اللہ تعالی نے مشرکین مکہ پر اپنے ایک احسان کو جتلاتے ہوئے سورہ قریش میں اپنے گھر کا حوالہ دیا کہ اس گھر کے مالک نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف میں امن دیا، قرآن نے امن کو بڑی نعمت قراردیا، اہالیان کراچی سے زیادہ اس آیت ربانی کی حقانیت کا کس کو اندازہ ہوگا، یہ شہر آگ و خون کے طوفان سے گزرچکا ہے ، ایک بار نہیں باربار گزرا ہے ، اللہ تعالی اسے آئندہ ایسے کسی بھی بحران سے محفوظ رکھے ، لیکن سپرہائی وے پر آباد ایک نئی بستی جسے کاغذات میں بحریہ ٹاون اورعوامی زبان میں بھیڑیا ٹاون کہا جاتا ہے، سر ابھارنے لگا ہے ،اسے نیا ہاوسنگ شاہکار قرار دیاگیا ، نیا ماڈل سٹی بھی قرار دیا گیا ، اسے گنجان آباد کراچی کے اشرافیہ کیلیے سکون کا جزیرہ بھی گردانا گیا اور کہنے والوں نے اسے شداد کی جنت بھی کہا، بحریہ ٹاون کا اثاثہ ملک ریاض کی یہ شہرت اور ساکھ تھی کہ انکا کام رکتا نہیں، وہ فائلوں میں پہیے لگانے کا ہنر جانتے تھے ، سیاستدان ان کی دوستی پر اور ڈھول سپاہی ان کی خدمت کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان میں ہر چیز کو خریدنے پر قدرت رکھتے ہیں ، انہی بنیادوں پر بحریہ ٹاون نے اپنے خریداروں کے جذبہ شوق کا پھڑکایا، تجوریوں اور لاکرز میں رکھی گئی دولت گردش میں آئی اور راتوں رات بحریہ ٹاون کے خد و خال سپرہائی وے پر نمایاں ہوتے گئے، اس بستی میں سول انجینئرنگ کی مہارت ، ٹاون پلاننگ کا ہنر، جدت اور خوبصورتی کا امتزاج ثانوی تھا، پہلی خصوصیت ملک ریاض کی علی کل شئی ان قدیر کی صلاحیت تھی ، ملک ریاض پر ایمان تھا کہ آصف زرداری جس کی مٹھی میں تھا، صوبائی حکومت انگلیوں پر ناچتی تھی ، فائلیں خود کار نظام کے تحت اڑتی ہوئیں مجاز اتھارٹی تک پہنچتی اور دستخط خود بخود ثبت ہوجاتے بلکہ یہ کہِیے کہ مجاز اتھارٹی خود فائلوں تک دست بستہ پہنچتے اور دستخط کا شرف حاصل کرتے ، ایسے ماحول میں کسے فکر تھی کہ زمین کیسے حاصل کی جارہی ہے ، کس قیمت پر مل رہی ہے ، جائز ہے، ناجائز ہے ، گوٹھ کی ہے کہ شہر کی ہے ، قبرستان کی ہے یا کسی رفاعی مقصد کیلیے مختص کی گئی ہے ،کوشش،خواہش، جدو جہد تھی تو بس یہ تھی کہ کسی طرح کاغذ کا وہ ٹکڑا مل جائے جس پر بحریہ ٹاون لکھا ہو، جسے ملک ریاض شرف قبولیت بخش دے ،
اس موقع پر نہ کوئی سندھی تھا نہ مہاجر، مسلم اور غیر مسلم کی بھی تفریق نہِیں تھی ، شہری اور دیہی کا بھی معاملہ نہیں تھا، تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ، لیکن چھ جون کی شام علم ہوا کہ یہ تو صرف کراچی کے باسیوں کا تھا جس پر اندرون سندھ سے حملہ کیا گیا، حق پرستی کا علم اٹھائے ہر سیاسی جماعت ، گروہ ، گروپ نے اپنا فرض سمجھا کہ شام غریباں بپا کی جائے ، سنا صرف مصطفی کمال کے بارے میں تھا کہ وہ کبھی بحریہ ٹاون کے ملازم رہے ، لیکن قیمت انھون نے بھی چکائی جن کی جانب گماں بھی نہیں تھا۔
لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانا دینی ،ملی ، قومی ، اخلاقی سطح پر جرم ، گناہ ، بدی سب ہی ہے ، کوئی ذی شعور اس کی حمایت نہیں کرسکتا، لیکن لوگوں کی املاک کو محفوظ رکھنا ریاست کی اولین زمہ داری ہوتی ہے ، ناکامی ہے تو ریاست کی ، احتجاج کرنا ہے تو ریاست سے ، معاوضہ دینا ہے تو ریاست نے، یہ معاوضہ بھی عام آدمی کے ادا کیَے گئِے ٹیکس سے ادا کیا جاتا ہے، لیکن ان ثناء خوان بحریہ ٹاون /بھیڑیا ٹاون سے پوچھنے کے کچھ سوالات ہیں ، کراچی کے ہزاروں شہری سالوں سے احتجاج کررہے ہیں کہ بحریہ ٹاون نے انہیں کاغذ کے ٹکڑے تو دیدیئے ہیں لیکن عملی طور پر ان کی جائیداد کہیں وجود نہیں رکھتی ، انہیں انکی جائیدادوں کا قبضہ دلایا جائے، معاوضہ دلایا جائے ، رقم واپس دلادی جائے، جماعت اسلامی کےدفتر میں روتی ہوئی خواتین کو بھی دیکھا، پردہ نشیں عورتوں کی سسکیاں بھی سنی ، بوڑھوں کی آہیں بھی سنیں ، لیکن اس وقت کسی مہاجر رہنما کو ان کا خیال نہیں آیا، ہزاروں لاشیں گرانے والوں کو خیال آیا تو شیشے ٹوٹنے کا ،موٹر سائیکلیں جلنے کا ، آگ لگنے کا ، اپنے خلاف مقدمے درج ہونے کا ، انہیں کراچی کے شہریوں کے حقوق کا خیال نہیں آیا ، ہر نمک خوار ، تنخواہ دار ، وظیفہ بردار سپرہائی وے پر جا کر اس سانحہ کا ماتم کررہا ہے جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، جس کی تلافی رقم سے ہوسکتی ہے ، کسی نے اس عزم کا اظہار نہیں کیا کہ ملک ریاض سے کراچی کے شہریوں کی رقم واپس کرائینگے یا انکی جاِئِداد کا قبضہ دلائینگے ، اے اللہ ان مگر مچھ کے آنسو بہانے والوں سے اس شہر کو محفوظ رکھ ، سانحہ چھ جون کی عدالتی تحقیقات کرائی جائین ، قوم پرست ہو یا بت پرست ، شہری ہو یا دیہی ، ہر قانون شکن کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ، لیکن کسی بھی سیاسی قوت کی جانب سے لسانی ،سیاسی فساد کرانے والوں کی شناخت اور انہیں بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے، اس کے لیے کیا پلیٹ فارم ہو، یہ اس شہر کی اس قیادت کو سوچنا ہوگا جو اس شہر کو بھلا چاہتی ہے ، اگر موجودہ کسی تنظیم نے اس بارے میں نہ سوچا تو اس شہر سے نئی قیادت ابھرے گی اور اس شہر کو نئی قیادت پیدا کرنا چاہِے۔