ڈچ صحافی بیٹی ڈیم نے ‘ملا عمر کی خفیہ زندگی’ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی ۔ یہ کتاب جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے خوب تحقیق کے بعد لکھی۔ ‘آوازہ’ کے قابل قدر کالم نگار اور صاحب فکر قلم کار جناب اعظم علی نے اس کی انگریزی تلخیص کو اردو کا جامہ پہنایا ہے جس سے ملا عمر کی زندگی، ان کے مزاج اور شخصیت کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم یہ تلخیص جناب اعظم علی کے شکریے کے ساتھ ‘آوازہ’ کے قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔
دسمبر 2018 میں دوسالوں کی کوششوں کے بعد میں ایک شخص عبدالجبّار عمری سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہو سکی۔جبّار عمری وہ شخص ہے جو مُلا عمر کے غائب ہونے سے ان کی وفات یعنی 2013 تک بطور محافظ ملا عمر کے ساتھ تھا۔ اب وہ 2017 سے افغان انٹیلیجنس ایجنسی کی “حفاظتی” حراست میں ہے۔ میں اسی جبار عمری سے انٹرویو اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی تصدیق کے بعد مُلّا عمر کی 2001 کے بعد کی زندگی کا نقشہ تیار کرنے میں کامیاب ہو سکی ہوں۔
میری تحقیق کے مطابق ملا عمر کبھی پاکستان میں نہیں رہے بلکہ اپنی باقیماندہ زندگی افغانستان کے دور دارز پہاڑی صوبے زابُل کے دو گاؤں میں گذاری ۔
مُلّا عمر کے قریبی دوست اور طالبان کے سابقہ وزیر خزانہ معتصم آغا نے بتایا کہ دسمبر 2001میں مُلا عمر نے اپنے اہل خانہ کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لئے رابطہ کیا تھا۔ معتصم نے مُلا عمرکے چار میں سے ایک بیوی اور ان کے بچّوں کو پاکستان منتقل کردیا اور ان کی رہائش کے انتظامات کرادیے۔ لیکن اس کے بعد مُعتصم کا مُلا عمر سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ مُلا عمر کی بیوی نے بھی شوہر سے دوبارہ نہیں ملی۔
دوسری طرف جبار عمری نے بتایا کہ مُلا عبید اللہ نے اس مُلا عمر کے فرار کے انتظامات کرنے کے لئے رابطہ کیا۔ جبار عمری طالبان دور حکومت میں شمالی افغانستان کا گورنر رہ چُکا تھا، لیکن اہم بات یہ تھی کہ وہ زابل کے ہو تک قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ملا عمر کے والد اور دادا زابل میں رہے ہیں ملا عمر بھی ہوتک قبیلے کی ایک شاخ تُن زئی، جو اسی علاقے کے ہیں، سے تعلق رکھتا تھا لیکن مُلاعمر کی زندگی قندہار اور ارزگان میں گذری تھی اس لیے اس کو کسی مقامی کی مدد کی ضرورت تھی۔
قیادت مُلا عبیداللہ کے حوالے کرنے کے بعد تقریباً دو دنوں تک مُلا عمر قندہار میں رہے، لیکن 7 دسمبر کو جب ڈونلڈ رمزفیلڈ سرعام کارزائی کی عام معافی کو مسترد کردیا تو ملا عمر قندہار سے نکل گئے۔
اس دن تقریباً دوپہر قندہار کابل سڑک کے قریب نساجی اون فیکٹری سے دو گاڑیاں نکلیں۔ اس قافلے میں ایک لینڈ کروزر جس میں جبّار عمری بیٹھا تھا اور دوسری سفید ٹویوٹا اسٹیشن ویگن تھی جس میں مُلا عمر دو افراد کے ساتھ بیٹھے تھے۔ جبّارعمری نے تو ان دو افراد کے نام بتانے سے انکار کردیا لیکن دوسرے ذرائع کا کہنا تھا کہ ُملا عزیزاللہ جو کہ مُلا عمر کا ہم زُلف ہے موجود تھا۔ شام تک وہ صوبہ زابل کے صدر مقام قالات پہنچ گئے۔
قندہار سے 125 میل شمال مشرق میں واقع زابل ایک اچھی پناہ گاہ تھی، وہاں کے سابق ممبر عبدالرحمن ہوتکی نے بتایا کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے باوجود، صدر مقام شھر، طالبان کے وفادار قبائلیوں کے قبضے میں تھا۔
ہوتکی ایک سال پہلے طالبان کو چھوڑ کر زابل کی شنکے ڈسٹرکٹ میں اپنے گھر جاچُکا تھا وہاں اس کی ملاقات فرار ہونے والے طالبان لیڈروں سے ملاقات ہوئی ۔ اسکا کہنا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن اس معاملے میں کارروائی کی بے اختیاری سے مایوس تھے۔ طالبان کو شکایت تھی کہ کارزائی نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
جلد ہی زابل کی صورتحال تبدیل ہو گئی جب گلبدین حکمت یار کے قریبی ساتھی حمید اللہ توخی کو گورنر بنا کر بھیجا گیا۔
توخی قندہار کے شیرازی کی طرح طالبان کا شدید مخالف تھا اور اس نے سابق طالبان کو نشانہ بنانا شروع کردیا جس کے نتیجے میں زیادہ مجاہدین تر پاکستان فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔
جبّارعمری جانتا تھا کہ وہ ملا عمر کو پاکستان میں آرام دہ زندگی کا انتظام کرسکتا ہے، یقیناً وہاں پر بھی خطرہ تو تھا تاہم طالبان وہاں پر قبائل، مذہبی لیڈروں اور وفادار دولتمند کاروباریوں کی مدد سے با آسانی چھُپ سکتے تھے۔ جبکہ اس کے برعکس زابل افغانستان کا غریب ترین صوبہ ہے، وہاں علاج معالجے کی بھی سہولتیں نہیں تھیں اور رہائشی سہولیات بھی انتہائی بنیادی نوعیت کی تھیں۔
لیکن مُلا عمر کو پاکستان پر کوئی اعتبار نہیں تھا۔ انھوں نے جبّار عمری کو بتایا کہ جو بھی ہو، میں پاکستان نہیں جاؤں گا۔ ویسے بھی 9/11 کے بعد پاکستان نے فوری طور پر امریکہ کو مدد کی پیشکش کر دی تھی اور طالبان کو گرفتار کرنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ وہ طالبان جن کے پاکستان میں روابط نہیں تھے وہ غایب ہو کر امریکہ کی خفیہ جیل گونتاماموبے کی جیل پاکستان کی مدد سے بھیجے جارہے تھے۔
جبّارعمری نے فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان نہیں جانا تو محفوظ ترین مقام قالات ہی بہتر ہے۔ اس وقت ایک چھوٹا سا شھر تھا اس نے اپنے ایک پُرانے ڈرائیور جو اس وقت قالات میں ٹیکسی چلارہا تھاعبدالصمد استاذ کی مدد حاصل کی، استاذ کا 2017 میں انتقال ہو گیا تھا، لیکن مختلف ذرائع ،بشمول اس کے قریبی دوست وکیل زرگئی اور زابل کی اعلی امن کمیٹی کے سابق سربراہ محمد داؤد گلزار نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
جبار عمری نے فیصلہ کیا کہ ملا عمر اور وہ دونوں عبدالصمد استاذ کے گھر میں جہاں استاذ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا چھپیں گے۔ مٹّی کا گھر زابل کے گورنر توخی کی رہائش گاہ سے پیدل کے راستے پر تھا۔ عبدالجبار عمری نے ملا عمر کے روپوشی کے مقام کی نشاندہی کرنے سے انکار کردیا۔ عمری کہتا ہے وہ اس گھر کو آگ لگادیں گے، اگر انہیں مُلا عمر کی قبر کا پتہ چل گیا تو وہ اسے کھود کر نکال کر سڑکوں گھسیٹ کر اس کی بے حُرمتی کریں گے۔
اس کے باوجود، دیگر ذرائع کی مدد سے میں وہ محلہ جہاں مُلا عمر روپوش تھے دو محلہ تلاش کرنے میں کامیاب تو ہوگی لیکن میں نے بھی اصل مقام ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عبدالجبار عمری نے بتایا کہ وہ ایک عام افغان مٹی کا احاطہ تھا ایک بڑا صحن ایک دیوار کے ساتھ کمروں کی قطار اور کونے میں ایک بڑا L کی شکل کا کمرہ۔
اس کمرے کا کوئی دروازہ نہیں تھا بلکہ دیوار میں الماری اس میں داخلے کا خفیہ راستہ تھا۔ استاذ نے اپنے اہل خانہ کو مہمانوں کی شناخت کے بارے صرف اتنا بتایا کہ کسی طالبان لیڈر کو چھپایا جارہا ہے۔وہ نہیں جانتے تھے کہ ملا عمر ہیں۔ اور یہ بھی بتادیا دیا کہ اگر کسی کو اس بارے میں پتہ چل گیا تو سارا گھرانا قتل کردیا جائے گا۔استاذ نے اپنے دوست وکیل زرگئی کو بتایا کہ میں نے اپنی بیوی کو ممکنہ حدتک خوفزدہ کردیا اور سب کو اس کمرے کے قریب بھی پھٹکنے سے روک دیا ۔
استاذ نے اپنی زندگی بطور ٹیکسی ڈرائیور جاری رکھی اور جبّار عمری سارا وقت کمرے میں مُلاعمر کے ساتھ گذارتا تھا۔حالانکہ ملا عمر پکڑے جانے کے خوف سے کمرے باہر قدم نہیں نکالتے تھے لیکن چار سال اس گھر میں گذارنے کے بعد نسبتا محفوظ محسوس کرنے لگے تھے۔
ویسے بھی شروع کے سالوں میں قالات میں فوجی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی کبھی کبھار امریکی و اتحادی افوج قندھار سے آکر ایک دو رات قیام کے بعد واپس جانے کی حدتک محدود تھی، معتصم آغا جان کے مطابق طالبان دوبارہ 2004 میں دوبارہ فعال ہوئے تھے ورنہ اس وقت طالبان منتشر و غیر منظم تھے، بہت سے تو ہتھیار ڈال چُکے تھے۔ تاہم طالبان کے دوبارہ متحرک ہونے کے ساتھ امریکی فوجی گشت میں بھی اضافہ ہو گیا۔
ان چار سالوں میں دومرتبہ امریکی فوجی اس گھر کے، جہاں مُلا عمر پناہ گزین تھا نزدیک تک آئے۔ایک رات فوجی گھر کے قریب آئے تو اسوقت جبّارعمری اور ملا عمر کمرے سے باہر تھے۔ جیسے ہی قدموں کی آوازیں سُنّیں دونوں جلانے کی لکڑی کے ایک بڑے ڈھیر کے پیچھے چھُپ گئے۔ لیکن فوجی گھر میں داخل نہیں ہوئے اور آگے بڑھ گئے۔
دوسری مرتبہ جبّار عمری گھر پر نہیں تھا واپس آنے کے بعد اسے پتہ چلا کہ اتحادی فوجی گھر میں داخل ہوئے اور پورے گھر کی تلاشی لی لیکن وہ خفیہ کمرہ نہ دیکھ پائے۔ اسے نہیں پتہ وہ ایک عمومی تلاشی تھی یا واقعتاً مُلا عمر کی تلاش میں آئے تھے۔ 2004 میں امریکہ نے ملا عمر کی محفوظ پناہ گاہ سے چند منٹوں کے فاصلے پر ایک مستقل چھاونی بنانا شروع کردیا ۔
جب امریکی انجینئروں نے تعمیرات کا کام شروع کردیا تب مُلا عمر نے فیصلہ کیا کہ اب یہاں سے نکلنے کاوقت آگیا ہے اور استاذ کی مدد سے قالات سے بیس میل دور ڈسٹرکٹ سیورے میں منتقل ہو گئے۔ 2001 کے بعد یہ ضلع شنکئے میں شامل ہو گیا ملا عمر کے والد کی فیملی کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور جبّار عمری اور عبدل استاذ بھی یہیں پیدا ہوئے۔
جبّار عمری نے مُلاعمر کی دوسری روپوشی کے مقام کی شناخت بتانے سے انکار کردیا لیکن قالات اور سیورے کے سابقہ سرکاری اہلکاروں اور کے قبائلی لیڈروں سے گفتگو کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ ایک خاص گاؤں کے قریب رہتے تھے جس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی نہر گذرتی ہے۔
استاذ نے اپنے دوست سرگئی کو بتایا کہ اس نے ملا عمر کے لیے گاؤں سے باہر سڑک سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر ایک بڑے مٹی کے گھر کے عقب میں چھوٹا جھونپڑا بنایا ۔ اس گھر میں ایک خاندان رہتا تھا صرف دو بھائی اس جھونپڑے میں رہنے والے کی شناخت سے واقف تھے۔ جھونپڑا نہر کے ساتھ ایک چھوٹی سی آبپاشی لی سُرنگ (غالبا کاریز) سے منسلک تھا۔
مُلا عمر کے سیورے آنے کے کچھ عرصے بعد ہی انکی نئی جگہ سے تین میل کے فاصلے پر امریکی فوجیوں نے ایک اور فارورڈ آپریٹنگ بیس Wolverine بنانے کا فیصلہ کیا۔ Wolverine میں پہلے سے تیسر شدہ کنٹینر دفاتر، کینٹین، جمنازیم اور تقریباً 1000 فوجیوں کی رہائش کا انتظام تھا۔ امریکی فوجی انسداد “دھشت گردی” کی کاروائیاں کرتے ۔ 2007 میں لیتھوانیا کے فوجی زابل کی افغان پولیس کو تربیت دینے کے لئے بھی آئے، کبھی کبھی برطانوی اور امریکی کمانڈو بھی آتے تھے۔
فوجی انجینئروں نے قالات اور شانکئی ڈسٹرکٹ میں ایک اور فارورڈد آپریٹنگ بیس Sweeney کے درمیان تیس میل لمبی سڑک بنائی جو سیورے سے گذرتی ہے۔
یہ ہمارے لیے خطرناک وقت تھا جبّار عمری نے بتایا دونوں کو آسمانوں پر امریکی جہازوں کی آوازیں سنائے دیتی تھیں ۔۔ فوجی قریب سے گذرتے رہتے تھے طالبان بھی گذرتے امریکی فوجی قافلوں پر حملے کرتے رہتے تھے۔ہمیں پکڑے جانے کا خوف تھا ملاعمر کبھی کبھار آبپاشی کی سُرنگوں میں چھپتے تھے۔ کبھی کبھار تو ہمارے اور غیر ملکی فوجیوں کے درمیان ایک میز کے برابر فاصلہ ہوتا۔
غیرملکی افواج کی موجودگی کے باوجود جبّار عمری اکثر چھ میل دور اپنے گھر پر اہل خانہ سے ملاقات کے لیے جاتا تھا، جبّار عموماً پانچ سے دس دن قیام کے بعد واپس مُلا عمر کے پاس آجاتا تھا۔ جبّار کا گاؤں امریکی فارورڈ بیس Wolverine سے تین میل کے فاصلے پر ہے اس لئے گاؤں آنا جانا بھی خطرناک تھا اس لیے وہ عموماً رات کو سفر کرتا تھا۔امریکی فوجی کمانڈر ایک مرتبہ ان کے گاؤں بھی آیاتھا تاکہ گاؤں کے لوگوں کو طالبان کے مقابلے میں امریکی فوج اور افغان پولیس سے تعاون پر رضامند کیا جاسکے۔
حالانکہ علاقہ طالبان کا حامی تھا اور روز بہ روز طالبان کی کاروائیاں تیز تر ہوتی جارہی تھیں لیکن جبّار عمری خاصا پریشان تھا، کہ وہ کسی کے پاس تحفظ کے لئے نہیں جاسکتے۔ ہم طالبان سے بھی یہ نہیں کہ سکتے کہ ہمارے نزدیک کارروائی نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارا راز کھُل سکتا تھا۔ حالانکہ مقامی لوگ جانتے تھے کہ طالبان یہاں رہ رہے ہیں۔
اس ساری صورت حال کے باوجود کیونکہ امریکی مظالم اور حکومتی کرپشن کی بنا پر عوام حکومت کے خلاف ہورہے تھے اس لیے اکثر جبّار عمری اور اس کے پُراسرار دوست کو کھانا اور کپڑے فراہم کرتے رہتے تھے۔