خلاصہ: یہ سچی کہانی ایک مظلوم اور بانکے سے دولہے کی ہے۔ جو بیاہ کی چاہ میں پہلے محبت اور پھر سچ مچ بیاہ کر بیٹھا۔ محبت کے کچے رنگ شادی کی پہلی موسلا دھار جھڑی میں دھل گئے تو حواس باختہ دولہا اصلاح احوال کرتے کرتے وچولن سے رشتہ گانٹھ بیٹھا، پھر کیا ہوا، جاننے کے لیے پوری کہانی پڑھیں:
مکمل کہانی
دولہے میاں کا نام معلوم نہیں کیا تھا، محلے میں یوتھیا کہلاتے تھے۔محبت اور شادی کے چکر میں دو بار چُوک گئے۔پہلی محبت پہلی نظر والی محبت تھی۔ اسی میں ٹھوکر کھائی۔محبوبہ کی افتاد طبع کے سبب وصال کی صورت برآمد نہ ہوتی دیکھی تو ایک بدنام زمانہ وچولن کو مٹھائی کا ڈبہ اور زربفت کا جوڑا دے کر مدد کے لیے آمادہ کیا۔ تجربے کار وچولن نے مہینوں میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا
دن طے پا گئے۔ تاہم وصال کی گھڑی آئی تو معلوم ہوا کہ جس سے عہد و پیمان باندھے تھے اور جس نے اپنی شیریں بیانی سے دل کا قرار لوٹا تھا، گھونگھٹ اٹھانے پر تو وہ نہیں نکلی۔
مرتے کیا نہ کرتے، صبر شکر سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انتخاب اپنا تھا حالانکہ دوست احباب منع کرتے تھے کہ یہ شکل سے ہی فراڈ لگتی ہے، اس سے بچ کر رہم مارےباندھے دو برس نبھاتے رہے کہ نگوڑے باراتی توا لگائیں گے۔ گھر اس کے پھوہڑ پن سے الگ اجاڑ ہو رہا تھا پن چپ رہنے پر مجبور تھے۔
پھر جیسا کہ دنیا کا دستور ہے، ہوتا چلا آیا ہے، آہستہ آہستہ باتیں نکلنا شروع ہوئیں۔ منہ سے نکلی، کوٹھوں چڑھی۔ ارے دلہنیا تو پرلے درجے کی پاجی، جھوٹ کی رسیا، مفت خوری اور بسیار گوئی کی پرانی مریضہ ہے۔ گلی محلے میں بھی سب سے بگاڑ چکی ہے۔
جو دبی زبان میں ہو رہی تھیں وہ باتیں اب باآواز بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ اس ناس پٹے یوتھیئے کو منع بھی کیا تھا اس وچولن کے چکر میں نہ پڑ۔ یہ مروائے گی تجھے لیکن اس نے ایک سن کر نہ دی
کچھ اس رشتے کو بچانے، کچھ آتے جاتے معنی خیز نظروں سے تکتے محلے داروں کے منہ بند کرانے اور کچھ اپنی رہی سہی بچانے کے چکر میں دولہے میاں لا شعوری طور پر وچولن کا دفاع کرنے لگے۔ دفاع کرتے کرتے نا معلوم کب اس کے عشق میں سر تا پا غرق ہو گئے
رعب تو محلے داروں پر گانٹھنا چاہتے تھے کہ ہم، ہماری دلہنیا اور وچولن آنٹی ایک پیج پر ہیں۔ اپنے رشتے سے خوش ہیں اور رشتے کرانے والی سے بھی خوش ہیں
کوئی ہمارے آشیانے کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے
لیکن اس جگاڑ میں وچولن نے جو دو چار دھوبی پٹڑے مارے اس سے دولہا میاں کے تو رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اب اس کے دفاع نما عشق میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ پلٹنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا
اوپر سے دوہری مصیبت یہ کہ دلہنیا گرچہ فراڈ نکلی لیکن اپنی گئی گزری حالت میں بھی دولہے میاں اسے چنگا مندا بول سکتے تھے کہ تو تو بڑے دعوے کرتی تھی، تیرا کہا تو ایک لفظ بھی سچ نہ نکلا
لیکن وچولن کے ساتھ ایسا مذاق وہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ دلہنیا اگر صرف فراڈ تھی تو وچولن تو فراڈ کے ساتھ ساتھ ہتھ چھٹ بھی ہے
اب دولہے میاں کبھی کبھی دل کا بوجھ ہلکا کرتے اور فیس بک کی دیوار کو دیوار گریہ بناتے نظر آتے ہیں
اس جوانی میں ان کا یہ حال قابل دید نہیں۔ لیکن ایک امید ہے کہ شاید دلہن کو خود ہی رحم یا حیا جائے تو منے کا دل رکھنے کو وچولن کو اپنی اوقات میں رہنے کا کہہ دے۔