آج اردو کے نامور ترقی پسند شاعر اور صحافی جناب خالد علیگ کی نویں برسی ہے۔ جناب خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1923ءمیں قائم گنج ضلع فرخ آباد (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد 1947ءمیں پاکستان آگئے۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے سول انجینئر تھے اور انہوں نے اپنی ملازمت کے سلسلے میں اوکاڑہ، لاہور، سکھر، میرپورخاص اور دیگر شہروں میں قیام کیا۔ 1960ءمیں وہ مستقلاً کراچی آگئے اور پھر تاعمر اسی شہر میں قیام پذیر رہے۔ خالد علیگ ہمیشہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کی صف اوّل میں شامل رہے۔ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز لکھنو کے جریدے تنویر سے کیا تھا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جریدے منشور سے منسلک ہوگئے۔ بعدازاں وہ روزنامہ مساوات کے عملہ ادارت میں شامل ہوئے اور اس کے مدیر کے عہدے تک پہنچے۔
جناب خالد علیگ ایک خوش گوشاعر تھے۔ وہ ہمیشہ ترقی پسند نظریہ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ہر دور میں مزاحمتی شاعری کی جو ان کی شناخت بن گئی۔ ان کا شعری مجموعہ غزال دشت سگاں کے نام سے اشاعت پذیر ہوا جبکہ ان کے کلام کی کلیات گفتگو عوام سے ہے کے نام سے منصہ شہود ہر آیا ۔
خالد علیگ ہمیشہ سرکاری اعزازات سے دور بھاگتے رہے تاہم جب 3 جون 1999ءکو کراچی پریس کلب نے انہیں تاحیات اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کرنا چاہا تو انہوں نے اسے رد نہ کیا۔
ان کا آخری قطعہ ملاحظہ ہو جو ان کی زندگی کا ماحاصل سمجھا جاسکتا ہے۔
دیوار بن کے ظلم کے آگے اڑے گا کون
ارباب جہل و جبر کے پیچھے پڑے گا کون
میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا، ہار بھی چکا
اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون
پندرہ اگست 2007ءکو جناب خالد علیگ کراچی میں وفات پاگئے۔وہ کراچی میںقبرستان مولا مدد، ریڑھی گوٹھ لانڈھی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔