آج اردو کے معروف شاعر جناب آرزو لکھنوی کا یومِ وفات ہے۔آرزو لکھنوی کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ 1873ء میں لکھنو
میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ‘فغانِ آرزو، جہانِ آرزو، نشانِ آرزو، زبانِ آرزو اور سریلی بانسری’ بے حد مشہورہیں۔ انہوں نے متعدد فلموں کے گیت اور مکالمے بھی تحریر کیے تھے۔
16 اپریل 1951ء کو آرزو لکھنوی کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ میوہ شاہ میں علی باغ قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
یہ بھی دیکھئے
نمونہ کلام:
وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے
کہ خود کہتے نہیں کچھ اور کہلواتے ہیں ہاں مجھ سے
بہت کچھ حسن ظن رکھتا ہے میرا مہرباں مجھ سے
کہ تہمت دھر کے ہے خواہان تائید بیاں مجھ سے
کسی گل کی قبا ملتی نہیں تحریق سے خالی
جنوں نے لے کے بانٹی ہیں یہ کتنی دھجیاں مجھ سے
پلا ساقی کہ رہ جائے خمار کیف کا پردہ
یہ بھی پڑھئے:
پندرہ اپریل: ممتاز ادیب اور دانش ور مختار مسعود کی آج برسی ہے
تیرہ اپریل: عظیم مؤرخ و ادیب مولانا غلام رسول مہر کا آج یوم ولادت ہے
رحمان بابا کے مفسر،پروفیسر فضل حق میر مرحوم
بس اب رکتیں نہیں آتی ہوئی انگڑائیاں مجھ سے
جو گل کو گل نہ سمجھو گے تو کانٹوں ہی میں الجھو گے
نہ دو اپنے کو دھوکا آپ ہو کر بد گماں مجھ سے
بہت جلدی نہ کر اے چشم تر کچھ دیر کو دم لے
بیاں کرنا وہ تو رہ جائے جتنی داستاں مجھ سے
مثال شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے
ہوئیں تا دیر پہچانی ہوئی آواز میں باتیں
وہ کچھ کچھ کھل چلے ہیں رکھ کے پردہ درمیاں مجھ سے
تصور کی نظر پردوں کے روکے رک نہیں سکتی
بتا او جانے والے چھپ کے جائے گا کہاں مجھ سے
اگر اے آرزوؔ ہر سانس دل کی آہ بن جائے
نہ ہوگی ختم پھر بھی میری لمبی داستاں مجھ سے