ایوان مچھلی منڈی کا سماں پیش کرتا رہا ۔ ارکان پارلیمنٹ باہم جوتم پیزار ۔فحش گالیوں کا تبادلہ
مقتدر اداروں کی طرف سے اسمبلی کی کارگردگی پر اطمینان کا اظہار۔ ایوان صدر سے بھی تحسین۔
قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی یاوہ گوئی سے متاثر ھو کر ” ڈونگہ بونگہ یونیورسٹی” نے اطراف کے دو دو ارکان کے لئیے PHD کی اعزازی ڈگریوں کا اعلان کر دیا ۔ سرکاری بینچوں سے علی نواز اعوان اور مراد سعید اور اپوزیشن کی طرف سے روحیل اصغر شیخ اور عبد القادر مندوخیل کے نام اتفاق رائے سے یونیورسٹی حکام کو بھجوانے کا فیصلہ ھو گیا ۔
سپیکر چیمبر میں پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس میں یہ اصول بھی طے ھوگیا کہ آئیندہ اجلاس سے گالی صرف قومی زبان میں ھی بکی جائے گی۔ کیونکہ مادری اور علاقائی زبان میں گالیاں دینے سے سمجھنے سمجھانے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ھے ۔ بعض اوقات اپنی سیٹ سے اٹھ کر چیف وہپ یا منسٹر ” امور چرب زبانی “سے گالی کا سلیس اردو کروانا پڑتا ھے جس سے فی البدیہہ جواب دینے میں نہ صرف وقت ضائع ھوتا بلکہ سارا مزہ کرکرا ھوجاتا ھے۔ ایک حکومتی رکن نے ٹرانسلیٹر بھرتی کرنے کی تجویز دی۔ تاکہ کچھ فارغ اینکرز اور صحافیوں کے لیئے ” نان نفقے” کا سرکاری بندوبست ھو سکے۔ اس طرح وزیر اعظم کا نوکریاں دینے کا وعدہ ایفا ھو سکےگا۔
پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ھوئے سرکاری بینچوں سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے وزیر اعظم جناب عمران خان سے درخواست کی جائے کہ ایک نئی وزارت ، “وزارت غیر پارلیمانی امور” بھی بنا دی جائے ۔ جس کے لیئے درکار فنڈز کے لیئے ضمنی بجٹ بھی پیش کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ یہ اس وزارت کے ذمہ داری ھو کہ وہ” دھینگا مشتی اورھلڑبازی ” کے لیئے سازگار ماحول پیدا کرے۔ نیز اجلاس سے قبل ارکان پارلیمنٹ کی سہولت کے لیئے سرکاری خرچ پر پرانے جوتے گندے انڈے اور نرم ٹماٹر مہیا کرے۔ کیونکہ فائلوں اور کتابوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ھوتے۔ کچھ ارکان نے نقطہ استحقاق پیش کرتے ھوئےکہا کہ منہ کالا کرنے کے لیئے اچھی قسم کی سیاھی اور امپورٹڈ سیٹیاں اور باجے بھی فراھم کیئے جائیں۔دونوں طرف کے ارکان کے جوش و خروش کو دیکھتے ھوئے اجلاس کی صدارت کرتے ھوئے ڈپٹی سپیکر نے ایوان کی مجموعی رائے جاننے کے لیئے رائے شماری کروائی تو تمام ارکان نے پر جوش انداز میں دونوں ھاتھ بلند کرکے اس کی منظوری دے دی۔ کراچی سے ایک حکومتی دانشور ایم این اے نے اپنی خدمات بغیر تنخواہ کے پیش کرتے ھوئے یہ تجویز بھی کہ حکومت چاروں صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں صوبائی اور قومی سطح پر ” مقابلہ حسن فحش گوئی” کا اہتمام کرے ۔ جس کی میزبانی کو وہ اپنے لیئے اعزاز سمجھیں گے ۔ شیخورہ سے ایک اپوزیشن رکن نے گالی گلوچ کلچر کو فروغ دینے کے لیئے اسے نصاب کا حصہ بنانے جبکہ ترین گروپ کے فیصل آباد سے رکن اسمبلی نے فری سٹائل کشتیوں کا موقع مہیا کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔ ایم کیو ایم نے مذکورہ مطالبات اور تجاویز کو رابطہ کمیٹی کی منظوری سے مشروط کر دیا۔