کل مکھڈی حلوہ کے بارے میں لکھا تو اس میں ایک لفظ شوپیتا بھی استعمال کیا ہمارے میانوالی میں بعض ایسے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں جو نہ لکھے میں ہیں اور نہ پڑھے میں دراصل میانوالی کی زبان پر پھوٹہاری ہندکو اور پشتو کے بھی اثرات ہیں اکثر الفاظ انہی تین زبانوں کے ہیں جنہیں مقامی لہجے نے ایک نیا اسلوب اور معنی عطاء کیا ہے
کالاباغ کی زبان پورے ضلع سے مختلف ہے عیسی خیل کی زبان بھی مختلف ہے واں بچھراں کندیاں اور پیپلاں کی زبان تقریباً ایک جیسی ہے مگر ہم بضد ہیں کہ ہماری زبان سرائیکی ہے باوجود اس کے ہمیں جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل نہیں کیا گیا اور اس عدم شمولیت پر نہ تو مقامی سطح پر کوئی احتجاج نظر آیا اور نہ سرائیکی لیڈروں کی طرف سے کوئی موثر آواز سنائی دی اور نہ کسی سرائیکی لیڈر نے میانوالی کا دورہ کر کے یہاں کے لوگوں کو زبانی ہی کہا ہو کہ
اللہ کریسی چنگیاں
آپ نے گھبرانا نہیں ہے
مگر اس کے باوجود یہاں کے شعراء اور گلوکار سرائیکی شاعری اور موسیقی کو پر موٹ کر رہے ہیں اور پورے دل سے کر رہے ہیں مگر شاعروں اور گلوکاروں کی یہ ساری کوششیں صرف زبان اور موسیقی کو تو پر موٹ کر رہی ہیں مگر ان کوششوں سے سیاسی نتائج نکلنے کی کوئی توقع بھی نہیں ہے ویسے بھی شاعروں اور فنکاروں کی سنتا اور مانتا کون ہے…….
یہ شوپیتا دراصل یوں سمجھیے ایک بڑا سا چمچ ہوتا ہے جو لوہے سے بنایا جاتا ہے یہ ایک سیر سے تین چار سیر میں ہوتا ہے حلوہ اگر زیادہ ہو تو پھر شوپیتا بھی وزنی ہونا چاہئے
اور پھر مکھڈی حلوہ بنانا بھی بڑی محنت سے پڑتا ہے لذیذ اور اچھا حلوہ بنانے کے لیے کم از کم دو گھنٹے لگتے ہیں بشرطیکہ یہ کہ حلوہ دو تین کلو ہو اگر زیادہ ہو تو پھر
پانچ چھ گھنٹے تو کہیں نہیں گئے
اماں بوڑھی ہوگئی تھیں اب ان کے ہاتھوں میں وہ دم خم نہیں تھا مگر بچوں کیلئے ان کے اندر جوانی اجاتی تھی اور وہ پورے زور شور سے حلوہ بناتی تھیں دسمبر میں بھی ان کے ماتھے پر پسینہ اجاتا تھا چولہے کے دھوئیں کی وجہ سے
انہیں ہلکی ہلکی کھانسی بھی آتی رہتی تھی ابا تو بس سگریٹ پہ سگریٹ پھونکتے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہتے
ہن بس کر بخت بھری شاہ عیسے الی دیگ چا بنڑائی ہے
اماں کھانستے ہوئے کہتی
افضل دا پیو کترا مرکنڑاں تھوین ڈے بالاں دی فرمایش اے
اس گفتگو کے دوران نوری بھی دبے پاؤں آدھمکتی کم بخت مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اماں سے کہتی
ماسی ارے شوپیتا میں ھلاواں
وہ اماں کے ہاتھوں سے شوپیتا لینے سے پہلے اپنی کمر کے ارد گرد دوپٹہ ایسے کس کے باندھتی کہ جیسے دوپٹہ نہیں کم بخت نے مجھے باندھ دیا ہے اور پھر جب تک حلوہ بنتا رہتا یوں سمجھیے میں دوپٹے سے بندھا رہتا……………
امید ہے آپ کو شوپیتا کے معنی معلوم ہو گئے ہوں گے.