جبری گمشدگی ایک ناسور ہے۔ چاروں صوبوں کے عوام اس سے نالاں ہیں۔ بلوچ ، پختون، سندھی، پنجابی ، اور سُنی و شیعہ سب کے سب جبری گمشدگی سے شاکی ہیں۔ ان شکووں کے باوجود پاکستانی عوام کی ساری ہمدردیاں اپنے ملک کے ساتھ ہیں۔ اس وطن کے لوگ ملک کے تحفظ، بقا اور امن و امان پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اگر یہ ملک سلامت ہے تو اس کی سلامتی کی اہم وجہ اس کے عوام کا خلوص ہے ۔
آج مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں جب کسی خاندان کا کفیل لاپتہ ہوجاتا ہے تو اس کے متعلقہ افراد کے نان و نفقے اور تعلیم و تربیت کے مسائل پہلے سے زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔اس طرح لاپتہ ہونے سےمختلف طرح کےسوالات اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ابھرتا ہے کہ ان لوگوں کو قانونی طریقے سے گرفتار کرنے کے بجائے اغوا اورلاپتہ کیوں کیا گیا؟
اس پر ممکن ہے کہ یہ کہاجائے کہ مجرموں کے اثر و رسوخ کے باعث جج حضرات مجرموں کو چھوڑ دیتے ہیں، اس لئے انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے لاپتہ اور اغوا کر دیاجاتا ہے۔ یہ بات بجائے خود تشویش ناک ہے کیوں کہ اس سے تو انصاف فراہم کرنے والے ادارے پر ہی حرف آرہا ہے۔
ساتھ ہی یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ جس شخص کوبھی لاپتہ کیا جاتا ہے کیا وہ ججوں کیلئے نواز شریف اور زرداری سے بھی زیادہ اثر و رسوخ والا ہوتا ہے؟
یہ سوالات اپنی جگہ دوسری طرف ہمارے سیکورٹی اداروں کی پروفیشنل ٹریننگ پر بھی بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں۔ ایک بنیادی سوال تو یہ ہے کہ تفتیش اور باز پُرس کے انتہائی قدیمی اور وحشتناک ہتھکنڈے آج بھی ہمارے ہاں کیوں رائج ہیں؟
ایسےتفتیشی طریقہ کارکی منظوری دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ اغوا اور لاپتہ ہونے والے جوان اس ملک کے باسی ہیں، اس قوم کا حصہ ہیں اور اس سماج کا ستون ہیں۔ یہ لوگ آسمانوں سے نہیں اترے ہوئے، ان کی جڑیں اس مٹی کے اندر ہیں۔ ان کے لاپتہ ہونے سے ملک کے اقتصاد اور عوامی اعتماد کو دھچکا لگتا ہے، خاندانوں کا شیرازہ بکھرجاتا ہے اور لوگوں میں نفرت جنم لیتی ہے۔ پرانی سوچ اور قدیمی طریقہ کار کی وجہ سے ہم نے عام پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ اس مسئلے کا انتہائی سادہ علاج آج بھی موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے ماورائے قانون اغوا کرنے اور مارنے کاراستہ اختیار کیاہوا ہے ، اور سینکڑوں خاندانوں و معصوم انسانوں کےحال اورمستقبل کو تاریک کر چکے ہیں ، اُن سب کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، اور اُن سے بے گناہوں کے ایک ایک پل کا حساب لیا جائے۔
اگر ہمارے حکمران جاننا اور کچھ کرنا چاہیں تو بات صاف اور سیدھی ہے ، مختصر بھی اور مفید بھی۔ آپ لوگوں کو کمانے کیلئے روزگار اور سر وں پر چھت نہیں دے سکتے، جی ہاں آپ عوام کے پاوں کے نیچے فرش بھی نہیں بچھا سکتے ، بس اتنا کرم کیجئے کہ کسی فیملی کے کمانے والے شخص، کسی خاندان کے سر پر سایہ ڈالنے والی چھت اور کسی غریب کے پاوں کے نیچے سے زمین نہ کھینچئے ۔
یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے ، اور دنیا ترقی کرگئی ہے لیکن ہمارے ہاں حقائق معلوم کرنے کیلئے پرانے اور اجڈ تھانیداروں کے ہتھکنڈے ہی ازمائے جاتے ہیں۔ یہ پرانی سوچ والے تھانیدار اپنے ہی پرانے کھوجی طریقوں سے مجرم پکڑتے ہیں، اپنے ہی نرالے حربوں سے انہیں مجرم ثابت کرتے ہیں اور اپنے ہی وحشتناک طریقوں سے انہیں سزا دیتے ہیں۔ 1971ء میں بھی اس تھانیداری کا نتیجہ بہت بھیانک نکلا تھا۔
ہماری مقتدر حلقوں سے یہ گزارش ہے کہ آپ 2021ء میں بھی اگر تھانیدار نہیں بدلتے تو کم از کم طریقہ کار ہی بدل کر دیکھئے۔
ملک و قوم کے اس درد کی دوا پڑھے لکھے اسٹاف ، اخلاقی تربیت اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ماڈرن و اپڈیٹ اداروں سے ہی ممکن ہے۔