عمران خان کے ایک بیان جس نے فحاشی کو زناء بالجبر (ریپ) سے منسلک کیا نے ایک گرماگرم بحث شروع کردی ۔
درحقیقت ریپ کا تعلق خاتون کے لباس اور چال ڈھال سے زیادہ مجرم کی ذہنی کیفیت سے ہوتا ہے۔ عموماً یہ جُرم موقعہ ملنے کی صورت میں پیش آتا ہے۔بالکل اسی طرح جب آپ کو گھر میں یا گھر سے باہر چوری ڈکیتی سے بچاؤ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح اپنی عورتوں بچّوں کی بھی حفاظت کا اہتمام کرنا لازم ہے۔
یقیناً پردہ نشین یا بے پردہ خاتون ہوں یا چھوٹی سی معصوم بچیوں کے والدین ہر ایک کو اس بات کا اہتمام کرنا لازم ہے کہ موجودہ معاشرے کی حالت دیکھتے ہوئے وہ یا انکے بچّے کسی بھیڑیے یا بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے کا نشانہ نہ بن سکیں۔ لوگوں بالخصوص جنس مخالف سے میل جول میں مناسب احتیاط کی شدید ضرورت ہے۔
چونکہ ریپ ایک موقع ملنے پر وقوع پیش آنے والا جُرم سے جسے crime of opportunity بھی کہا جاسکتا ہے اسی لئے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کا شدید اہتمام کیا جائے کہ کسی بھی صورت میں ملازمت اور تعلیم کے ماحول میں مرد اور خاتون کا تنہا ایک چھت کے نیچے رہنا خطرے کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
عموماً دیکھا گیا ہے اس قسم کے واقعات میں قریبی اعزاء کے ملوث ہونے کا تشویشناک رجحان بھی دیکھا گیا ہے۔
“حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو ، ایک انصاری شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ حمو (یعنی شوہر کا باپ، بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا :’’حمو‘‘ تو موت ہے”۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نامناسب لباس اور جنس مخالف کے کھُلے اختلاط سے معاشرے میں زنا آسان ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے۔
اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے۔ (سورۃ الاسراء ۳۲)
اس لئے کسی بھی ایسی صورت جس سے زناء کے قریب ہونے کا راستہ آسان ہو کی سے بچنا لازم ہے ۔لیکن زناء بالجبر (ریپ ) اور زناء بالرضاء میں بہرحال فرق ہوتا ہے اور ریپ عموماً کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتا لیکن بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔
ہم نے کھلے معاشرے بھی دیکھے ہیں عریانی و فحاشی کی کثرت دیکھی ہے اس وجہ سے زناء بالرضاء میں آسانی بلکہ ایک حد تک عام بھی دیکھا (بالخصوص غیر مسلم آبادی میں) لیکن زناء بالجبر ایک الگ ہی چیز ہے۔یقیناً لڑکی کا اشتعال انگیز لباس اور اس کا رکھ کھاؤ ریپ کے لئے ایک عنصر بن سکتا ہے لیکن زناء بالجبر (ریپ کی) تنہا وجہ نہیں۔
عموماً ریپ کے واقعات میں جنس مخالف کے ساتھ تنہا چاہے چھت کے نیچے یا کسی سُنسان سڑک پر پایا جانا ایک اہم عنصر ہے، بعض اوقات نسبتا محفوظ معاشروں میں رات کو تاخیر سے گھر آنے والی خواتین جو بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہیں ۔اکثر دفتر سے بس اسٹاپ یا گھر تک سفر میں سُنسان مقامات پر آسان شِکار بن جاتی ہیں۔اسی طرح تنہا ٹیکسی میں سفر کرنا۔
یہ شاید ہمارے لئے قابل عمل نہیں ہے لیکن جن معاشروں میں شراب نوشی عام ہے اور خواتین بھی شراب نوشی کی علت میں مبتلاء ہوں وہاں حالت مدہوشی میں ایسی وارداتیں انہونی نہیں ہیں۔ جب جنسی بھیڑیے خاتون کی مدھوشی کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جن علاقوں میں دور دارز سے آنے والے کارکنان و مزدوروں کی کثرت ہوتی ہے وہاں گھروں سے دور تنہا اور بیوی کی صحبت سے محرومی بھی جنسی جُرائم میں اضافے کاسبب بنتا ہے اسی لئے “حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جس بندہ نے نکاح کرلیا اس نے اپنا آدھا دین مکمل کرلیا، اب اسے چاہیے کہ باقی آدھے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے”۔
اگر آپ بینک سے لاکھوں روپے لیکر نکلتے ہیں تو نوٹوں کی گڈیاں ہاتھ میں اُچھالتے نہیں جائیں گے اسے مناسب بیگ میں چھُپا کر نکلیں گے تاکہ راہ چلتے راہزن متوجہ نہ ہو جائیں۔ لیکن صرف بیگ میں رقم چھُپانا حفاظت کی ضمانت نہیں ہوتی صرف مناسب احتیاط تاکہ کسی چھُپے ہوئے راہزن کو موقع بھی نہ مل سکے ۔ورنہ گن پوائنٹ پر روک کر لوٹنے والے کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کا اس واردات میں لاکھوں روپے ملیں گے یا چند سو کا موبائل ۔
اسی طرح خواتین کا لباس اور رکھ رکھاؤ کسی نہ طرح سے ممکنہ ریپسٹ کو متوجہ کرنے کا سبب تو بن سکتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ دوسرے عناصر بھی اہم ترین ہیں۔ ذہنی مریض و جنسی درندے نہ بھڑکیلے کپڑے دیکھتے ، نہ ہی پردہ پوش خواتین اور نہ ہی چھوٹے معصوم بچّوں کو چھوڑتے ہیں۔
اس معاملے میں پہلی ذمہ داری اپنی اور اپنے بچّوں کی حفاظت خواتین و اہل خانہ ، اس کے بعد معاشرے اور نظام عدل پر عائد ہوتی ہے کہ تمام تر پیش بندیوں کے باوجود اگر کوئی جُرم کا ارتکاب کرے تو اس فوری عبرتناک سزادی جائے دینی حدود بظاہر سخت لیکن معاشرے سے جُرائم کا قلع قمع کرنے کےلئے انتہائی کارآمد ہیں۔
پاکستان کی عدالتوں میں سزایابی کا تباسب ۵ فیصد ہے اس مطلب یہ ہے کہ ۹۵ فیصد افراد ناقص تفتیش و استغاثہ کی وجہ سے بری ہو جاتے ہیں یا درحقیقت انہوں نے جُرم کیا ہی نہیں ہو (وہ بھی قانون نفاذ کرنے والے اداروں پر بدنما داغ ہے) دنیا بھر میں جُرائم سے روکنے کے لئے فرد کے ضمیر اور حُسن فطرت سے زیادہ اس بات کا یقین ہوتا ہے وہ قانون و سزا سے بچ نہیں سکتے جس ملک میں ۹۵ فیصد چانس جُرائم پیشہ افراد کے حق میں ہو وہاں جنسی تو کیا کسی قسم کےجُرائم سے بچنا اللہ کے فضل سے ہی ممکن ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ سب ہمارے ارباب اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کس قسم کا پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین