گزشتہ ماہ ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں دو ٹرینوں کے حادثے میں دو سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین افراد کو انتہائی نگہداشت میں داخلے کی ضرورت پیش آئی۔ بدقسمتی سے وہاں بھی ملائیشیا کے فردوس عاشق اعوان و فواد چوہدری قسم کے افراد ایوان اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔
اس حادثے کے مقام پر ایک دن سے تاخیر سے تشریف لانے والے ریلوے کمپنی کے (حکمران جماعت کے ممبر ) چیئرمین تاج الدین عبدالرحمن نے جائے حادثہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال لے جواب میں مزاحاّ فرنایا کہ “ دونوں ٹرینوں نے ایک دوسرے کو پیار Kiss کرلیا” بلکہ ایک صحافی کے اگلے سوال پر کہ کیا وہ استعفی دیں گے فواد چوہدری بن کر اسے دہمکی دی کہ انہیں غصہ نہ دلایا جائے، ایک سنجیدہ حادثے پر غیر سنجیدہ بیان پر عوام میں شدید ردعمل ہوا اور کم از کم ایک لاکھ افراد نے حکومت کو پیٹیشن جمع کرائی جس میں اس کی برطرفی کے لئے اپیل کی۔
تاج الدین عبدالرحمن سابق اسمبلی کے ممبر اور سابق وزیر موجودہ حکومت کے اتحادی اور سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی جماعت سے تعکق رکھتے ہیں۔ نجیب رزاق نے تاج الدین کے بیان پر معذرت کی اور لیکن ان کے استعفی کو جماعت کے فیصلے سے مشروط کردیا۔
غالبا ان کی جماعت تو ان کے استعفے کے حق میں نہیں تھی لیکن حکومت بڑھتے ہوئے عوامی غصہ کا بوجھ نہ برداشت کرسکتے اور اگلے دن ہی انکی برطرفی کا اعلان کردیا۔
حالانکہ موجودہ حکومت اپنی بقاء کے لئے نجیب کی جماعت کے مکمل محتاج ہے اسی لیے نجیب پر کریشن کے مقدمات میں بھی آہستگی آگئی ہے۔ لیکن عوامی دباؤ نہ برداشت کر سکی اور تاج الدین سے استعفی نہیں لیا بلکہ برطرفی کا اعلان کردیا۔
دوسری طرف ہمارے فواد چوہدریوں اور فردوس عاشق اعوان نے ایک عادت بنالی ہے کہ جب بھی منہ کھولیں حکومت کو ذلیل ہی کرنا ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کس کی جانب سے کھیل رہے ہیں۔
دہڑکی میں ہونے والے ٹرین کے حادثے جس میں سینکڑوں افراد زخمی اور اب تک 64 اموات کی اطلاع پر اپنے مخصوص انداز میں بجائے متوفیوں کی تعزیت و زخمیوں سے ہمدردی کے “الحمدللّٰہ یہ اس سال کا پہلا حادثہ ہے” کہ کر زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ واقعی اتنی غیر حساس اور غبّی ہیں یا جان بوجھ کر حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے کےمشن پر ہیں۔ انکی خوش قسمتی یہ ہے کہ جس بادشاہ سلامت کے درباری ہیں وہ سیاسی حرکیات سے نابلد ہی نہیں بلکہ بے پرواہ بھی ہے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا؟
۲۰۰۸ کے انتخابات میں جب آصف علی زرداری راج پر بیٹھے تھے ان کے روئیے بھی ایسے ہی تھے، کرپشن کی خوفناک داستانیں لیکن “سجن بے پرواہ” عمومی ذہانت و فطانت میں تو اپنی مثال آپ لیکن سیاسی ذہانت انکی ترجیحات میں بہت نیچی تھیں۔ نتیجہ چارمرتبہ ملک پر حکومت کرنے والی جماعت ایک ہی مدت میں قومی سطح سے دوکان بند کر کے آج صوبے سندھ تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی جیسی بھی ہے سوائے مہنگائی کے (جس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں) لیکن گورنینس کے میدان میں اپنے سابقین جیسی ہی ہے۔ درحقیقت اگر انکے “نورتن” جلتی پر آگ چھڑک کر “مُنّی بدنام” کرنے کی کوشش نہ کریں تو اس بات کے امکانات ہیں کہ آئندہ انتخابات میں کچھ نہ کچھ عزت بچا سکتے ہیں۔لیکن اس کے لیے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی شدید ضرورت ہے ورنہ نوشتہ دیوار سامنے تو ہے۔