ھے۔
اب اگر طالبان و امریکہ کی کسی بھی مفاہمت کی شرایط کیا ہو سکتی ہیں:
1. پہلی شرط تو واضح طور پر افغانستان میں امریکی اتحادیوں کے لیے عام معافی۔اس کے باوجود بھی بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں کو روکا نہیں جاتا۔
2. دوسری شرط افغانستان کو کسی بیرونی تشدد پسند گروہ کے لیے محفوظ ٹھکانہ بننے سے روکنا۔
3. تیسری شرط غالبا خواتین کی تعلیم و ملازمت کے بارے میں ہو گی۔
اسی وجہ سے طالبان تسلسل کے ساتھ ان تین چیزوں کے بارے اطمینان دلانے کو کوشش کررہے ہیں۔ جہاں تک دوسری شرط یعنی دیگر تشدد پسند گروہوں کا راستہ روکنے والی شرط ہے اب تک طالبان کے رویہ ملاجُلا ہے۔
طالبان کی داعش یا ISIS-Kکے خلاف جنگ پہلے ہی سے چل رہی ہے، بلکہ 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد وہاں کی جیل میں قید داعش افغانستان کے سربراہ ابو عمر خراسانی اور اس کے آٹھ ساتھیوں کو قتل کردیا گیا جبکہ باقی تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا جن میں تحریک طالبان پاکستان کے افراد بھی شامل ہیں۔
یقیناً طالبان کی قیادت تحریک طالبان پاکستان کی کاروائیوں سے لاعلم نہیں ہیں، اس کے باوجود ان کے لوگوں کی رہائی مستقبل میں طالبان کے روئیے کے بارے میں سوالیہ نشان ضرور چھوڑ تا ہے۔
لیکن اگر طالبان ان تمام وعدوں پر عمل کرنا بھی چاہیں تب بھی ان کے اندرونی قدامت پرست حلقے شاید پسند نہ کریں۔کیا اس بات کا امکان ہے کہ طالبان میں انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کے درمیان اختلاف ایک نئی خانہ جنگی میں تبدیل ہو جائے؟
اس بات کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس صورتحال میں طالبان کے انتہا پسند دھڑے ISIS سے ہاتھ ملا لیں ۔ TTP بھی اپنی جنگی کاروائیوں کے انداز سے بڑی حدتک طالبان سے زیادہ ISIS سے زیادہ قریب لگتی ہے۔
دنیا بدل رہی ہے ساتھ ہی طالبان بھی ۔۔ لیکن تبدیلی کے عمل میں بھی خاصی رُکاؤٹیں ہیں۔پہلے صرف ایک بیرونی دشمن تھا جس سے نمٹنے کے ملک کے مختلف گروہ نظریات سے بالاتر ہو اکٹھے نہ بھی تب خاموش حمایت فراہم کرسکتے تھے۔۔
عموما جیت کے کیک کا زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لئے شریکوں میں اختلاف ہونا اچھنبے کی بات نہیں ، یہاں بھی مختلف الخیال گروہ اپنے اپنے حصے کو بڑہانے کی کوشش کریں گے۔ اور یہ حصے کی لڑائی ایک اور خونریز جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
بیرونی دشمن سے نمٹنے کے بعد سب سے اہم نظام حکومت بنانے اورچلانے کی جدوجہد ہے۔ کیا طالبان کے پاس اس کے لئے ضروری صلاحیت و قابلیت موجود ہے؟نظریات کا چورن بیچ کر خیالی جنت یا یوٹوپیا دکھا کرمطلوبہ نتائج حاصل کرنا آسان ہوتا۔لیکن تخت حاصل کرنے کے بعد اس جنت کو حقیقت بنانے کے لیے مختلف صلاحیتیں و مہارتیں درکار ہوتئ ہے۔
پاکستان میں عمران خان اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔بطور ایجیٹیر لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ۔۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔ کیا افغانستان کے ساتھ بھی یہی ہونے جارہا ہے؟
کیا ایک گوریلا فورس جس نے کامیابی کے ساتھ دنیا کی طاقتور ترین افواج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا کامیابی کے بعد اس کے پاس وہ انتظامی صلاحیتیں موجود ہیں کہ عوام کی توقعات پر پورا اتر سکیں ؟
خیر بندوق کے بل پر آنے والے عوام کی توقعات کی اتنی پرواہ نہیں کرتے۔ لیکن پھر بھی اگر وہ جلد ہی مثبت نتائج دکھانے میں ناکام رہے تو ان کے مخالفین جو اب دبک گئے ہیں دوبارہ سر اُٹھا سکتے ہیں۔
پہلے تو بڑی حدتک غیر ملکی قبضے نے اسلام کے ساتھ قومیت کے تصور نے بھی بڑی حدتک اکٹھا کیا ہوا تھا۔ اب تو صرف اور صرف کارکردگی ورنہ ۔۔ پھر انجام وہی ہوگا۔
یاد رہے سویت کے قبضے کے دوران کمیونسٹوں کے دو دھڑے حلق و پرچم آپس میں لڑتے رہے۔۔ اس وقت روس بھی حسب ضرورت کبھی ایک اور کبھی دوسرے کے سر پر ہاتھ رکھتا تھا۔۔اب یہاں بھی غالبا purists اور pragmatist یا جدیدیت پسندوں کی ایک اندرونی جنگ ہونا باقی ہے؟
اگر ایسا ہوا تو اس میں ہمارے “مقدس“ یقیناً pragmatist یا جدت پسند ٹیم کے سر پر ہاتھ رکھیں گے۔ لیکن نتائج کسی کے قابو میں نہیں ہوں گے۔روس اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکتا تھا کہ کسی بھی دھڑے پر اس کے ہاتھ کے ساتھ ساتھ کابل میں موجود روسی ٹینکوں کا وزن بھی شامل ہوتا تھا۔ ہماری ایسی اوقات کہاں۔۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک