انسانی نفسیات اور مزاج میں وقت و حالات کے مطابق منصوبے تشکیل دینا ان کے جائزے کے لئے میکنزم تشکیل دینے کی کوشش کرتے رہنا اور ھر نئے سال نئے مہینے اور نئے ہفتے سمیت نئے موسم و عمر کے ہر نئے پڑاؤ نئے کاروبار اور نئے نسلوں کی آمد و نئے سماجی زندگی و سماجیات کے ساتھ شادی بیاہ و دیگر مواقع پر ترجیحات اور پسندیدہ ترین منصوبے بنتے رہتے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کوششیں کیں اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی و سماجی شعور کی بیداری اور انسانوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے نئے سرے سے تعمیر نو و فکری کاوشوں سے نظام زندگی و سیاست کی تشکیل و تکمیل کے ہدف کے لئے بے قرار رہے مگر مکہ مکرمہ کے مقدّس وادی سخت گیر و سخت جاں معاشرے میں تحمل و برداشت اور رواداری و دانش مندی کی آرزو مندی پوری نہیں ہوسکی۔ تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے الہامی راہنمائی و دانش مندی کی روشنی میں ہجرت مبارکہ فرمائی اور بالآخر نئے عمرانی ارتقاء اور مادی ترقی و خوشحالی کے لئے الہامی راہنمائی و معاونت کام آئی۔ اسی بنیادی و جوہری تبدیلی یعنی ہجرت مبارکہ سے جوڑ کر نئے ہجری و قمری سال کی ابتداء کی جاتی ہے۔ گویا محرم الحرام مسلم معاشروں میں الہامی کتاب قرآن کریم کی حکمت و دانائی اور آئیڈیالوجی آف دی فیوچر کے تناظر میں منصوبہ بندی اور پلاننگ و دانش مندی کا لمحہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
وقت کی دوپہر میں بیٹھ کر لائحہ عمل تشکیل دینے اور مادی ترقی و خوشحالی کے لئے روحانی اطمینان و سکون کی تلاش و جستجو اور تخلیق و تدبیر آج کی انسانیت کے لئے سب سے بڑا سوال ہے مسلم تحریکوں اور دبستانوں سمیت امت و ملت کے ہر حصے اور ہر فرد کو 21 ویں صدی کے 21 ویں سال کورونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری کے عالم میں روحانی مسرت و فکری دانش مندی کے لئے نئے عمرانی شعور کی احیاء شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی میں ضروری ہے۔ روایتی انداز سے ہٹ کر فکری مکالمے و ڈائلاگ اور نئے نسلوں کے لئے سائنسی و تعلیمی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو وقت کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور برمحل استدلال و دانش مندی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ہم متعین اہداف ومقاصد کے لئے بھرپور توانائی و فکری جہتیں تلاش فرمائیں ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔
ایک بڑا سوال ٹیکنالوجی اور اکنامک گروتھ کے نتیجے میں روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر معاشرتی ترقی اور افراد و نسلوں کی مزاج و طبیعت میں موزونیت کے بجائے اضطراب و بے قراری کی درامدگی در آئی ہے جس کے ازالے کے لئے نئے سرے سے تعمیر و توسیع اور تعبیر و تشریح لکھنے کی ضرورت ہے۔ لمحہ موجود میں حکمت قرآنی اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر و تشریح سب سے اہم ترین مقدمہ بن چکا ہے۔
جناب امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآنی آیات مبارکہ کی تقسیم و تفسیری آراء و تجزیے کے لئے جن خطوط پر استوار میکنزم تشکیل دینے کی کوشش,’الفوز الکبیر’ نامی اپنے قیمتی ترین مقدمے و مقالے میں کرچکے ہیں ابھی معاملات وہی پر رکھے ہوئے ہیں۔
تین چار صدیاں قریب قریب گزر گئیں، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے,,, تشکیل جدید الہیات اسلامیہ،،، لیکچر سیریز میں اسی بنیادی تصور و فکری مکالمے خودی کی احیاء کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جناب ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم و مغفور و مرحوم جناب ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی رح کی تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی جہتیں و خودی شعوری کی پاسبانی قابل فخر اور قابل توجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
21 ویں صدی میں اس علمی قافلے کے ساتھ علمی و فکری شجرہ نصب کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کے بنیادی اصولوں و قرآنیات کے نظریات جدیدہ سے موازنے و فکری خوشہ چینی میں شریک مفکرین و حکماء میں علامہ سید جمال الدین افغانی اسد آبادی، علامہ بدیع الزماں نورسی الترکیہ، جناب سرسید احمد خان اور جناب غلام احمد پرویز تک رسائی حاصل کرنے اور علمی و فکری مکالمے و ڈائلاگ کے تناظر میں جدید رجحانات اور تحقیقات کے لئے نئے عمرانی ارتقاء و فکری کاوشوں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ لمحہ موجود میں حکمت قرآنی اور شعور نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و دانش مندی کیسے فروزاں ہو۔ محترمہ صدف کیانی صاحبہ نے کمال مہارت اور کمال خوبصورتی سے اسے ثمربار بنانے کے لئے آج کے نسلوں کے لئے آج کے زبان میں اسے رواں کہانی کے انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ایک یا دو دن کے لئے آپ سے ملنے آئیں بالکل غیر متوقع طور پر ان کی آمد پر آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟
‘میں سوچتی ہوں کہ آپ کیا کریں گے؟میرے خیال سے آپ سب سے اچھا کمرہ ان کو دیں گے،سب سے اچھا کھانا ان کو پیش کریں گے، اور آپ بار بار ان کو یقین دلائیں گے آپ کو ان کی آمد کی بےحد خوشی ہے۔ آپ کی مہمان نوازی کی کوئی حد نہیں ہو گی اور آپ کی خدمات کا کوئی موازنہ موجود نہیں ہو گا’۔
لیکن جب آپ انہیں آتا دیکھیں گے تو کیا آپ ان کے اعزاز میں ان سے دروازے پراپنی باہیں پھیلا کر ملیں گے؟ یا آپ کو پہلےاپنا لباس بدلنا ہو گا؟اس سے پہلے کہ آپ ان کو اندر لے کر آئیں ؟یا پھر کچھ رسالے چھپانے ہوں گے اور ان کی جگہ قرآن پاک رکھنا ہو گا؟کیا آپ ٹی وی پر پروگرام دیکھنا جاری رکھیں گے یا اسے بند کرنے کو دوڑیں گے اس سے پہلے کہ ان کو پریشان کریں۔کیا آپ ریڈیو بند کریں گے یہ دعا کرتے ہوئے کہ کاش انہوں نے ادا ہونے والا آخری لفظ نہ سنا ہو؟کیا آپ دنیاوی موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کریں گے اور اس کی جگہ جدید دانش مندی اور اسلامی تہذیب و تمدن کے کتابیں نکالیں گے؟کیا آپ ان کو سیدھا اندر لے آیئں گے یا آپ کو دوڑنا پڑے گا اس سب کے لیے۔ایک اور بات مجھے سوچ میں ڈالتی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک یا دو دن رکیں تو کیا آپ وہ سارے کام کرتے رہیں گے جو ہمیشہ کرتے ہیں ؟کیا آپ وہ ساری باتیں کہتے رہیں گے جو ہمیشہ کہتے ہیں؟کیا آپ کی روز مرہ کی زندگی جاری و ساری رہے گی؟کیا آپ کی نجی زندگی کی گفت و شنید معمول کی رہے گی؟یا آپ میز پر سجے کھانے کا شکر ادا کرنے میں تکلیف محسوس کریں گے؟کیا آپ ہر نماز تیوری چڑھائے بنا ادا کر سکیں گے؟کیا آپ صبح کی نماز کے لیے وقت پر جاگ سکیں گے؟کیا آپ اپنے پسندیدہ گانے گنگناتے رہیں گے؟اپنی مرضی کی کتابیں پڑھتے رہیں گے؟اور انہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جاننے دیں گے کہ آپ کی روح کی غذا کون کون سی ہے؟کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر اس جگہ لے جائیں گے جہاں آپ عام طور پر جاتے ہیں یا پھر ایک دو دن کے لیے اپنے منصوبوں میں تبدیلی کر لیں گے؟کیا آپ اپنے قریبی دوستوں سے ان کو ملوا سکیں گے؟یا امید کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہوتے ہوئے آپ کے دوست دور ہی رہیں؟کیا آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمیشہ رہنے سے خوشی ہو گی یا آپ افسردگی اور بے بسی سے ان کو جاتا ہوا دیکھیں گے۔ان چیزوں کو جاننا یقینا ایک دلچسپ امر ہو گا کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے ساتھ وقت گزارنے آیئں توآپ کیا کریں گے۔
یہ سوالات و تاثرات قابل تلاش ہیں اور انھیں بنیادی تصورات و نظریات سے متاثر ہو کر لمحہ موجود کی ضرورت کے مطابق زندگی گزارنے کی تشکیل و تعبیر نو کیسے ممکن العمل ہوسکے گا ۔یہی سال نو اور ہجرت مبارکہ کے ترجیحات میں سب سے اہم سوال و لائحہ عمل بن سکتا ہے_ جس پر آج کے نسلوں کے لئے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات اور پسندیدہ سماجیات و ناپسندیدہ شخصیت و کردار سازی کے لئے پورے مکیننزم کی مجموعی تفصیلات و ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہیں_اور یہی دراصل آج کا زندہ سوال ہے_؟
{ محترمہ صدف کیانی صاحبہ نے ایک نا معلوم شاعر کی آزاد انگریزی نظم سے متاثر ہو کر آخری حصہ لکھا ہے}