ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ امرتسر سے لاہور آ گئے ۔ لاہور میں دوستوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم سازوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اور انھیں حیرتناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔
1947ء سے 1952 تک ساغر کی زندگی کا زرّیں دور کہا جا سکتا ہے۔ وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہوگئے، بلکہ بعض جریدے تو ان کی ادارت میں شائع ہوتے رہے۔
ساغر صدیقی عموماً کسی قبرستان میں یا کسی مزار پر مجذوبوں کی صورت میں پڑے رہتے تھے۔ اسی ماحول میں انہوں نے گھٹیا نشے بھی کرنا شروع کردیے جس کے باعث ان کی صحت بہت جلد جواب دے گئی۔
ساغر صدیقی کی شاعری کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں خشت میکدہ، لوح جنوں‘ شب آگہی‘ شیشہ دل‘ غم بہار‘ مقتل گلی اور زہر آرزو کے نام شامل ہیں۔
ساغر صدیقی 19 جولائی 1974ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔ ان کے مقبرے پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے
وہاں اب تک سنا ہے سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
نمونہ کلام کے طور پر ان کی یہ غزل:
اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
جا چکا کاروان لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا
چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا
ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غم گسار چپ ہو جا
حادثوں کی نہ آنکھ کھل جائے
حسرت سوگوار چپ ہو جا
گیت کی ضرب سے بھی اے ساغرؔ
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا
ساغر صدیقی کا تعلق نہ تو کسی ادبی تنظیم سے تھا اور نہ ہی وہ کسی ٹی ہاؤس میں چائے پینے کے لئے جاتا تھا۔ساغر ریڈیو سٹیشن پہ بھی کبھی جاکر نہِیں بَیٹھا، ساغر نے بڑے بڑے گلوکاروں کے ذریعے اپنی غزلیں مشہور کرانے کے لئے کسی سے تعلقات بھی نہِیں بنائے۔بلکہ مہدی حسن نے جِس غزَل کے ذریعےسے شہرت کی بلندیوں تک کا سفر پلَک جھپکتے ہی طے کر لیا وہ غزَل خود مہدی حسن نے کِتنے ہی دِن اور راتیں ساغر کو تلاش کرکے حاصِل کی تھی لیکِن یہ ایک الگ بات ہے کہ ریڈیو سے چند ہی دِنوں میں مشہور ہو جانے والی اِس غزَل کی رائلٹی صِرف مہدی حسن کی جیب میں جاتی رہی جبکہ اُن دنوں میں ساغر صدیقی پہ فالج کا شدید حملہ ہو چکا تھا۔۔اِلہام کی طرح اُترے ہوئے ساغر کے شعروں سے بڑے بڑے شاعِر سہمے ہوئے اور خوفزدَہ رہتے تھے۔اُمّ الخبائث کے رسیاء اور محتاج شاعِروں نے اپنے معاشقوں اور بَد محفلوں کو چُھپانے کی غرض سے ساغر صدیقی پہ تہمتوں اور الزامات کا ایک طوفان کھڑا کئے رکھا۔۔۔جو آج تک ادبی دنیا کے مجاور اپنی شناخت قائم رکھنے کے لئے برپا کئے ہوئے ہیں۔ساغر نے حکومت ، یا کسی ادبی تنظیم سے کوئی امداد نہِیں لی اس نے کوئی ٹھکانہ نہِیں بنایا۔اگر اسکے پاس کُچھ سِکے کبھی آ ہی جاتے تو وہ اپنے دوستوں کے لئے چائے کی دعوت کا اہتمام کرکے وہ پیسے بھی اِنسانی خِدمَت میں صرف کردیتا ساغر کو اللّٰہ نے بہت بڑا ظرف عطاء کیا تھا۔جناب محمد اختر المعروف ساغر صدیقی در حقیقت جسے قدرت نے فقر سے مالا مال کر دیا تھاجس کو دنیا کی چکاچوند بھی گمراہ نہ کر سکی۔وہ سارا دن شہر کی سڑکوں پہ گھومتا اور اُس پہ اشعار نازل ہوتے رہتے وہ سڑکوں سے سگریٹ کے خالی پنّے اُٹھاتا اور اُن پہ اپنا الہام مُنتقل کرکے اُس کاغذ کو اپنی زنبیل میں محفوظ کر لیتا۔وہ سارا دن لاہور شہر کی سڑکوں پہ گذارنے کے بعد مشہور بزرگ حضرَت علی ہجویری رح کے مزار کے باہر کسی فُٹ پاتھ پہ لیٹ کر رات بسَر کر لیتا لیکن کسی ایک شخص نے بھی ساغر کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے نہِیں دیکھا ساغر صدیقی واحد شاعِر ہے جس پہ فالج کی شدید بیماری کے دنوں میں بھی کلام اُترتا رہا ساغر کا ایک ایک لفظ اسکی دانش، بصیرت ، اور روشنی کا عکاس ہے ساغر کا کلام آج کے شاعِروں ، ناشِروں اورگلوکاروں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ساغر کی لِکھی ہوئی نعتوں سے جھلکنے والا ادَب انسان کو ضرور فیض یاب کرتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے مکافات کی اس دنیا کی کہ۔۔۔فالج کے شدید حملے کے باوجود ساغر پہ شاعری نازل ہوتی رہی۔۔۔اور جب مہدی حسن نے ساغر صدیقی کی غزَل کو وجہِ شہرت بنایا۔۔۔تو ان دنوں ساغر صاحب مفلوج تھے۔۔۔(ساغر صاحب کو علاج کی اشد ضرورت تھی۔۔لیکن ساغر صدیقی نے نہ امداد مانگی اور نہ ہی اپنا حق جتایا۔۔۔) پِھر ایک وقت اَیسا بھی آیا کہ مکافاتِ عمَل سامنے تھا۔۔۔۔مہدی حسن کو فالج ہُوا۔۔۔مختلف اداروں سے کروڑوں روپے کی امداد علاج کی غرض سے لی گئی۔۔۔۔بلکہ جگجیت سنگھ پاکستان آئے اور مہدی حسن کی امداد کے لئے خصوصی پروگرام کیا جس کی ساری آمدنی مہدی حسن کو دی گئی۔۔۔۔مگر۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔وقت گزر چکا تھا۔۔۔فالج ہی مہدی صاحب کو وہاں لے گیا جہاں کوئی گلڈ ، انجمن اور ٹی ہاؤس نہیں ہے صرف مکافات کا پھل ملتا ہے۔صرف تھری پیس پہن لینا ،اپنے معاشقوں کو فخریہ انداز میں بیان کرنا ، بانئ پاکستان اور پاکستان کو ہمیشہ زیرِ تنقید رکھنا نیز اپنے مخصوص مشن کے باعث گرفتاری کے خطرے سے بچنے کے لئے مُلک سے باہر چلے جانا کہاں کا علم ہے ، کہاں کی شاعری ہے ، کہاں کی حب الوطنی ہے؟جو واقعی انسان ہیں۔۔۔۔انہیں انسانیت کے معیار سے نیچے رکھا جاتا ہے اور جو انسانیت کے الف سے بھی آشنا نہیں انہیں انسانیت کے منصب پہ بٹھا دیا جاتا ہےیعنی دستار انہیں دے دی گئی ہے جن کا سر ہی نہیں ہے ۔۔۔ لاہور کے ایک شخص کو تو مَیں بھی ذاتی طور پہ برائے تحقیق مل چکا ہوں جس کے پاس ساغر صدیقی کے ہاتھوں سے تحریر کردہ ہزاروں چھوٹے چھوٹے پنے تھے۔۔۔۔(کیونکہ ساغر صاحب اپنے اشعار اپنے راستے میں گرے ہوئے سیگریٹ کی ڈبیہ کے خالی پنوں پہ لکھ کر اپنے کاندھے پہ لٹکی زنبیل میں ڈال لیا کرتے تھے ) جو ساغر کی وفات کے بعد اس پبلشر کے پاس محفوظ ہو گئے جس نے ساغر سے بہت سا کلام لے کر اس وقت کے “شاعروں اور گلوکاروں”کو فروخت کیا اکثر “شاعروں”نے اس ناشر سے لاکھوں کے عوض خریدے اور اپنے نام سے چھپوائے ان”شاعروں”میں چار نام تو انتہائی اہم ہیں۔۔۔۔موصوف بھی ان میں شامل تھے۔۔۔۔اپنی اس حرکت کو چھپانے کے لئے ساغر صدیقی کی کردار کشی کی مہم منظم طریقے سے چلائی گئی۔۔۔۔جو اب تک چل رہی ہے۔۔۔ورنہ ۔۔۔۔جام ، شباب اور عیش کا شعر کی تخلیق سے کیا واسطہ۔ ساغر صدیقی کے متعلق “دانشوروں” کی تحریریں ۔۔۔سوائے مفروضات و خرافات کے کچھ بھی نہیں۔ ایک مخصوص طبقے نے جہاں قومی مشاہیر کے خلاف منفی مواد گوگل پہ دے رکھا ہے وہاں ساغر صدیقی کو بھی نہیں بخشا گیا ۔ بھلا جو شخص وقت کے حکمران کی خوشامدسےانکار کر دیتا ہو وہ اپنا وقت تاش ، جوئے ، معاشقے اور آوارہ گردی میں برباد کرتا ہو گا آج شراب پی کے مرجانے والے افراد کو مرشد کہنے کا دور ہے۔۔۔۔ساغر کو سمجھنے کے لئے صنف نازک اور ام الخبائث کے شوقین شاعروں کی تعریف کرنے والا دماغ نہیں بلکہ حق کا متلاشی ذہن درکار ہے۔۔ ایثار اور انسانیت کی قدر سے نوازے گئے افراد جوئے اور شراب میں اپنا وقت برباد نہیں کرتے۔۔۔کہنے والوں نے تو غالب کو بھی جوئے کا شوقین اور گداگر ثابت کرنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی وہ ساغر کو کیا سمجھیں گے۔۔۔۔آج کے دانشور گوگل سے کاپی پیسٹ کرکے دانشور بنتے ہیں تحقیق کی بجائے لکیر پیٹتے ہیں۔۔ساغر واحد شاعر ہے جس پہ فالج کے دنوں میں بھی اشعار اترتے رہے۔۔۔۔۔جبکہ بڑے بڑے گلوکار اور شاعر فالج کے باعث مفلوج ہو کر اپنی زبان و دماغ سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔(حکیم خلیق الرحمٰن)