فیملی اسے اضافی بوجھ سمجھتی تھی جسمانی طور پر بھی کچھ ابنارمل قسم کا تھا چہرے کے نقوش بھی ہمارے میانوالی کے ایم ایم روڈ سے مختلف نہیں تھے آنکھیں ناک کی طرح تو ناک کانوں کی طرح کا تھا ہونٹ کسی ٹوٹے ہوئے گھڑے کے اوپر کے حصے سے مختلف نہیں تھے کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ دائیں اور بائیں ٹانگ میں فرق ہے جسکی وجہ سے دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں بھی فرق نظر آتا ہے۔
ایک دن اسی کے ہاتھ میں پکڑے جھاڑو سے اس کے دائیں بائیں ہاتھ اور ٹانگ کی پیمائش کی تو دونوں کا سایز ایک جیسا نکلا البتہ ایک ہاتھ میں جھاڑو اور دوسرے میں طرح طرح کی گندگی سے بھرا ہوا ڈول اٹھانے کی وجہ سے جسم ایک جانب جھک گیا تھا جس کی وجہ سے دونوں ٹانگوں اور بازوؤں میں فرق محسوس ہوتا تھا مگر رنگ گورا چٹا سرخ انار کی طرح تھا گرمی کے دنوں میں چہرے پر پسینے کے قطرے انار کے دانوں کی طرح چمکتے تھے بندو نام کے اس کرسچین کا آخر تک مجھے علم نہ ہوسکا وہ کرسچین تھا مسلمان تھا یا کیا تھا۔
بازار آتے جاتے ہوئے مجھے اس کے گھر کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا یہ ریلوے کے بنائے ہوئے چند علیحدہ کوارٹر تھے جن میں کرسچن فیملیاں رہتی تھیں بندو کی فیملی بھی یہاں رہتی تھی بس آتے جاتے میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی۔
پہلے پہل وہ دور سے حال احوال پوچھتا تھا مگر اچانک ایسا بے تکلف ہوا کہ گلے ملنے تک پہنچ گیا اس کے گلے ملنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے مجھے گٹر میں پھینک دیا ہو مگر میں برداشت کرتا تھا کہ چلو خیر ہے میں کونسا ریشم کا تھان ہو جس پر داغ لگ جائیں گے مگر اس کے تعلقات بڑھتے چلے گئے اور وہ جاتے ہوئے میرے ساتھ بازار چل پڑتا اور واپسی پر گھر تک میرے ساتھ ہو جاتا۔
میں جس ہوٹل پر بیٹھتا تھا وہاں میں نے اس کیلے ایک علیحدہ چاے کا کپ رکھوا دیا جس میں چائے پیتے ہوئے
کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا البتہ ہوٹل میں بیٹھے ہوئے مختلف لوگوں کو اس کے کپڑوں کی بدبو ناگوار گزرتی تھی کبھی کبھی دوپہر کو اسے بھوک لگتی تو وہ میرے گھر کھانا بھی کھا لیتا میری بیگم کو بہت تپ چڑھتی تھی مگر اماں کہتی تھی کوئی بات نہیں… شودھا فقیر اے……….
آواز اس کی بہت اچھی تھی دھیمے دھیمے سروں میں بہت سریلے مگر المیہ گیت گاتے ہوئے کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں جگنو چمکنے لگتے ایک دن میں نے سبب پوچھا تو اس نے سامنے والے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ آنسو اس گھر سے عطاء ہوئے ہیں جس گھر کی طرف اس نے اشارہ کیا وہ اس کی اپنی فیملی کے لوگ تھے اور جس چہرے کی اس نے نشاندہی کی وہ میرا دیکھا ہوا تھا میں نے اسے کہا تم نے غلط جگہ دل لگا لیا ہے وہ لڑکی کسی طور بھی تم سے میل نہیں کھاتی کیا تم نے اسے دل کا حال بتایا ہے بندو کے چہرے کی سرخی مزید گہری ہو گئی اور اس نے شرماتے ہوئے کہا یہ دو-طرفہ معاملہ ہے
مجھے شدید حیرت ہوئی مگر یہ سوچ کے خاموش ہوگیا کہ دل دریا سمندروں ڈونگھے
دونویں کے درمیان ھجر وصال کے کئی منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ والہانہ محبت سمندر کو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے بھی دیکھ آنکھوں تک محدود اس محبت کی زبان بھی آنکھیں ہی تھیں کبھی کبھی بندو ولایت کی برفی اس کے ہاتھوں میں تھماتا تو ہاتھ بھی شامل ہوجاتے اسی آنکھ مچولی میں لڑکی کی منگنی ہو گئی اور بندو نے بیماری کا چولا پہن لیا۔
گھر والوں کیلئے اضافی بوجھ بندو گھر کے سامنے چھوٹے سے ٹیلے پر المیہ گیت گاتے ہوئے خلاؤں میں گھورتا رہتا ہے
میں چاہتا بھی تو کچھ نہیں کر سکتا تھا اور پھر ایک دن بندو ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا
گنگناتے ہوئے چل بسا…………
پچیس دسمبر کو وہ سپیشل میرے گھر آتا اور کرسمس کی مبارک کہتے ہوئے باقاعدہ میرے. گاٹے.. لگ جاتا اور کہتا تمام جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مبارک