ADVERTISEMENT
مجھے آپ کو بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ادارے ‘یونیسکو’ کے لیے، میری ترجمہ شدہ بچوں کی کہانیوں کی کتاب شائع ہوگئی ہے۔
یہ کتاب بچوں کے مقبول تصوراتی کردار ‘پپی لانگ اسٹاکنگ’ Pippi Longstocking کی گیارہ کہانیوں پر مشتمل ہے جس کو سوئیڈن کی مشہور مصنفہ ایسٹرڈ لنِڈ گرین Astrid Lindgren نے تخلیق کیا تھا۔
رنگین تصاویر کے ساتھ، یہ کتاب اردو زبان میں منتقل ہوکر یونیسکو پاکستان کے ایک پروجیکٹ کا حصہ بنی ہے۔ اب معاون تدریسی مواد کے طور پر، یہ کتاب تین ہزار بچیوں کو پڑھائی جائے گی جس کے لیے ایک سو اساتذہ کو عملی مشقوں کی تربیت بھی ملے گی۔
کہانیوں کی اس کتاب کو اردو زبان میں منتقل کرنے کا مقصد، بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، بالخصوص بچیوں میں قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دینا اور کہانیوں اور دیگر کتابوں کی فراہمی کے ذریعے، تعلیمی اورتربیتی عمل کو زیادہ موثر ، پُرلطف اور بامعنی بنانا تھا۔ اس کتاب کی اشاعتِ میں یونیسکو کو وزارتِ تعلیم حکومتِ پاکستان، پاکستان میں سوئیڈن کے سفارت خانے، والوو گروپ فائونڈیشن Volvo Group Foundation ، قطر فائونڈیشن کے ایجوکیٹ اے چائلڈ پروجیکٹ اور کوریا کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کوئیکا کی معاونت حاصل رہی ہے۔
پپی لانگ اسٹاکنگ ان کہانیوں کی مرکزی کردار کا نام ہے جو بہادر اور پُراعتماد لڑکی ہے اوردوسروں سے مختلف انداز میں سوچتی ہے۔ وہ روزمرہ زندگی کے مسئلے حل کرنے کے لیے منفرد راستے تلاش کرتی ہے۔ یہ بچوں کے ادب میں، اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں لڑکیوں کو مضبوط، خودمختار، ذہین، ندرت پسند اور غوروفکر سے اپنی رائے بنانے والی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو زندگی کے نشیب و فراز کا ہمت سے مقابلہ کررہی ہیں اور چیلنجوں کے نئے حل ڈھونڈتی ہیں۔
اس کتاب کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔
اس کی مصنفہ ایسٹرڈ اینا ایمیلیا لنِڈگرین 14 نومبر 1907ء کو سوئیڈن میں پیدا ہوئی تھیں اور 28 جنوری 2002ء کو وہیں ان کا انتقال ہوا۔ سوئیڈن کے کسی قلم کار کو دنیا بھر میں ایسٹرڈ سے زیادہ شہرت نہیں ملی ہے۔ اگرچہ ان کی وفات کو طویل عرصہ گزرچکا ہے تاہم اب بھی ہر سال ان کی کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ اپنی فعال ادبی زندگی کے دوران انہوں نے 75 کتابیں تحریر کیں جن کا دنیا کی 100سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ مجموعی طور پر ان کی تحریر کردہ کتابیں ساڑھے سولہ کروڑ سے زیادہ کی تعداد میں فروخت ہوچکی ہیں اور انہیں دنیا کے اولین ادیبوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے جن کی کتابیں سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کرکے پڑھی گئی ہیں۔1994ء میں انہیں ‘دی رائٹ لائیولی ہڈ ایوارڈ’ سے نوازا گیا جسے دنیا میں نوبل انعام کے متوازی انعام سمجھا جاتا ہے۔
ایسٹرڈ کا 1944ء میں ایک حادثے میں پائوں ٹوٹ گیا تو وہ کچھ عرصے کے لیے بستر تک محدود ہوگئی۔ تب اُسے خیال آیا کہ جب تک پائوں جُڑ نہیں جاتا، تب تک کیوں نہ وہ اُن کہانیوں کو لکھ ڈالے جو وہ اپنی بیٹی کیرن کو اکثر سنایا کرتی تھی اور جس کے لیے اُس نے ‘پپی’ کا کردار تخلیق کیا تھا۔ یہ سوچ کر ایسٹرڈ نے کہانیاں لکھنی شروع کردیں۔ جب تک پائوں پر پلاسٹر رہا، ایسٹرڈ کہانیاں لکھتی رہی۔ پائوں ٹھیک ہونے کے بعد، اس نے مسودہ ایک پبلشر کو بھجوایا جس نے کتاب کو 1945ء میں شائع کیا۔
پائوں ٹوٹنے کے بعد، کہانیاں لکھنے کی بات جان کر مجھے یوں محسوس ہوا گویا اردو کی یہ ضرب المثل کہ چھوٹی سوچ اور پائوں کی موچ انسان کو آگے نہیں بڑھنے دیتی، ہر سماج پر لاگو نہیں ہوتی۔ لنگ کسی کسی سماج میں رفتار بڑھا بھی دیتا ہے۔
اپنی پہلی اشاعت کے بعد، اس کتاب نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اس کے ایڈیشن شائع ہوئے۔ یونیسکو کے مطابق پپی لانگ اسٹاکنگ سیریز دنیا میں سب سے زیادہ ترجمہ ہونے والی کتابوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ مجموعی طور پر اس سلسلے کی مختلف کتابوں کے دنیا بھر میں تین ہزار سے زیادہ ایڈیشنز شائع ہوئے ہیں۔ اب آپ کے دوست کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کتاب کو اردو زبان میں بھی ترجمہ کرکے، پیش کردیا ہے۔
ایسٹرڈ نے صرف کہانیاں ہی نہیں لکھی ہیں بلکہ بھرپور سیاسی اور سماجی زندگی گزاری۔ سوئیڈن میں کئی قوانین کی منظوری اور ترامیم کے پیچھے ایسٹرڈ کی سوچ اور تحریروں کا براہ راست کردار رہا ہے۔ انہیں 80ویں سالگرہ کے موقع پر سوئیڈن کی حکومت کی طرف سےتحفظِ حیوانات’ کے حوالے سے نئے قانون کا تحفہ پیش کیا گیا تھا جسے ‘لنِڈ گرین قانون’ کہا جاتا ہے۔
دنیا میں بچوں پر تشدد کے خلاف پہلا قانون سوئیڈن میں ایسٹرڈ کی ایڈووکیسی کی بدولت ہی منظور ہوا تھا جس میں درجنوں سائنس دانوں، صحافیوں، اہلِ قلم، سیاست دانوں اور معاشرے کے دیگر طبقوں نے ایسٹرڈ کی حمایت کی تھی۔ ایسٹرڈ نے اپنی زندگی اور تحریر کے ذریعے ہمیشہ انسان دوستی کو فروغ دیا۔ انہوں نے بچوں، خواتین، ماحول اور حیاتی تنوع کے حق میں آواز بلند کی اور مضامین لکھے۔ انہوں نے جبر اور استبداد کے خلاف مزاحمت کی اور بہادری سےاپنے خیالات کا اظہار کیا۔
یہی وجہ تھی کہ جب 1995ء میں سوئیڈن کا پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا گیا تھا تو پورے ملک کے سائنس دانوں کی طرف سے خاتون مصنفہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، اس مصنوعی سیارے کا نام ‘ایسٹرڈ اول’ رکھا گیا تھا۔ اس خلائی جہاز میں تین آلات کے نام پپی، میو اور ایمل رکھے گئے تھے جو ایسٹرڈ کی کہانیوں کے کرداروں پر تھے۔ اس سے پہلے ایک روسی ماہرِ فلکیات نکولائی چرنیخ نے 1978ء میں اپنے دریافت شدہ نئے سیارے کا نام ‘ایسٹرڈ 3204’ رکھا تھا ، کیونکہ وہ ایسٹرڈ کی کہانیوں کا بچپن سے پرستار تھا۔
اگرچہ ایسٹرڈ کا انتقال 28 جنوری 2002ء میں ہوا تاہم بچیوں کے لیے ان کی طویل جدوجہد کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ ان کی تدفین 8 مارچ کو یعنی عالمی یومِ خواتین پر خاندانی قبرستان میں ہوگی۔ ان کی تدفین میں سوئیڈن کے بادشاہ گستاف، ملکہ سلِویا اور وزیراعظم سمیت بے شمار شاہی، سیاسی اور سماجی رہنمائوں نے شرکت کی۔
ایسٹرڈکی یاد میں سوئیڈن کی حکومت نے ایک میوزیم اور تھیم پارک بنایا ہے جہاں ان کی کہانیوں کے کردار، واقعات اور جگہیں چلتی پھرتی اور زندہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ سوئیڈن کی حکومت نے پچاس لاکھ کرونر کی انعامی رقم والا، بچوں کے ادب کا دنیا کا سب سے بڑا اور عمومی طور پر دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ادبی انعام ‘دی ایسٹرڈ لنِڈگرین میموریل ایوارڈ’ بھی جاری کیا ہے۔اس کے علاوہ سوئیڈن کی سرکاری کرنسی میں بیس کرونرکے نوٹ پر بھی ان کی تصویر موجود ہے۔
میرے لیے کہانیوں کی اس کتاب کو اردو میں ترجمہ کرنے کا تجربہ کئی حوالوں سے معنی خیز رہا۔
میں اس کتاب کے ذریعے ایسٹرڈ لنِڈ گرین سےمتعارف ہوا اور مجھے پہلی بار پتا چلا کہ سوئیڈن میں بچوں کے ادب کی صورت حال اور سماج میں ادیبوں کی مجموعی کیفیت کیا ہے۔
اسی ترجمے کی بدولت مجھے علم ہوا کہ باشعور معاشروں میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کو کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور نہ صرف اہل ادب بلکہ سائنس دان اور سیاست دان بھی ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت محض زبانی کلامی ہی نہیں ہے بلکہ اسے ریاستی سطح پر منظم کیا گیا ہے اور آج بھی سوئیڈن کا سفارت خانہ، ایسٹرڈ کی شخصیت، خیالات اور فن کو سوئیڈن کے لیے قابلِ فخر سرمایہ جان کر، ترجمے کے ذریعے اس کی ترویج میں مصروف ہے۔
اس تفہیم نے مجھے کچھ اعتبار سے دکھی بھی کردیا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ میرے ملک میں نہیں ہوتا۔ جب میں ایسٹرڈ لنِڈ گرین کو سوئیڈن کی ریاست اور عوام کی جانب سے ملنے والی تعظیم اور توقیر کا اپنے ملک کے اہلِ ادب کو ملنے والی تعظیم اور توقیر سے تقابل کرتا ہوں تو بجز افسوس کچھ نہیں ملتا۔
پاکستان میں بھی ادب بلاشبہ اتنا ہی توانا اور جان دار ہے مگر ادیب مفلسی اور تونگری کے شکار ہیں۔ اب تو کئی ایک کی نوبت فاقہ کشی تک آن پہنچی ہے۔ اہل سیاست ادیبوں کو دشمن سمجھتے ہیں اور ہر ممکن کوشش میں ہیں کہ وہی قلم کار سرکاری خلعت و معاونت پائیں جو کارِ سرکار کی مدح میں شب و روز غرق رہیں اور حاکمِ اعلیٰ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہیں۔ چاپلوسی اور خوشامد کرنے والے ادیب ہی سماج میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کے بیان کردہ حق گوئی و بے باکی کا آئین ترک کیے ہمارے سماج کو عشروں گزر چکے ہیں۔
بہرحال، یونیسکو نے اس کتاب کو پاکستان میں اردو زبان میں منتقل کرکے ایک عمدہ پیش رفت کی ہے اور پاکستانی بچوں کے لیے تخیل کی نئی کھڑکی کو وا کیا ہے۔
امید ہے اس کے ذریعے ہمارے بچے مستقبل کی عمدہ صورت گری کرسکیں گے۔