ADVERTISEMENT
میں کثافت کو پھیلانے کا قائل نہیں اس لئے نیل احمد کی جس ننگی بوچی شاعری پہ مجھے شدید اعتراض ہے وہ میں یہاں بالضرور شیئر کردیتا۔تاہم یہ عرض کئے بغیر چارہ نہیں کہ اوج کمال کی خصوصی دریافت نیل احمد کی مبینہ گرما گرم آزاد نظم ماسٹربیشن کو اگر ایک لمحے کے لئے بھی شاعری باور کرلیا جائے تو اس میں کیا شک ہے کہ پھراردو کے سب سے بڑے ادیب بھی حضرت وہی وہانوی ہی ٹھہریں گے۔بلاشبہ موضوعات جنس کا سطحی اظہار شاعری ہرگز نہیں کیونکہ جس فن پارے سے وضو شکنی کے وافر و بے تحاشا امکانات پیدا ہوتے ہیں وہ دراصل شاعری نہیں واعری ہے اور اک طرح کی ترستی بلکتی التجآء برائے وصل ہے یا اپیل برائے علاج شافی و شافی و کافی۔ مجھے احساس ہے کہ اس قسم کی گڑگڑاتی اپیلیں رائیگاں نہیں جاتی ہوں گی۔
جہاں تک معاملہ ہے مردانہ کمزوری کا تو 70 برس میں پاکستان کی آبادی سات گنا بڑھ جانے کے بعد تو کم ازکم یہ مان ہی لینا چاہیئے کہ یہ کمزوری والا الزام تو ہمارا واحد مان چھین لینے کی سازش سے کم نہیں کیونکہ وطن عزیز میں گندم اور چاول اتنا پیدا نہیں ہوتا جتنے کہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور افزائش آبادی کے گراف اور اعداد و شمار کی روشنی میں صاف پتا چلتا ہے کہ ہماری قوم کی اصل قابل فخر توانائی جوہری توانائی نہیں ہے۔پھر بھی کوئی اگر مردانہ کمزوری کو مسئلہ باور کرتا ہے تو اسے قبلہ بڑے حکیم صاحب سے یا انکے شاگردوں سے ملنے سے کس نے روکا ہے کہ عین وقت پہ شرمندگی سے بچالینے کے یہ دعویدار ماہرین تو اس ملک میں تعداد میں مویشیوں سے بھی زیادہ ہیں اور جن کی ہر جگہ موجودگی کے اشتہارات کراچی تا پشاور 1700 کلومیٹر کی طویل ریلوے لائن کے دونوں طرف نظر آتی دیواروں پہ بکثرت نظر آتے ہیں اور ریلوے لائن تو پھر بھی ختم ہوجاتی ہے مگر یہ اشتہارات ختم نہیں ہوتے – ان اشتہارات پہ اگر بھروسہ کیا جاسکے تو یہ بھی یقین کرنا پڑے گا کہ 22 کروڑ کی آبادی میں سے 20 کروڑ افراد تو نارمل طور پہ پیدا نہیں ہوئے بلکہ محض ایجاد ہوئے ہیں۔
بہت سے حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ جنسی کمزوری کو موضوع بنانے والے دراصل خود ذہنی کمزوری کا شکار ہوتے ہیں یا پھر ان کے دائمی بھوکے پیاسے اور ترستے بلکتے وجود میں ہمہ وقت ایسے بے پناہ شہوانی جذبات کا دریا ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہےجس کے نتیجے میں ادب کے بے ادبی میں تبدیل ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔