Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
آج مصطفے زیدی کی پچاسویں برسی ہے۔ مصطفی زیدی 10 اکتوبر 1930ءکو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور یہاں سول سروس سے منسلک ہوگئے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے۔ ان کی شاعری کے مجموعے زنجیریں، روشنی، گریبان، شہر آزر، قبائے ساز، موج میری صدف صدف اور کوہ ندا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ان کی شاعری پسند کرنے والوں میں جوش ملیح آبادی‘ فراق گورکھپوری اور فیض احمد فیض جیسے نامور شاعر شامل تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
نامور شاعر صبا اکبر آبادی کا آج یوم ولادت ہے | عقیل عباس جعفری
کیپٹن کرنل شیر خان (نشانِ حیدر)کی شہادت
آج پاکستان کے نامور مصور اقبال مہدی کی برسی ہے
۔ 1969 میں پاکستان کے جن 303 سرکاری افسران کو بدعنوانی کے الزام میں ملازمت سے معطل کیا گیا تھا ان میں مصطفی زیدی کا نام بھی شامل تھا۔ بعد میں معلوم ہونے والی تفصیلات کے مطابق مرحوم نے معطلی سے کچھ دن قبل اپنے محکمے کے ایک بااثر افسر کا تبادلہ روکنے اور اس تبادلہ رکوانے کے لیے رشوت قبول کرنے سے نہ صرف انکار کردیا تھا بلکہ اس افسر کے خلاف رشوت پیش کرنے کے الزام میں صوبے کے چیف سیکرٹری کو تحریری شکایت بھی پیش کی تھی مگر وہ افسر اتنا بااثر تھا کہ اس کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ مصطفی زیدی کو پہلے معطلی اور پھر ملازمت سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔
بارہ اکتوبر 1970ءکومصطفی زیدی کراچی میں اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے، فلیٹ کے ایک اور کمرے میں ایک نوجوان اور خوبصورت عورت شہناز گل بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔
مصطفی زیدی کی وفات کا دکھ، ادبی حلقوں ہی میں نہیں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں محسوس کیا گیا۔ وہ کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
نمونہ کلام:
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
دریچوں کو تو دیکھو چلمنوں کے راز تو سمجھو
اٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
آج مصطفے زیدی کی پچاسویں برسی ہے۔ مصطفی زیدی 10 اکتوبر 1930ءکو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور یہاں سول سروس سے منسلک ہوگئے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے۔ ان کی شاعری کے مجموعے زنجیریں، روشنی، گریبان، شہر آزر، قبائے ساز، موج میری صدف صدف اور کوہ ندا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ان کی شاعری پسند کرنے والوں میں جوش ملیح آبادی‘ فراق گورکھپوری اور فیض احمد فیض جیسے نامور شاعر شامل تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
نامور شاعر صبا اکبر آبادی کا آج یوم ولادت ہے | عقیل عباس جعفری
کیپٹن کرنل شیر خان (نشانِ حیدر)کی شہادت
آج پاکستان کے نامور مصور اقبال مہدی کی برسی ہے
۔ 1969 میں پاکستان کے جن 303 سرکاری افسران کو بدعنوانی کے الزام میں ملازمت سے معطل کیا گیا تھا ان میں مصطفی زیدی کا نام بھی شامل تھا۔ بعد میں معلوم ہونے والی تفصیلات کے مطابق مرحوم نے معطلی سے کچھ دن قبل اپنے محکمے کے ایک بااثر افسر کا تبادلہ روکنے اور اس تبادلہ رکوانے کے لیے رشوت قبول کرنے سے نہ صرف انکار کردیا تھا بلکہ اس افسر کے خلاف رشوت پیش کرنے کے الزام میں صوبے کے چیف سیکرٹری کو تحریری شکایت بھی پیش کی تھی مگر وہ افسر اتنا بااثر تھا کہ اس کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ مصطفی زیدی کو پہلے معطلی اور پھر ملازمت سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔
بارہ اکتوبر 1970ءکومصطفی زیدی کراچی میں اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے، فلیٹ کے ایک اور کمرے میں ایک نوجوان اور خوبصورت عورت شہناز گل بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔
مصطفی زیدی کی وفات کا دکھ، ادبی حلقوں ہی میں نہیں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں محسوس کیا گیا۔ وہ کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
نمونہ کلام:
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
دریچوں کو تو دیکھو چلمنوں کے راز تو سمجھو
اٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ