سوشل میڈیا پر علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے پر امام احمد بن جنبل کے قول کے حوالے سے ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ کچھ لوگ جنازے کے سائز کو ان کی خدا کی نزدیک مقبولیت کے دلیل، اور دوسری طرف سے بال ٹھاکرے سے لیکر مائیکل جیکسن کے جنازوں کو سامنے لا رہے ہیں۔
درحقیقت امام احمد بن حنبل رح کی عوامی مقبولیت اور اللہ کے نزدیک قبولیت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں، لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نہ تو جنازوں کا سائز اور نہ ہی موت کی کیفیت اللہ کے نزدیک قبولیت اور حُسن خاتمہ کی غمازی کرتی ہے۔اہل ایمان کو باطل کے ہاتھوں بدترین طریقے سے شھید بھی کیا گیا لیکن کوئی ان کی شھادت کو عبرتناک نہیں سمجھتا اور اس پر رشک و فخر کیا جاتا ہے۔
دوسری خلفائے راشدین تک سے لیکر اب اہل حق کے جنازوں کے سائز بھی حسب حالات مختلف ہوتے ہیں، ان چیزوں سے انکے مقام اور عقیدت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حضرت عثمان رض اور شھدائے کربلا اس کی بڑی مثال ہے اس وقت طاقت کی زعم میں اپنے اپنی مرضی نافذ کرنے والا آج بے نام و نشان ہیں۔ اور انکے نام قیامت تک زندہ و جاوید رہیں گے جیسے سورۃ کوثر میں فرمایا گیا کہ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا۔
لیکن جب امام حنبل کے قول کی روشنی میں جنازوں کے سائز یا موت کی کیفیت کو حسب منشاء قبولیت یا مغضوب ہونے کے فیصلے ہونے لگیں تو یہ تضادات نمایاں ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔
جنازوں کا سائز عموماً حق و باطل اور اللہ کے ہاں مقبولیت سے زیادہ اس شخص کی عوامی قبولیت کی غمازی ہوتا باقی اللہ کا معاملہ وہی جانے، چاہے گویّا ہو یا صوفی ہو یا عالم یا کوئی سیاستدان ۔ بہتر ہے کہ جنازوں کے سائیز کو جنت و دوزخ کے معاملات سے دور رکھا جائے۔
جہاں تک محترم علامہ صاحب رح کا معاملہ ہے واقعتاً انکا ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر جاندار اور سخت موقف انتہائی مقبول تھا۔ دوسری طرف ناموس رسالت پر قربانی کا جذبہ دینے والے علماء میں یہ واحد نہیں تھے، حضرت عطااللہ شاہ بخاری سے لیکر اب تک علماء نے اس معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن انکی خصوصیت ان کی “عوامی” زبان تھی جو سنجیدہ طبقہ میں ناپسند تو کی جاتی تھی لیکن عوام میں مقبولیت کی سند بن گئی۔
یہی مقبولیت انکے جنازے میں بھی ظاہر ہوئی، میرا قوی گمان ہے کہ اللہ پاک ان کے عشق کے طفیل انکے ساتھ رحم کا معاملہ کرے گا۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ مقام فکر بھی ہے، کہ آج بازار سیاست میں حکمران جماعت نے جس زبان کی ترویج کی وہ آج جنگل کی آگ کی طرح کم از نوجوان طبقے کے اخلاق کو جلا کر خاک کررہی ہے۔
دوسری طرف حضرت علامہ بھی مسجد و منبر پر اپنی اس نئی طرز کے امام بن چکے تھے، ڈر اس بات کا ہے کہ اس طرز کی کامیابی کے اور انکے وصال کے نتیجے میں (کہ جائے استاد خالی است) عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا عشق مسلک کے نام پر دوسرے بھی اس طرز کو اختیار کرنا شروع کردیں یہ زبان مسجد و منبر پر بھی عام ہوکر سنجیدہ طبقے کو دین یا علماء سے دور کرنے کا سبب نہ بن جائے۔
مشتری ہوشیار باش