لاطینی امریکہ کے ملک پیرو کے سابق صدر البرٹو فیوجی مورے نے 1990 سے 2000 تک حکومت کی ہے جاپانی النسل کی وجہ سے دُھری پیرو اور جاپان کی شھریت رکھتے تھے، ان کا دور خاصا دھماکہ خیز تھا جس میں بائیں بازو کی گوریلا سرگرمیوں کو کچلنا انکا بڑا کارنامہ تھُا لیکن ساتھ بہتی گنگا میں۔ ہاتھ دھونا تو تیسری دنیا کے ممالک کا معمول ہی ہے۔
خیر جب پیرو میں ان کے خلاف دباؤ بڑھنے لگا تو ان کے خلاف مواخذے کی تحریک زور پکڑنے لگی تو وہ نومبر 2000 میں برونائی میں کسی بین القوامی کانفرنس میں بطور صدر شرکت کے بعد اپنے وطن دوم جاپان تشریف لے گئے اور وہاں سے “میں نہیں جانا” کا نعرہ لگا گر جاپان میں پھسکڑا ڈال کر بیٹھ گئے۔ (اب پتہ چلا کہ اسحق ڈار کے اُستاد کون ہیں)۔
جاپان ہی سے انہوں نے اپنا استعفی بذریعہ فیکس بھیج دیا ۔ جسے مسترد کر کے پیرو کی اسمبلی (کانگریس) نے انہیں باقاعدہ برطرف کر کے دس سال تک کے لئے پابندی لگادی ۔ ان کے خلاف مختلف مقدمات کی تحقیقات جاری رہیں لیکن چونکہ جاپان ان کی حوالگی کے لئے تیار نہیں تھا۔ پیرو کی حکومت کا دعوی ہے کہ انہوں نے 2 بلین ڈالر کی کرپشن کی لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 600 ملین کی بات کرتی ہی۔
اس طویل کہانی کا انجام یہ ہوا کہ آخر کار 2005 میں پیرو کے پڑوسی ملک چلی میں گرفتار ہوئے 2007 میں پیرو کے حوالے ہوئے کردیا وہاں عدالتوں نے مختلف الزامات میں مختلف سزائیں جن میں زیادہ سے زیادہ 25 سال کی ہے اس وقت وہ جیل میں ہیں۔
یہ فقیردھری شھریت کے حامل پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا حامی ہے بشرطیہ کہ ان کے ووٹ ان کے پاکستان کے آبائی حلقوں جن کا پتہ ان کے شناختی کارڈ میں درج ہے وہاں پر کاسٹ کیے یا گنے جائیں۔
لیکن مسلم لیگ ن کے احسن اقبال نے بیرون ملک تارکین وطن (بشمول دھری شھریت کے حامل پاکستانیوں ) کو آبادی کے تناسب سے مخصوس نشستیں فراہم کرنے کے تجویز دے کر نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی ملک کو قیمتی ذر مبادلہ بھیج کر ملک پر احسان کرتے ہیں، لیکن یہی احسان تو بھارتی، بنگلہ دیشی، فلپائنی وغیرہ وغیرہ تارکین وطن بھی کرتے ہیں۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک نے تارکین وطن کے لئے پارلیمان میں نشستیں مخصوص کی ہیں؟
بھارت نے تو انہیں دھری شھریت کا حق بھی نہیں دیا اس کے باوجود پوری دنیا میں بھارتی diaspora (لابی) طاقتور ترین ہے۔ بھارتی تو اپنی حکومت پر احسان نہیں جتاتے کہ اس کے بدلے میں دھری شہریت دو۔۔ اور اسمبلی کئ ممبرشپ بھی دو؟؟؟ آخر ہم ہی کیوں مرغیوں کی طرح انڈا دینے کے پورے گھر کو شور مچا کر اطلاع دینا چاہتے ہیں؟
کلبوشن یادو بین القوامی عدالت انصاف کے مقدمے میں پاکستانی وکیل نے لاکھوں ڈالر کے فیس لیکر بھی ہار گیا۔ اور بھارتی وکیل مفت (غالبا ایک ڈالر رسمی فیس لی) میں لڑ کر جیت گیا۔۔۔اسے کہتے ہیں حب الوطنی نہ کہ حب الوطنی کے نام پر دوکانیں کھولنا۔
پاکستانی تاریکین وطن کی پچاس فیصد سے زیادہ تعداد مشرق وسطی میں رہتی ہے۔ جن کا سو فیصد کمٹمنٹ اور مفاد پاکستان سے وابستہ ہے ۔ اور یہی لوگ ہیں جو اپنی ساری کمائی پاکستان بھیجتے ہیں۔
لیکن ساری لابی یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے حق میں ہوتی ہے ۔ جنہوں نے ان ممالک کی شھریت بھی لے لی بچّے اور والدین بھی بُلا لئے ہیں اور مکان و جائیداد بنا کر ان کے پاکستان سے مالی کمٹمینٹ کم سے کم ہو چکے ہیں۔
لیکن سب انہی کے مفادات کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے سیاستدان اور انکی اولادیں اقتدار کے بعد ملک سے باہر ان ہی ممالک میں جا کررہتی ہیں۔ اور آئندہ اقتدار کے لئے بھی انہی حکومتوں سے آشیرواد کی ضرورت ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی جس کے سربراہ کی کچن کیبنیٹ میں زلفی بخاری سے لیکر انیل مسرت تک ہر قسم کے مشکوک پاکستان نژاد غیرملکی شھری موجود ہیں یقیناً ان کے لئے راستے کھولنے میں دلچسپی رکھتی ہے، فیصل واڈ کوقومی اسمبلی سے منتخب کرانا بھی اس بات کا ثبوت ہے (انہیں منتخب کرنے ایوان اقتدار میں رکھنے کے لئے سسٹم کو دھوکہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی )۔ صرف اورصرف غیر ملکی شھریوں کے انتخابی عمل شرکت پر آئینی پابندی نے اس ملک کے نظام کو غیروں کے ہاتھوں اغوا ہونے سے روکا ہوا ہے۔
یہ بات یقینی نہیں کہ احسن اقبال اپنی ذاتی رائے دے رہے تھے، یا اس میں ان کے قائد نواز شریف کی بھی آشیرواد حاصل ہے، درحقیقت نواز شریف نے مریم نواز کو اپنا جانشین تو نامزد کر ہی دیا ہے لیکن اس پابندی کے خاتمے کے نتیجہ میں بطور متبادل کےنواز شریف کے دونوں بیٹوں حسن و حسین نواز کے لئے بھی راستے کھُل جائیں گے۔
ویسے تو عمران خان موروثی سیاست کے شدید مخالف ہیں اور اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہےلیکن اگر پابندی ہٹ گئی (تیکنکی طور پر) سلیمان و قاسم بھی ایک دن پاکستان کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا حقدار بن سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو بھی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ برطانیہ میں گذار چکے ہیں، کیا پتہ وہاں بھی کوئی سرپرائیز مل جائے، ویسے بھی آصف علی زرادری کے کئی فرنٹ مین بیرون ملک ہی مقیم ہیں جنہیں اسمبلی یا سینٹ کی نشستوں سے نواز نے کی خواہش ہو۔
یہ تجویز نہ صرف ناقابل عمل ہے، بلکہ مضحکہ خیر بھی کہ ایسا وقت بھی آئے کہ ہماری اسمبلی میں ممبر برائے بھکّر یا سکھر کے ساتھ ممبر برائے امریکہ و برطانیہ (مقیم پاکستانی جن کا پاکستان میں کوئی حلقہ نہ ہو) بھی منتخب ہو کر ایوان میں بیٹھے۔
بظاہر کسی نہ کسی حدتک ہماری سیاسی قیادت کے ذاتی مفاد میں ہے کہ بیرون ملک دھری شھریت کے حامل پاکستانیوں کے لئے انتخابی سیاست میں شریک ہونے کا راستہ ہموار کیا جائے۔
کیا احسن اقبال کی یہ تجویز اس بات کی علامت تو نہیں کہ اس سلسلے میں کسی بھی آئینی ترمیم کی حمایت کی جاسکتی ہے؟
یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے، اگر ایسا ہواتو آج ہم بعض مخصوص خاندانوں یا ٹیکنوکریٹس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ صرف حکومت کرنے کے لئے پاکستان آتے ہیں، بیرون ملک سے اسمبلی کے ممبران منتخب کرنے کا نتیجہ سیاستدانوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہو جائے گی جن کا پاکستان میں کچھ بھی ہو نہ ملازمت نہ مکان نہ بچّے وہ بھی صرف حکومت کرنے کے لئے پاکستان آئیں گے۔
یہ دل و دماغ کے لحاظ سے انگریز، یورپین اور امریکی شھری بلکہ ان ممالک کے وفادار بھی ہوں گے جو پاکستان میں پیدا ہونے کی وجہ سے یا پاکستانی النسل ہونے کی وجہ سے ہم پر قانونی طور پر بطور وائسرائے مسلط کیے جاسکتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز PMLN تو زیادہ سے زیادہ نواز شریف کے بچّوں کے مفاد کے لئے شاید یہ سب کرنا چاہے گی۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم آس پاس تو دنیا بھر کے مشکوک ترین لوگ موجود ہیں۔ اور وزیراعظم کے نیت پر شبہ نہ کرنے باوجود عاشقین بھی ان کی کچن کیبنیٹ کے بارے میں اچھّا تاثر نہیں رکھتے۔خدارا چند لوگوں کے مفاد کے لئےبوٹی کے لئے ملک و ملت کا بکرا قربان نہ کریں۔
آپ تصور کریں کہ ایسا وقت بھی آجائے کہ ایک پینٹاگون یا سی آئی اے کا پاکستانی نثراد امریکی شھری ہمارے ایوان حکومت میں بطور وزیر یا وزیراعظم بھی بننے کے قانونی طور پر حقدار ہو۔۔پھر تو حسین حقانی قسم کے نہ جانے کتنے لوگ بھی وزارت عظمی کے خواب دیکھیں گے۔
اللہ ہمارے وطن کی حفاظت فرمائے ۔ آمین