آج عالم اسلام کے عظیم خطیب، عالم دین اور شاعر علامہ رشید ترابی کا یوم وفات ہے۔ علامہ رشید ترابی کا اصل نام رضا حسین تھا اوروہ 9 جولائی 1908ءکو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم علامہ سید علی شوستری اور آغا محمد محسن شیرازی سے حاصل کی۔ ان کے دیگر اساتذہ میں آغا سید حسن اصفہانی اور علامہ ابوبکر شہاب عریضی جیسے علما بھی شامل تھے۔ شاعری میں نظم طباطبائی اور علامہ ضامن کنتوری کے شاگرد ہوئے۔ ذاکری کی تعلیم علامہ سید سبط حسن صاحب قبلہ سے اور فلسفہ کی تعلیم خلیفہ عبدالحکیم سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
سولہ ہزار برطرف ملازمین کی بحالی، سپریم کورٹ فیصلے کا منفرد پہلو
سقوط ڈھاکا: مغربی پاکستان کیا جانتا تھا جب مجیب کو غدار ٹھہرایا گیا
فراق گورکھپوری: شخص اور شاعر: ڈاکٹر تقی عابدی کی گفتگو
جدید خطابت کے موجد
علامہ رشید ترابی نے 10 برس کی عمر میں مجالس میں پیش خوانی شروع کردی تھی۔ انھیں یہ اعزاز اپنے زمانے کے ممتاز ذاکر مولانا سید غلام حسین صدر العلماءکی مجالس میں حاصل ہوا۔ سولہ برس کی عمر میں انہوں نے عنوان مقرر کرکے تقاریر کرنا شروع کیں۔ تقاریر کا یہ سلسلہ عالم اسلام میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ 1942ءمیں انہوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر تقاریر کیں۔ یہ تقاریر ان کی ہندوستان گیر شہرت کا باعث بنیں۔ علامہ رشید ترابی اس دوران عملی سیاست سے بھی منسلک رہے۔ انھوں نے قائد ملت نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم کام کیا۔ قائد اعظم کی ہدایت پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ 1940ءمیں حیدرآباد (دکن) کی مجلس قانون ساز کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
ذکر حسین اور بس
1949ءمیں علامہ رشید ترابی پاکستان آگئے۔ یہاں انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس کے انھوں نے خود کو ذکرِ حسین کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے 1951ءسے 1953ءتک کراچی سے روزنامہ المنتظر کا اجرا کیا۔ اس سے قبل انہوں نے حیدرآباد دکن سے بھی ایک ہفت روزہ انیس جاری کیا تھا۔ 1957ءمیں ان کی مساعی سے کراچی میں 1400 سالہ جشن مرتضوی بھی منعقد ہوا۔
قادر الکلام شاعر
علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ ”شاخ مرجان“ کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی مرتب کردہ کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں طب معصومین‘ حیدرآباد کے جنگلات اور دستور علمی و اخلاقی مسائل شامل ہیں۔
علامہ رشید ترابی 18 دسمبر 1973ءکوکراچی میں وفات پاگئے اور حسینیہ سجادیہ کے احاطے میں آسودہ خاک ہوئے۔