آج نامور کلاسیکی گلوکارہ زاہدہ پروین کی برسی ہے ۔ وہ 1925ء میں امرتسر میں پیدا ہوئیں اور7 مئی 1975ء کو لاہور میں وفات پائی۔ زاہدہ پروین نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم بابا تاج کپورتھلہ والے سارنگی نواز سے حاصل کی بعد ازاں وہ تقریباً سات برس تک استاد حسین بخش خاں امرتسر والے سارنگی نواز سے گائکی کے رموز سیکھتی رہیں ان دونوں استادوں کے بعد وہ استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کی شاگرد بنیں ۔ کچھہ عرصہ استاد اختر علی خان سے بھی اکتساب فیض کیا۔
قیام پاکستان 1947ء کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئیں۔ اُن کے کلاسیکی موسیقی کے پروگرام بغیر کسی تعطل کے نشر ہوتے رہے۔1964ء میں اُنہیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں طلائی تمغے سے نوازا گیا۔اُنہوں نے بطور پس پردہ گلوکارہ بھی متعدد فلموں کے لیے گیت گائے۔ 1975ء میں اُن کی وفات کے بعد اُن کی بیٹی شاہدہ پروین نے کافیوں کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔
زاہدہ پروین خیال گائیکی پر مکمل عبور رکھتی تھیں مگر ان کے جوہر کافی کی گائیکی میں کھلے۔ انہیں خواجہ غلام فرید کے کلام سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا جب انہوں نے خود کو خواجہ صاحب کی کافیوں کے لیے مخصوص کردیا تو پھر وہ اس سلطنت کلام کی بلا شرکت غیرے بے تاج ملکہ بن گئیں۔ ان کے اسی منفرد اسلوب گائیکی کی وجہ سے انہیں ملکۂ کافی کا خطاب دیا گیا۔. زاہدہ پروین لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں آسودۂ خاک ہیں۔