وہ ایک نامور شخص تھے اور دعوت کا میدان ان کی شناخت اور پہچان تھا۔ گفتگو ایسی کہ سامع کو فورا ہی گرفت میں لے لیتے تھے۔ بلاشبہ سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کا رخ بھی موڑا۔ بظاہر بہت خوبصورت شخصیت’ عبادت گزار اور متبسم چہرہ!
پھر ایک دن سرگوشیاں بلند ہوئیں کہ موصوف کے شوق لاہور میں منظر عام پر آنے والے اسکینڈل والے ہیں۔ موبائل فون عام نہیں تھے۔ کچھ نے پروپگنڈا کہا اور باقیوں نے معنی خیز انداز میں خبر ادھر سے ادھر کی مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ بالآخر ایک دن اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے میں کارروائی کے دوران رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ معززین کے سامنے بیٹھے تو ٹوٹ کر بکھر گئے۔ کسی اگر مگر کے بجائے گویا ہوئے کہ کئی سالوں سے اس عادت بد سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں اور کچھ عرصہ چھوڑتا بھی ہوں مگر یہ ایک نشہ ہے۔ اے کاش بروقت مجھے اس بارے میں کوئی راہنمائی اور مشورہ مل جاتا۔ چالیس سال سے نشے کے عادی مریض کو آپ کیا کہیں گے؟ المیے کی صورت دنیا سے چلے گئے!
منظر بدلتا ہے۔ یہ ایک اور صاحب ہیں۔ علم و فضل کا پہاڑ ہیں۔ اپنے فن میں یکتا اور گفتگو ایسی کہ گھنٹوں سنیں تو سنتے ہی چلے جائیں۔ پوری زندگی اسی طرح کے اسکینڈلز کی زد میں رہے۔ ایک ادارے سے نکلتے تو علمیت و حیثیت کی بنیاد پر اس سے اونچے ادارے میں جا پہنچتے۔ چند ماہ یا سال یہ سلسلہ چلتا مگر حضرت کی عادت بد کی طلب کی مانگ کا شہرہ وہاں بھی بلند ہو جاتا۔ کون بولے اور کون سمجھائے؟ بزرگی اور مرتبہ آڑے آتا رہا۔ سب کو پتا ہونے کے باوجود اشتہار کی زینت ان کا نام جلی حروف میں بنتا رہا اور پھر المناک وقت اجل آن پہنچا!
یہ محض دو واقعات نہیں۔ یہ ہمارے معاشرے اور دینی تعلیم اور دعوت کے میدان سے جڑی ہوئی معلوم مگر ان کہی کہانیاں ہیں جو جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ ان میں خباثت’ ظلم’ حدود اللہ کی پامالی وغیرہ وغیرہ کو ضرور تلاش کریں مگر ساتھ میں انسانی المیہ کے پہلو کو بھی نظرانداز نہ کریں۔ شخصیت پرستی’ تقدس’ حضرت والا و اکابر کے احترام میں غلو’ مدارس میں بچوں کی عمر کے تفاوت کے باوجود آپس میں انٹر ایکشن’ خدمت کے نام پر جسمانی ایکسس’ بدنامی کے خوف سے پردہ پوشی’ عیوب کو چھپانے کے احکامات کی غلط تعبیرات وغیرہ نے ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے جہاں اس قسم کے اسکینڈل سامنے نہ آئیں تو اور کیا ہوگا؟
اور ہاں آج جو پچاس ساٹھ ستر سال کا بدکردار ہمارے سامنے ہے وہ کل کسی جگہ پر ایک معصوم بچہ تھا۔ اس کی معصومیت کو کسی نے برسوں پہلے یہ گہن لگایا تھا جو اب پختہ نشے کی صورت میں معاشرے کو ڈس رہا ہے۔ وہ مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ بیمار ہے۔ جی ہاں جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ایک تقریبا لاعلاج مریض! اس قسم کے واقعات کے اصل محرکات پر بھی غور کر لیجیئے اور خدارا اس تحریر کو کسی جرم کی تاویل کے طور پر نہ لیں۔