اسٹیبلشمنٹ نے پی ڈی ایم کو موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے اہم پیش کشیں کی ہیں جن میں مولانا فضل الرحمٰن کو چیئرمین سینیٹ بنائا، بلوچستان میں جے یو آئی کی قیادت میں مخلوط حکومت اور پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی قیادت میں پنجاب حکومت کا قیام شامل ہے۔ اسی طرح چھوٹی جماعتوں کے تعاون سے مرکز میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کی بات بھی کہی گئی۔ اسلم اعوان نے اس اہم پیشکش پر اظہار خیال کیا ہے:
٭٭٭٭٭٭
تیرہ دسمبر کو لاہور میں مینار پاکستان پہ جلسہ کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو جائے گی،جس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت کے پاس اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ یا پھر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی نہیں بچے گا،اس لئے تصادم کے خطرات بڑھ سکتے ہیں،اگرچہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ مقتدر قوتیں لانگ مارچ جیسے انتہائی اقدام سے قبل پی ڈی ایم کی قیادت کو بامقصد مذاکرات میں انگیج کر کے مسائل کے پرامن حل کی کوئی راہ تلاش کر لیں لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ مذاکرات میں بھی سسٹم کی بساط لپیٹ لیٹنے جیسے پی ڈی ایم کے بنیادی مطالبہ پہ اتفاق رائے نہیں ہو پائے گا کیونکہ مقتدر قوتیں اس سسٹم کو لپیٹ کے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتیں مگر فریقین کے پاس بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کے سوا کوئی دوسری محفوظ راہ عمل دکھائی بھی نہیں دیتی،لہذا اپوزیشن جماعتوں کی قیادت اور ریاستی مقتدرہ میں سے کسی ایک کو پیچھے ضرور ہٹنا پڑے گا بصورت دیگر یہ حتمی تصادم بلآخر مرکزگریز تحریکوں کو توانائی فراہم کر کے ملکی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست بھی اس سمندر کی مانند عمیق ہوتی ہے جس کی سطح پر جس قدر برہم کن لہریں ابھر رہی ہوں سطح کے نیچے ہمیشہ ایک قسم کا گہرا سکون پایا جاتا ہے،حکومت اور اپوزیشن کے مابین برپا اس اعصاب شکن کشمکش کے باوجود بھی فریقین میں کسی نہ کسی سطح پہ روابط موجود ہیں،راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کے مطابق رابطہ کاروں کے ذریعے پی ڈی ایم کی قیادت کو سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی سے متعلق چند تجاویز بھجوائی گئیں جن پہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور و خوص بھی کیا گیا۔
ان تجاویز میں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہی کو بطور وزیراعلی قبول کرنے کی بدلے میں پہلے پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت سے نجات حاصل کرنے کی راہ نکالنے کے علاوہ بلوچستان،جہاں حکومت اور اپوزیشن کے مابین چونتیس اور چوبیس کا تفاوت ہے،میں اختر مینگل کی بلوچ نشنل پارٹی اور اے این پی کی مدد سے باآسانی تبدیلی لا کر وہاں جے یو آئی کی مخلوط حکومت بنانے کی پیشکش بھی کی گئی بلکہ اس سے مزید آگے بڑھ کر مولانا فضل الرحمن کو سینٹ کا چیئرمین منتخب کرانے اور وفاقی حکومت میں شامل چھوٹی جماعتوں کی مدد سے مرکز میں بھی طاقت کا توازن تبدیل کرنے کا آپش سامنے رکھا گیا لیکن ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں وہ سب کچھ گنوا دیں گے جس کے لئے وہ باہم دست و گریباں ہیں۔
بلاشبہ موجودہ بندوبست کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کے عمل سے انتخابی اصلاحات کے لئے موثر قانون سازی کے علاوہ جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے خدشات تو کم ہو سکتے ہیں لیکن اس طریقہ کار میں اپوزیشن جماعتوں کے لئے چند ایسی خرابیاں موجود رہیں گی جو انکی سیاسی ساکھ اور پاپولر جمہوریت کی افادیت کو صفر بنا سکتی ہیں،پہلی یہ کہ ان ہاوس تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فریقین کو مقتدرہ کی مدد پہ انحصار کرنا پڑے گا،جس سے سیاستدانوں کی ساکھ مجروح اور جمہوری عمل مزید پا باجولاں ہو جائے گا دوسرے مسلم لیگ کو نوازشریف کے مقبول بیانیہ سے دستبردار ہو کے ایک بار پھر اسی مقید سسٹم کے اندر واپس پلٹنا پڑے گا جس کی زنجیریں توڑ کے وہ مزاحمت کی وادی پُرخار کی آبلہ پائی پہ مجبور ہوئی تھی،حتی کہ اس سے دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام بھی ازخود پس منظر میں چلا جائے گا،جس سے عمران خان کی پی ٹی آئی سمیت اس بندوبست کے تخلیق کاروں کی ساکھ تو محفوظ ہو جائے گی مگر اپوزیش کے بارے میں یہ منفی رائے مزید پختہ ہو جائے گی کہ یہ لوگ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے نہیں بلکہ محض حصول اقتدار کی خاطر برسر میدان اترے تھے،اس لئے چند چھوٹی جماعتوں سمیت نواز لیگ ایسی کسی سکیم کا حصہ بننے پہ متفق نہیں ہو گی جس سے ان کے سیاسی بیانیہ کی مقبولیت اور جماعتی قیادت کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو چنانچہ پی ڈی ایم والوں کو لامحالہ سسٹم کی بساط لپٹنے کے لئے اپنے اعلان کردہ لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشن کے استعمال کی طرف جانا پڑے گا،بلاشبہ تصادم کی پالیسی ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کو بڑھا کے ریاست کے انتظامی ڈھانچہ کو تو کمزور کر دے گی لیکن سیاسی امور پہ پی ڈی ایم کی گرفت مضبوط ہوتی جائے گی۔
قرائین بتاتے ہیں کہ پی ڈی ایم پہلے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشن کو استعمال کر سکتی ہے اگر ایسا ممکن ہوا تو سندھ اسمبلی توڑ کے سب سے بڑی قربانی پیپلزپارٹی کو دینا پڑے گی۔لیکن اس منجمد سیاسی سسٹم کو توڑ کے نئے سیاسی نظام کی تعمیر کے دوران صرف مقتدرہ ہی نہیں بلکہ سویلین بالادستی کے حصول کی مہم میں کارفرما جماعتیں بھی ٹوٹ پھوٹ سے بچ نہیں سکیں گی۔
نوازلیگ اور جے یو آئی کو جزوی نقصان پہنچ سکتا ہے مگر پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی کئی بوڑھی جماعتیں پوری طرح اس کشمکش کا ایندھن بن کے ہمیشہ کے لئے پس منظر میں جا سکتی ہیں۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس جدلیات کے آخری انجام میں مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی ہی اس تحریک کے اصل بینفشری بن کے ابھریں گیں لیکن اس حقیقت سے بھی اغماض ممکن نہیں کہ جو جماعت تغیرات کی اس لہر سے جدا ہو گئیں وہ بھی مستقبل کے امکانات سے بہت پیچھے رہ جائے گی۔ اس لئے تمام تر تحفظات کے باوجود پیپلزپارٹی کی کہنہ مشق قیادت تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کی خاطر کشمکش ضدین کی اسی جدلیات میں ہی قسمت آزمانے کو ترجیحی دے گی لیکن اس سب کے باوجود پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن کے لئے اسمبلیوں سے استعفوں یا لانگ مارچ جیسے اقدامات پہ گیارہ جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنا اور ان فیصلہ کن اقدامات کو نتیجہ خیز بنانا آسان نہیں ہو گا۔
یہ عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم جب طاقت کے مراکز کے خلاف حتمی تصادم کی طرف بڑھے تو کئی جماعتیں پیچھے ہٹ کے خود کو اس کشمکش سے الگ کر لیں اور ایک بارپھر جے یو آئی کے پہلے لانگ مارچ کی طرح اب بھی استعفوں کا آپشن ثمربار نہ ہو سکے ،ہرچند کہ راقم کے ساتھ حالیہ ملاقات میں مولانا فضل الرحمن اپنی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پرامید نظر آئے،خاص کر پیپلزپارٹی کے طرز عمل بارے پائے جانے والے مبینہ خدشات کی انہوں نے قطعیت کے ساتھ نفی کرتے کہا کہ پی ڈی ایم کی قیادت پوری ذمہ داری کے ساتھ قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے علاوہ ایک مثبت عوامی دباو کے ذریعے آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ہماری مملکت کے اندر اٹھنے والی ان سیاسی تحریکوں نے قومی سیاست میں پائے جانے والے مہیب جمود کو توڑ کے ایک نیا سیاسی تمدن متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی،ایک ایسا سیاسی کلچر جس کی آبیاری میں گلی کوچوں میں متحرک رہنے والے سیاسی کارکنوں کی بیمثال قرابانیوں کے علاوہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا کردار بھی نمایاں نظر آتا ہے،جنہوں نے پس چلمن بیٹھ کے فیصلہ سازی کے عمل پہ اثر انداز ہونے والی قوتوں کو بے نقاب کر کے اِس جمود پرور سماج کو خود اپنے آپ سے روشناس کرا دیا جس کے اندر بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی خواہش موجود ہی نہیں تھی۔ سوشل میڈیا کے عہد میں پروان چڑھنے والی ہماری نوجوان نسل اپنے حق حکمرانی کا احساس پانے کے بعد ملک گیر سیاسی جماعتوں کا قابل فخر سرمایا بن گئی ہے۔ اسی لئے مقبول سیاسی جماعتیں اب پوری قوت کے ساتھ سنہ1973 کے آئین کے مطابق تقسیم اختیار کے فارمولہ پہ عملدرآمد یقینی بنا کے سویلین بالادستی کے خواب کی تعبیر حاصل کرنے میں پُرعزم دکھائی دیتی ہیں،وسیع سماجی حمایت کی وجہ سے ہمارے عہد کے نوخیز سیاستدانوں کی تابناک آنکھیں دن کی روشنی سے خائف نہیں ہوتیں، اب وہ خطرات سے الجھنے اورجمہور کے غلبہ کی مستقل آویزش میں کودنے کے لئے خود کو تیار پاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سیاست کے ٹول بدل کے ہمیں عالمی برادری کے ساتھ منسلک کر دیا اسی طرح وقت نے اب رموز حکمرانی کے اصول بھی بدل ڈالے ہیں،جدید سیاست کی بیباک تنقید نے ہر شعبہ میں کم صلاحیتی اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرکے ہمیں جمہوریت کی کبریائی حیثیت پہ شک کرنے پہ مجبور کر دیا،الیکٹرنک میڈیا کے علاوہ یوٹیوب چینلز کی ایجاد نے کم ترین اذہان کو بلند کرنے کی بجائے بلند ترین لوگوں کو نیچے گرا دیا،سیاست،مذہب، ادب اور حتی کہ سائنس پہ بھی اوسط درجہ کے لوگ چھا گئے ۔شاید جمہوریت ہماری زندگی کے انہی تصورات کی گستاخانہ توجیہ کرے گی کیونکہ جمہوری سیاست میں ہر دلیل اپنا تضاد خود پیدا کرتی ہے۔