یقین جانیے وطن سے محبت کا جذبہ ہمارے ایمان کا حصہ ہو گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے پیارے وطن کو رشک ارم نہ بنا پائیں
اس برس 14 اگست پڑتے ہی قیام پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کا غوغا بھی بلند ہونے لگا ہے ۔ جی آزادی کا پچھترواں برس لگا ہے مگر گزر چکے ہر سال کے 14اگست کے دِن کی طرح یہ خاص دن بھی ہمیں یہ شدید احساس دلارہا ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم اپنی آزادی کی اُس طرح قدر نہیں کر پائے جیسا کہ اس کا حق ہے۔
میں نے دنیا کے کچھ ممالک دِیکھ رکھے ہیں اور اپنے پیارے وطن پاکستان میں بھی اس کے سارے صوبوں کے دور دراز علاقوں میں سفر کیا ہے۔ ہر طبقے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مادی وسائل ہوں یا انسانی وسائل اور توفیقات کا معاملہ ہمارا پیارا وطن اوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مالا مال ہے ۔ اگر کہیں کوئی کمی ہے تو منضبط ہو کر آگے بڑھنے کی ہے۔ تمام وسائل کو کماحقہ سلیقے اور خلوص نیت سے استعمال کرنے کی ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک قومی سوچ ، قومی یکجہتی اور اپنے قومی وجود پرقوی اعتماد کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت اب ہے ۔ ہم معاش کے حوالے سے چاہے جس بھی شعبے سے منسلک ہوں اور اپنے شعبے میں چاہے جتنی بھی مہارت رکھتے ہوں جب تک ہم اپنے شعور کو دو سطحوں پر تہذیب نہیں دیں گے ہم ارض پاک کو رشک ارم نہیں بنا پائیں گے ۔ ان دوسطحوں میں سے پہلی سطح ایک فرد کی ہے ، ایک ایسے انسانی وجود کی جو محض اور صرف اپنے وجود کے اندر نہیں جیتا ایک سماج اور معاشرت کی اکائی بھی ہے ۔ اس سطح پر اپنے شعور کی تہذیب سے ہم نہ صرف بہتر شہری بنیں گے ، بہتر سماج بھی تشکیل دینے کے قابل ہو پائیں گے ۔ دوسری سطح پر ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ ہم پاکستانی قوم کی اکائی ہیں اور ہمارا ہر عمل کم یا زیادہ قومی وقار میں مثبت یا منفی طور پر حصہ ڈال رہا ہوتا ہے۔ جب تک ہم اپنے ملک ، اپنی زبان اردو اور اپنے لوگوں پر فخر کرنا نہیں سیکھیں گے ہم ایک بہتر قومی وجودکی تشکیل میں بھی ناکام رہیں گے اور ملک کو معاشی ترقی کی طرف گامزن بھی نہیں کر پائیں گے ۔
ایک پاکستانی کی حیثیت ہمیں اپنی ذاتی حیثیت سے مقدم ہونی چاہیے ۔ ہر عالم دین کو سوچنا ہوگا کہ وہ کیسے ملک کے لوگوں کو مختلف فرقوں میں بانٹنے کی بجائے ایک قومی شناخت دے سکتا ہے ۔ ہر استاد کو یہ کوشش کرنا ہو گی کہ اس کے طالب علم جہاں مختلف علوم میں نمایاں ہوں وہیں اس ملک کے بہتر شہری بھی بن سکیں ۔ آپ ڈاکٹر ہیں یا انجینئر، آپ کاروباری ہیں یا کہیں ملازم ، آپ ڈیلی ویجر ہیں یا دوسروں کو روزگار مہیا کرنے والے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکیں گے جب تک انسانی وجود اور قومی وجود ، دونوں کی یکساں سطح پر قدر کرنا نہیں سیکھیں گے ۔
انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ خود غرضی ، لالچ، بے ایمانی اور دوسروں کے استحصال سے بظاہر کچھ کامیابی ہتھیا لینے کے چلن کو ترک کرنا ہوگا اور محنت ، پر خلوص محنت اور مفید محنت کی طرف راغب ہونا ہوگا کہ یہی ہماری کامیابی کی کلید ہے ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں قومی سطح پر ایک بیانیے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے تمام نشریاتی اداروں کو قومی سوچ پیدا کرنے کے لیے پروگرام تشکیل دینے چاہئیں ۔ ہمیں قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے تو اس ملک سے ہمیں اپنے اس عظیم لیڈر کی طرح محبت بھی کرنا ہوگی ۔یقین جانیے وطن سے محبت کا جذبہ ہمارے ایمان کا حصہ ہو گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے پیارے وطن کو رشک ارم نہ بنا پائیں۔ پاکستان زندہ باد.