امریکی اور افغان انٹیلجنس کے مستقل دعووں کے باوجود کہ مُلا عمر پاکستان میں تھا کچھ لوگوں کو احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ ممکن ہے کہ وہ انکی ناک کے نیچے چھُپا ہوا ہو۔
حامد کرزئی نے 2001 میں اخبار نویسوں کو بتایا تھا کہ مُلا عمر اور اس کے ساتھی طالبان زابل میں روپوش ہیں۔ اس وقت زابل کے افغان انٹیلجنس و دیگر ادارے بھی اس معاملے میں ممکنہ سُراغ تلاش کرنے مصروف ہوگئے۔ بعض اہلکار جبّار عمری پر ملا عمر سے رابطے کا شک کرنے لگے تھے، انہوں نے قالات میں 2001 میں بھی اس کانام سنا تھا اس وقت وہ کہیں بطور طالبان کمانڈر، قالات میں تھے۔
مقامی انٹلیجنس نے جبّار عمری کے گھر کی مستقل نگرانی کردی اور یہ بات سامنے آئی کہ وہ اکثر گھر سے غائب ہوتا ہے،اور اس سے شک اور گہرا ہو گیا۔
ایک قبائلی، عطا جان جو حکومت اور انٹیلیجنس کے ساتھ کام کرتا تھا، نے بتایا۔ میرے ساتھی اور میں خود زابل کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہر شخص ایک دوسرے کو جانتا ہے کیونکہ جبّار طالبان کے ساتھ (کاروائیوں میں شریک) نہیں تھا لیکن گھر پر بھی نہیں ہوتا تھا اس سے شبہ ہوا کہ وہ مُلا عمر کے ساتھ ہے۔ اس دوران میں جبّار کے گھر میں ولادت ہوئی اس سے بھی اندازہ ہوا کہ وہ آس پاس ہے۔ اسی وقت اس نے متعلقہ لوگوں سے کہا کے اسے تلاش کرو لیکن نگرانی کے باوجود وہ ہتھے نہ چڑھ سکا۔
عطا جان کے مطابق زابل کے حُکام نے کرزئی سے بھی اپنے شکوک کا اظہار کیا اور حامد کرزئی نے امریکیوں سے کہا کہ وہ زابل میں تلاش کریں، لیکن عطا جان کے مطابق امریکیوں نے کوئی توجہ نہیں دی کہ ان کے خیال میں مُلا عمر پاکستان میں تھا۔(حامد کرزئی کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ حامد کرزئی کو اس معاملے میں کوئی معلومات تھیں)
عطا جان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن کے واقعے کی طرح کرزئی نے بھی ایک جعلی ڈاکٹر بھیجا تھا تا جو کہ حامد کرزئی کے مرحوم بھائی احمد ولی کا اسسٹنٹ تھا (اسسٹنٹ نے اس معاملے میں تبصرے سے انکار کردیا)۔
آخر میں زابل کے حُکام جبّار عمری کے سابقہ ڈرائیور عبدالصمداستاذ پر بھی شبہ کرنے لگے جس کے گھر پر مُلا عمر نے 2004 تک قیام کیا تھا ۔ استاذ نے اپنا ٹیکسی ڈرائیوری کا کام جاری رکھا اور وہ کسی قسم کے طالبان سرگرمیوں میں بھی شریک نہیں تھا مزید یہ کہ خود کو کسی شبہ سے بچانے کے لیے اس نے مقامی ہوتک قبائلی لیڈر محمد داؤد گُلزار کی مدد حاصل کی جو اُس وقت افغان صدر اشرف غنی کامشیر تھا۔ جب بھی افغان انٹیلجنس استاذ سے تفتیش کرنے کی کوشش کرتی گلزار کی مداخلت سے اس کی جان چھوٹ جاتی ۔ گلزار نے بتایا کہ وہ خفیہ پولیس نے اسے چھوڑ دیا کیونکہ میں نے کہا یہ بے گناہ ہے۔ گلزار کے مطابق بعد میں اسے پتہ چل گیا تھا کہ استاذ نے مُلا عمر کو پناہ دی تھی لیکن اس وقت گلزار کو اس بات کا علم نہیں تھا۔
صدر باراک اوبامہ نے مزاحمت کو کچلنے کے لئے 2009 میں مزید 30,000 امریکی فوجی روانہ کئے لیکن امریکہ کو ملا عمر کا کوئی سُراغ نہیں مل سکا۔ بلکہ ان کے دعوے کے برخلاف پینٹاگون اور سی آئی اے کو بھی ملا عمر کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ وکی لیک کے مطابق مُلا عمر کا امریکی فوج کا کوڈ نام بلینکو۔۔ یعنی خالی تھا۔
ملا عمر کی موت کے اعلان کے بعد میں نے افغان انٹیلجنس سروس این ڈی ایس کے ایک اعلی افسر سے گفتگو کی تو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس نے تصدیق کی کہ ملا عمر درحقیقت جبّار عمری کے ساتھ زابل میں ہی رہ رہا تھا ۔
اس افسر نے اپنی مایوسی و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا سپریم لیڈر چار سال تک صوبائی دارالحکومت میں گورنر کی رہائش گاہ اور مقامئ انٹیلجنس دفتر سے چند قدموں کے فاصلے پر رہا۔ کون (اللّہ) اس کے حفاظت کررہاتھا .امریکیوں نے ہر گھر کی تلاشی لی پھر بھی اسے نہ ڈھونڈ پائے؟؟