سینٹ الیکشن کے متعلق سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیدی ہے، چیف جسٹس گلزار احمد کی رائے سے مزید تین ساتھی ججوں نے اتفاق کیا ہے جبکہ جسٹس یحیی آفریدی نے اس ریفرنس کو جواب کے قابل ہی نہیں سمجھااس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پانچوں جج اس بات پر متفق ہیں کہ سینٹ الیکشن آئین کے تحت آتے ہیں، اس طرح بنیادی سوال جو صدر پاکستان کی جانب سے پوچھا گیا تھا وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ تاہم ۸ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلےمیں جن جار ججوں نے اس بنیادی سوال کے علاوہ بھی کچھ معاملات پر اپنے خیالات کااظہار کیا ہے،جسے تحریک انصاف کے رہنما اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں،وہ دو نکات ہیں ،ایک یہ کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، دوسرا نکتہ اس کا ضمنی حصہ ہے کہ پھر جزوی خفیہ ہونے اور اسکی شناخت کرنے کیلیے طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہے ، یہ معاملہ الیکشن کمیشن سے ہے، حکومت یا پارلیمنٹ کہیں درمیان ،میں نہیں ، اب سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو ایک بار پھر دیکھتے ہیں ، اس کے پیرا ۵ میں جہاں ووٹ کے ہمیشہ کیلیے خفیہ نہ ہونے کی بات کی گئی ہے وہ نئی نہیں ہے ، بلکہ عدالت عظمی نے نیاز احمد بنام عزیز الدین پی ایل ڈی 1967کا حوالہ دیا ہے ، 73 کے آئین سے پہلے کے اس فیصلے کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے ، خود سپریم کورٹ نے کہا کہ اس فیصلے پر کبھی مثالی طور پر عمل نہیں کیا گیا، جب آج تک اس فیصلے پر عمل نہیں ہوا تو پھر آج یہ گڑا مردہ کیوں اکھاڑا گیا، ضمنی معاملے کو منسلک کرنے کیلیے یہ پل دوبارہ تعمیر کرنے یا اس کی جھاڑ پونچھ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کا تڑکا لگایا جاسکے،اس کیلیے بیتاب وزراء کی ایک فوج فوری طور پر الیکشن کمیشن کے دفتر جا دھمکی ، بجائے اس کے کہ وہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کرتے ،الیکشن کمیشن کو اس کا جائزہ لینے دیتے ، لیکن الیکشن کمیشن کے اجلاس کے دوران ہی پہنچ گئے اور الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کی، الیکشن کمیشن جو گزشتہ پورے مہینے سپریم کورت کے سامنے کٹہرے میں کھڑا رہا، حالانکہ آئین کے آرٹیکل 186 کی مشاورتی جیورسڈکشن مین اس کی قطعی ضرورت نہیں تھی، اس کے علاوہ الیکشن کمیشن این اے75 کے ضمنی انتخابات میں پیدا ہونیوالی دھند سے بھی نمٹنے میں مصروف ہے،وزرا کی فوج کے الیکشن کمیشن پر حملے کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے، سپریم کورٹ نے صدارتی فیکٹری سے آنیوالے آرڈیننس کو نمٹادیا،اب الیکشن کمیشن کا کام ہے ، اسے کرنے دیا جائے، حکومت کی جانب سے شفافیت کا ڈھول اپنی جگہ ،لیکن پارٹی سربراہ کی آمریت کے خلاف عوامی منتخب نمائندوں کی اظہار رائے کی آزادی کا بھی معاملہ ہے، اسے متوازن انداز سے دیکھیے اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کیجیے۔