وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد نے صوبائی گورنمنٹ سے اختلاف کے بعد اپنے منصب سے استفعی دیکر گومل یونیورسٹی کو پھر نئے بحران کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا،واقفان حال کے مطابق انہوں نے جامعہ گومل کی ایگریکلچر فیکلٹی کو زرعی یونیورسٹی کا درجہ دیکر گومل یونیوسٹی سے الگ کرنے کے فیصلہ کے خلاف وزیراعظم کو خط لکھ کر بتایا کہ یونیورسٹی ماڈل ایکٹ کے تحت کسی بھی یونیورسٹی کو منقسم نہیں کیا جا سکتا،صوبائی حکومت اگر زرعی یونیورسٹی بنانا چاہتی ہے تو ضرور بنائے لیکن گومل یونیورسٹی کی زمین اور اثاثہ جات کو تقسیم نہ کرے کیونکہ اس قدیم یونیورسٹی کی کشتی پہلے ہی طویل مدت تک معاشی،انتظامی اور تعلیمی بحرانوں میں ہچکولے کھاتی رہی ہے جسے مشکل سے سنبھالا گیا ہے۔وزیراعظم کو لکھے گئے اِسی خط کی پاداش میں گورنرخیبر پختون خوا شاہ فرمان نے ان سے وضاحت طلب کی تو انہوں نے جواب میں لکھاکہ بحثیت وائس چانسلر میرا فرض ہے کہ اس ادارے کے وقار اور مفادات کا تحفظ کروں،مجھے محض نوکری نہیں کرنی،اگر میں یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق اس مادر علمی کی حفاظت نہیں کر سکتا تو مجھے یہاں بیٹھ کے تنخواہ لینے کا کوئی حق نہیں،چنانچہ ایکٹ کے مطابق گومل یونیورسٹی کے اکیڈیمک اسٹریکچر،اثاثہ جات،مالی مفادات اور جغرافیائی وحدت کو قائم رہنے دیا جائے بصورت دیگر میرا استعفی قبول کر لیا جائے۔وائس چانسلر کے استعفی کی خبر ملتے ہی گومل یونیورسٹی کے اساتذہ،انتظامی افسران اور طلبہ میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی،سینکڑوں اہلکار وی سی ہاؤس کے باہر جمع ہو گئے،یہاں کئی جذباتی مناظر بھی دیکھنے کو ملے،کچھ اہلکار فرط جذبات میں رو دیئے اورکئی دل شکستہ اساتذہ نے یونیویرسٹی چھوڑنے کا عندیہ بھی دیا۔گومل یونیورسٹی کی 47 سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی وائس چانسلر کے مستعفی ہونے پہ فیکلٹی اور طلبہ سمیت پوری انتظامی مشینری اجتماعی ردعمل دینے پہ مجبور ہوئی ہو۔بدقسمتی سے اپنے قیام کے ساتھ ہی گومل یونیورسٹی نسلی،لسانی اور گروہی کشمکش کے بھنور میں پھنستی چلی گئی،مہیب تعصبات کی آندھیوں نے مادر علمی کی تعلیمی فضاکو مسموم،انتظامی ڈھانچہ کو کمزور اور معاشی حیثیت کو پراگندہ رکھا۔سینئر پروفیسرز کی دھڑے بندی نے کسی بھی وی سی کو چین کی سانس نہیں لینے دی،اسی سرگرانی کے باعث ماہر اساتذہ کی قابل لحاط تعداد یونیورسٹی چھوڑگئی،یوں جامعہ گومل رفتہ رفتہ علمی زوال اور اخلاقی مفاسد کے دلدل میں اترتی گئی،ایک ایسا وقت بھی آیا کہ گومل یونیورسٹی کی بندش کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔قصہ کوتاہ،پچھلے سال جب ڈاکٹر افتخار احمد نے عنان سمبھالی تو اس وقت یونیورسٹی معاشی و انتظامی بحران کے علاوہ منشیات کا گڑھ اور جنسی بے راہ روی کی لعنت میں ڈوبی دیکھائی دیتی تھی،ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے اساتذہ کی عزت کو خاک آلود اور طلبہ و طالبات کے دامن داغداد بنا دیئے تھے،جعلی ڈگریوں کے سکنڈل سے لیکر مالی بدعنوانیوں کی داستانوں نے یونیورسٹی کی ساکھ کو تباہ اور ملازمین کے مستقبل کو مخدوش بنا رکھا تھا۔مالیاتی بدنظمی اور طلبہ کی روز بروز کم ہوتی تعداد کی وجہ سے یونیورسٹی کی اقتصادی حالت قابل رحم تھی،یونیورسٹی کے پاس ملازمین کو دینے کی تنخواہیں تھی نہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن ملتی تھی،ہر معاملہ کو عدالتوں میں لے جانے کی روش نے لامنتاہی مقدمہ بازی کو جنم دیکر یونیورسٹی کی انتظامی اتھارٹی کو مفلوج کر رکھا تھا۔ایسے میں ڈاکٹر افتخار نے قابل عمل اصلاحات کے ذریعے نہ صرف یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول سازگار بنایا بلکہ اپنی بہترین انتطامی صلاحیتوں سے مالیاتی بحران میں الجھی یونیورسٹی کو اپنے پاو¿ں پہ کھڑا کرنے میں کامیابی پائی،صرف ایک سال کے اندر یہاں کئی نئے ڈیپارٹمنت کھلے اور طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ سے ریونیو بڑھنے لگا جس سے آج نہ صرف یونیورسٹی اہلکاروں کو وقت پہ تنخواہیں ملتی ہیں بلکہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی بروقت فراہمی بھی کر دی جاتی ہے،اس وقت یونیورسٹی کی انتظامی اتھارٹی پوری طرح فعال ہے، تمام ہاسٹلز بند کرکے منشیات کا استعمال ختم اور فحاشی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرکے اس مقدس تعلیمی ادارے کے ماحول کو پاکیزہ بنا دیا۔اساتذہ پڑھانے میں اور طلبہ پڑھنے میں مشغول ہیں،کئی سرکش ملازمین کو برطرف کر کے نہایت گہری جڑیں رکھنے والی نسلی و لسانی کشمکش پہ قابو پا لیا گیا،انہی اقدامات کی بدولت یونیورسٹی کے ماحول میں ایسی خوشگوار تبدیلیاں آئیں جس سے اساتذہ اور طلبہ کو ذہنی آسودگی ملی۔دس مارچ کو جامعہ گومل کے اساتذہ،طلبہ اور ملازمین نے اصلاحات کا ایک سال مکمل ہونے پہ پُروقار تقریب کا انعقاد کر کے اپنی اجتماعی کامیابیوں پہ خوشی منائی،بہترین کارکردگی کے حامل اساتذہ،طلبہ اور ملازمین کو ایوارڈ بھی دیئے۔
سنہ 2016 میں سابق وزیراعظم نوازشریف سی پیک مغربی روٹ کا افتتاح کرنے آئے تو مولانا فضل الرحمن کی ایما پہ انہوں نے یہاں زرعی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا،حسب معمول زرعی یونیورسٹی کے لئے زمین کے حصول کی تگ و دو کے علاوہ دیگر قانونی تقاضوں کی تکمیل کی پیش رفت چلتی رہی تاہم چار سال بعد صوبائی حکومت نے نئی یونیورسٹی بنانے کی بجائے پہلے سے موجود گومل یونیورسٹی کی زرعی فیکلٹی کو” یونیورسٹی“کا درجہ دینے کا فیصلہ کر کے یونیورسٹی ایکٹ کی خلاف وردی کا نیا تنازعہ کھڑا کر دیا۔وائس چانسلر کہتے ہیں،ایکٹ کے مطابق گومل یونیورسٹی خود مختار ادارہ ہے،یونیورسٹی ماڈل ایکٹ کی دفعہ 3 یونیورسٹی کو انتظامی،مالیاتی اور پالیسی امور میں مکمل خودمختاری کی ضمانت دیتی ہے لیکن اس امر سے واقفیت کے باوجود صوبائی کابینہ نے یونیورسٹی امور میں مداخلت کرتے ہوئے اسے منقسم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔تاہم اس تنازعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ایک عوامی سروے کی روشنی میں یونیورسٹی ماڈل ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ تیارکر کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی وساطت سے تمام یونیورسٹی اتھارٹیز کو مشاورت کے لئے بھجوایا تاکہ وسیع تر اتفاق رائے کے بعد اسے صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا جا سکے۔لیکن یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کی مخالفت کر دی کیونکہ ان ترامیم کے ذریعے حکومت وائس چانسلر بننے کے لئے مطلوب فکس اہلیت میں ترامیم کرکے بیوروکریٹس اور دیگر اہل افراد کے لئے وائس چانسلر بننے کی گنجائش پیدا کرنا چاہتی تھی۔دوسرا ان ترامیم کے ذریعے یونیورسٹی میں رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور کنٹرولر امتحانات جیسے عہدوں کو مخصوص مدت کی پوسٹیں قرار دیکر ان پہ تین سال کی مدت کے لئے کیئریر افسیرز کی تعیناتی کرکے انہیں فعال بنانا چاہتی تھی،جسے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ان ترامیم کے خلاف مزاحمت کرنے والوں میں سب سے توانا آواز ڈاکٹر افتخاراحمد کی تھی۔جنہوں نے قبل ازیں اس ایشو کو وزیراعظم عمران خان کے سامنے اٹھایا تو صوبائی حکومت وقتی طور پہ متنازعہ ترامیم کی منظور کرانے سے پیچھے ہٹ گئی لیکن یونیورسٹی ماڈل ایکٹ پہ اسٹیڈ لینے کی وجہ سے ایچ ای سی اور ایچ ای ڈی کے افسران ڈاکٹر افتخار احمد سے ناراض ہو گئے۔گومل یونیورسٹی کی اتھارٹی کا خیال ہے کہ زرعی یونیورسٹی کیلئے گومل یونیورسٹی کو منقسم کرنے کا اقدام اسی تناظر میں اٹھایا گیا تاکہ ایکٹ میں تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے وائس چانسلر کو اشتعال دلایا جائے۔توقع کے عین مطابق وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد نے پھر مفصل خط لکھ کر وزیراعظم کو اعلی تعلیمی اداروں کی خود مختیاری ختم کرنے کے مضمرات بتائے تو اِسی خط کو جواز بنا کے ایچ ای ڈی نے جواب طلبی کا نوٹس جاری کرکے دیگر وائس چانسلرز کو بھی پیغام پہنچا دیا، تاہم ڈاکٹر افتخار نے نوٹس کے مفصل جواب کے ہمراہ اپنا استعفیٰ ارسال کر کے گیند ایچ ای ڈی کے کوٹ میں ڈال دی۔یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ گومل یونیورسٹی کو تقسیم کر کے زرعی یونیورسٹی کا قیام محض کچھ زمین یا عمارت کی تقسیم تک محدود نہیں ہو گا بلکہ اس میں اثاثوں، سڑکوں، مرکزی دروازوں، مکانات، فیکلٹی اور طلبہ کی تقسیم بھی شامل ہو گی۔
مخمصہ یہ ہے کہ ہماری کوئی مستقل تعلیمی پالیسی موجود نہیں، نت نئے سلیبس،امتحانات کے نئے طریقے اور ماضی کے تجربات سے قطع نظر کر کے بلاسوچے سمجھے تعلیمی اداروں کی انتظامی تشکیل میں رد وبدل معمول بنا لیاگیا،سنہ 2002 میں جو نئی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی گئی،اب اٹھارہ سال بعد اسے بدل کے ایم اے،ایم ایس سی اور بی اے، بی ایس سی کی جگہ بی ایس سسٹم متعارف کرا دیا گیا،اسی طرح سنہ2010 میں ہائرایجوکیشن کو صوبوں کے حوالے کر کے بازیچہ اطفال بنایا گیا۔اس وقت اے این پی گورنمنٹ نے اپنے ہم خیال پروفیسرز کی ایما پہ چانسلر کے اختیار محدود کرنے کے علاوہ یونیورسٹیز کے وی سی کی اہلیت کو پی ایچ ڈی سے مشروط کر کے ہائرایجوکیشن کا نظام اساتذہ کے سپرد کر دیا،جس سے کئی قسم کے انتظامی مسائل جنم لینے لگے،اب گورنمنٹ پھر وائس چانسلرز کی تعیناتی کے سکوپ کو وسیع کرنا چاہتی ہے مگر اساتذہ اسے قبول نہیں کرتے۔بلاشبہ،تعلیم جب تک فرد کی شخصی آرزو¿ں اور اجتماعی ذمہ داروں میں مطابقت پیدا نہ کر دے،اس وقت تک وہ ایسے رجال کار پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی جو اپنے کردار کواجتماعی بہبود کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ سپنسر نے کیا تھا کہ سکول ہمارے ذہن کے لئے ایسے آلاتی رجحانات پیدا کرتے ہیں،جس کا مقصد ذہن کی مسلسل نشو نما اور زندگی کی ایسی مستقل تنویر ہو جو ہمارے مستقبل کے دبستانوں کو روشن بنا سکے۔