Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
پروفیسر احتشام خان
دیگر شعبوں کی طرح انسان نے اپنے مزاج، عادات اور مختلف اوقات میں مختلف انسانی رویوں کو سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس سمت علم کی ترقی نے باقاعدہ ایک شعبہ کو جنم دیا جسے ہم نفسیات کہتے ہیں۔ اکثر اوقات غیر معمولی انسانی رویوں کی ذمہ دار جسمانی بیماریاں نہیں بلکہ ذہنی انتشار ہو سکتا ہے۔
جس طرح اچھی اور صحت مند خوراک ایک اچھے جسم کی نشونما میں مددگار ہوتی ہے بالکل اِسی طرح انسان کے اردگرد کا ماحول اسکی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ نفسیات ہمیں انسانی رویوں اور مزاج کو سمجھنے کے لیے موثر معلومات فراہم کرتی ہے۔ جو لوگوں سے روزمرہ معاملات طے کرنے میں ہمارے لیے کافی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگ بہت زیادہ منظم شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور انہیں ہر چیز میں ایک خاص ترتیب اور ربط پسند ہوتا ہے ایسےلوگ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ ٹیکنیکل دماغ کے مالک ہوتے ہیں جنہیں چیزوں کی تفصیلات اور ہر زاویے سے جاننے کا شوق ہوتا ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں بہت پریکٹیکل ہوتے ہیں اور وہ باتوں اور تجزیوں سے زیادہ ایکشن پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور ہر چیز کو اپنے انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ نفسیات ہمیں انسانوں کے رویے کو سمجھنے کے لیے بیشتر تھیوریز پیش کرتی ہے۔ جن میں کچھ ڈس آرڈر پر بھی مبنی ہوتی ہیں
ایسے ہی ایک تھیوری ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر ہے۔ یہ تھیوری نفیسات کے ماہرین کی امریکی ایسوسیشن کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اس ڈس آرڈر کا شکار ہوتی ہے۔ لڑکیاں اس ڈس آرڈر سے لڑکوں کی نسبت چار گنا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اور اس ڈس آرڈر میں نوجوان نسل سب کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ کو منوانے اور لوگوں کی تعریف سننے کے لیے نوجوان مختلف قسم کی چیزیں کرتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ ڈرامائی، پُرجوش، اور جذباتی ہوتے ہیں۔
یہ لوگ اپنی ذات میں ہی ایک دنیا بنا لیتے ہیں اور بہت زیادہ سلیف سینٹرک ہوتے ہیں۔ اپنے آپکو منوانے کے لیے اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور مختلف چیزوں بارے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو منفرد اور الگ دکھانے کے لیے اپنی شخصیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ اپنی معاشرے میں، مضبوط، خودمختار، اور بھرپور قوت ارادی کی مالک شخصیت ظاہر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر کا شکار لوگ جو ظاہر کر رہے ہوتے دراصل وہ اُن کی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ ذہن میں وہی مقام پانے کی خواہش ہوتی ہے جو وہ معاشرے میں دیکھا رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی اپروول اور پسندیدگی انکی سوچ مزید پختہ کر دیتی ہے۔ مثلاٙٙ اس ڈس آرڈر کا شکار کسی نوجوان لڑکا یا لڑکی جسےسوشل میڈیا ایپس، ٹک ٹاک، یا انسٹاگرام پر لوگ فالو اور پسند کر رہے ہیں ۔ یہ اسکے لیے ایک Approval کے طور پہ کام کرتی ہے کہ وہ گلیمر کی دنیا کے بڑے فنکاروں میں سے ایک بن چکے ہے۔ بلکل ایسا دیگر فیلڈز میں بھی ہوتا لیکن زیادہ تر یہ گلیمر کی دنیا سے متاثر نوجوانوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
اپنے چہرے کے تاثرات، ڈائیلاگز اور باڈی فگر سے فالورز کو seduce کرنے کے مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پسند کیا جائے۔ اپنی تصویروں کے ساتھ لمبی کیپشنز، اور فلسفیانہ باتیں دراصل وہ ایپروول ہے جو اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں اپنے ہر کنٹینٹ کی سوشل میڈیا پر ایپروول چاہیے ہوتی ہے۔
اس ڈس آرڈر کی بنیادی وجوہات کو سمجھنےکے لیے بہت کم ریسرچ کی گئی ہے کیونکہ یہ نیا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ظاہر ہونے والا ڈس آرڈر ہے۔ اسکے باوجود ماہرین نفسیات اسکے ہیچھے عوامل میں تنہائی، بہت زیادہ خودنمائی، Hypersexuality, ہسٹیریا، خود کو جنسی لحاظ سے نمایاں رکھنے کی خواہش، اردگرد کا ماحول، آئیڈیلز، ہیروز اور اس طرح کے دیگر عوامل ہیں جو ہر انسان کے لیے مختلف ہوسکتے ہیں۔
موجودہ دور میں ہیسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر انتہائی اہم موضوع اس لیے بنتا جا رہا ہے کیونکہ جب درجنوں کوششوں کے بعد بھی کسی کو لوگوں سے مطلوبہ اپیپروول نہیں ملتی تو یہ اُس انسان کے لیے ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈپریشن اپنے اندر ہی ایک خطرناک چیز ہے جو انسان کو جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ ذہنی دباو میں مبتلا کر کہ خودکشی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ حال ہی میں اسکی مثال بھارتی اداکار سوشانت سنگھ راجپوت اور مشہور ٹک ٹاکر سیا ککڑ کی خود کشی سے سامنے آئی ہے۔
سوشل میڈیا پہ بہت سارے لوگ اچھا content بنا کر لوگوں کی ایپروول بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا بہت بے رحم ہے یہ کسی وقت بھی آپکے خلاف ہوسکتا ہے۔ تعریف کو تنقید سے تحقیر میں بدل کے کسی بھی attention seeker انسان کو ایک ذہنی دباو سے گزار سکتا ہے۔ جو لوگوں کو ڈپریشن میں ڈال کر کوئی انتہائی اقدام کرنے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔
اس چیز کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ یہ ہمارے اردگرد لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ لوگوں کو انکی ورچوئل زندگی سے زیادہ حقیقی زندگی میں ایپروول دیں انکی حوصلہ افزائی کرنے اور حقیقت کی دنیا سے روشناس کروانے سے وہ مضبوط اعصاب کے مالک بن سکتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو پیداواری کاموں میں لگا کر اپنی حقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ ورچوئل زندگی سے حقیقی زندگی میں لے آئیں۔ ان سے بات کریں۔ انکو سنیں اور انہیں ایپروول دیں۔
دنیا میں بڑی آرگنائزیشنز اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کے لیے صارف کی نفسیات پر تحقیق کرتی ہیں۔ الیکشن جیتنے والے سیاستدانوں کی تقریریں غور سے سنی جاتی ہیں اور انکی باڈی لینگوئیج سے انکی نفسیات کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور انہیں اسی طرح داخلہ و خارجہ، سیاسی و معاشی امور میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ انکو سمجھ کر انہیں نفسیاتی مسائل سے نکال کر مضبوط اعصاب کا مالک بنا سکتے ہیں۔
پروفیسر احتشام خان
دیگر شعبوں کی طرح انسان نے اپنے مزاج، عادات اور مختلف اوقات میں مختلف انسانی رویوں کو سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس سمت علم کی ترقی نے باقاعدہ ایک شعبہ کو جنم دیا جسے ہم نفسیات کہتے ہیں۔ اکثر اوقات غیر معمولی انسانی رویوں کی ذمہ دار جسمانی بیماریاں نہیں بلکہ ذہنی انتشار ہو سکتا ہے۔
جس طرح اچھی اور صحت مند خوراک ایک اچھے جسم کی نشونما میں مددگار ہوتی ہے بالکل اِسی طرح انسان کے اردگرد کا ماحول اسکی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ نفسیات ہمیں انسانی رویوں اور مزاج کو سمجھنے کے لیے موثر معلومات فراہم کرتی ہے۔ جو لوگوں سے روزمرہ معاملات طے کرنے میں ہمارے لیے کافی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگ بہت زیادہ منظم شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور انہیں ہر چیز میں ایک خاص ترتیب اور ربط پسند ہوتا ہے ایسےلوگ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ ٹیکنیکل دماغ کے مالک ہوتے ہیں جنہیں چیزوں کی تفصیلات اور ہر زاویے سے جاننے کا شوق ہوتا ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں بہت پریکٹیکل ہوتے ہیں اور وہ باتوں اور تجزیوں سے زیادہ ایکشن پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور ہر چیز کو اپنے انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ نفسیات ہمیں انسانوں کے رویے کو سمجھنے کے لیے بیشتر تھیوریز پیش کرتی ہے۔ جن میں کچھ ڈس آرڈر پر بھی مبنی ہوتی ہیں
ایسے ہی ایک تھیوری ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر ہے۔ یہ تھیوری نفیسات کے ماہرین کی امریکی ایسوسیشن کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اس ڈس آرڈر کا شکار ہوتی ہے۔ لڑکیاں اس ڈس آرڈر سے لڑکوں کی نسبت چار گنا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اور اس ڈس آرڈر میں نوجوان نسل سب کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ کو منوانے اور لوگوں کی تعریف سننے کے لیے نوجوان مختلف قسم کی چیزیں کرتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ ڈرامائی، پُرجوش، اور جذباتی ہوتے ہیں۔
یہ لوگ اپنی ذات میں ہی ایک دنیا بنا لیتے ہیں اور بہت زیادہ سلیف سینٹرک ہوتے ہیں۔ اپنے آپکو منوانے کے لیے اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور مختلف چیزوں بارے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو منفرد اور الگ دکھانے کے لیے اپنی شخصیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ اپنی معاشرے میں، مضبوط، خودمختار، اور بھرپور قوت ارادی کی مالک شخصیت ظاہر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر کا شکار لوگ جو ظاہر کر رہے ہوتے دراصل وہ اُن کی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ ذہن میں وہی مقام پانے کی خواہش ہوتی ہے جو وہ معاشرے میں دیکھا رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی اپروول اور پسندیدگی انکی سوچ مزید پختہ کر دیتی ہے۔ مثلاٙٙ اس ڈس آرڈر کا شکار کسی نوجوان لڑکا یا لڑکی جسےسوشل میڈیا ایپس، ٹک ٹاک، یا انسٹاگرام پر لوگ فالو اور پسند کر رہے ہیں ۔ یہ اسکے لیے ایک Approval کے طور پہ کام کرتی ہے کہ وہ گلیمر کی دنیا کے بڑے فنکاروں میں سے ایک بن چکے ہے۔ بلکل ایسا دیگر فیلڈز میں بھی ہوتا لیکن زیادہ تر یہ گلیمر کی دنیا سے متاثر نوجوانوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
اپنے چہرے کے تاثرات، ڈائیلاگز اور باڈی فگر سے فالورز کو seduce کرنے کے مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پسند کیا جائے۔ اپنی تصویروں کے ساتھ لمبی کیپشنز، اور فلسفیانہ باتیں دراصل وہ ایپروول ہے جو اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں اپنے ہر کنٹینٹ کی سوشل میڈیا پر ایپروول چاہیے ہوتی ہے۔
اس ڈس آرڈر کی بنیادی وجوہات کو سمجھنےکے لیے بہت کم ریسرچ کی گئی ہے کیونکہ یہ نیا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ظاہر ہونے والا ڈس آرڈر ہے۔ اسکے باوجود ماہرین نفسیات اسکے ہیچھے عوامل میں تنہائی، بہت زیادہ خودنمائی، Hypersexuality, ہسٹیریا، خود کو جنسی لحاظ سے نمایاں رکھنے کی خواہش، اردگرد کا ماحول، آئیڈیلز، ہیروز اور اس طرح کے دیگر عوامل ہیں جو ہر انسان کے لیے مختلف ہوسکتے ہیں۔
موجودہ دور میں ہیسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر انتہائی اہم موضوع اس لیے بنتا جا رہا ہے کیونکہ جب درجنوں کوششوں کے بعد بھی کسی کو لوگوں سے مطلوبہ اپیپروول نہیں ملتی تو یہ اُس انسان کے لیے ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈپریشن اپنے اندر ہی ایک خطرناک چیز ہے جو انسان کو جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ ذہنی دباو میں مبتلا کر کہ خودکشی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ حال ہی میں اسکی مثال بھارتی اداکار سوشانت سنگھ راجپوت اور مشہور ٹک ٹاکر سیا ککڑ کی خود کشی سے سامنے آئی ہے۔
سوشل میڈیا پہ بہت سارے لوگ اچھا content بنا کر لوگوں کی ایپروول بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا بہت بے رحم ہے یہ کسی وقت بھی آپکے خلاف ہوسکتا ہے۔ تعریف کو تنقید سے تحقیر میں بدل کے کسی بھی attention seeker انسان کو ایک ذہنی دباو سے گزار سکتا ہے۔ جو لوگوں کو ڈپریشن میں ڈال کر کوئی انتہائی اقدام کرنے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔
اس چیز کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ یہ ہمارے اردگرد لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ لوگوں کو انکی ورچوئل زندگی سے زیادہ حقیقی زندگی میں ایپروول دیں انکی حوصلہ افزائی کرنے اور حقیقت کی دنیا سے روشناس کروانے سے وہ مضبوط اعصاب کے مالک بن سکتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو پیداواری کاموں میں لگا کر اپنی حقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ ورچوئل زندگی سے حقیقی زندگی میں لے آئیں۔ ان سے بات کریں۔ انکو سنیں اور انہیں ایپروول دیں۔
دنیا میں بڑی آرگنائزیشنز اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کے لیے صارف کی نفسیات پر تحقیق کرتی ہیں۔ الیکشن جیتنے والے سیاستدانوں کی تقریریں غور سے سنی جاتی ہیں اور انکی باڈی لینگوئیج سے انکی نفسیات کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور انہیں اسی طرح داخلہ و خارجہ، سیاسی و معاشی امور میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ انکو سمجھ کر انہیں نفسیاتی مسائل سے نکال کر مضبوط اعصاب کا مالک بنا سکتے ہیں۔
پروفیسر احتشام خان
دیگر شعبوں کی طرح انسان نے اپنے مزاج، عادات اور مختلف اوقات میں مختلف انسانی رویوں کو سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس سمت علم کی ترقی نے باقاعدہ ایک شعبہ کو جنم دیا جسے ہم نفسیات کہتے ہیں۔ اکثر اوقات غیر معمولی انسانی رویوں کی ذمہ دار جسمانی بیماریاں نہیں بلکہ ذہنی انتشار ہو سکتا ہے۔
جس طرح اچھی اور صحت مند خوراک ایک اچھے جسم کی نشونما میں مددگار ہوتی ہے بالکل اِسی طرح انسان کے اردگرد کا ماحول اسکی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ نفسیات ہمیں انسانی رویوں اور مزاج کو سمجھنے کے لیے موثر معلومات فراہم کرتی ہے۔ جو لوگوں سے روزمرہ معاملات طے کرنے میں ہمارے لیے کافی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگ بہت زیادہ منظم شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور انہیں ہر چیز میں ایک خاص ترتیب اور ربط پسند ہوتا ہے ایسےلوگ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ ٹیکنیکل دماغ کے مالک ہوتے ہیں جنہیں چیزوں کی تفصیلات اور ہر زاویے سے جاننے کا شوق ہوتا ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں بہت پریکٹیکل ہوتے ہیں اور وہ باتوں اور تجزیوں سے زیادہ ایکشن پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور ہر چیز کو اپنے انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ نفسیات ہمیں انسانوں کے رویے کو سمجھنے کے لیے بیشتر تھیوریز پیش کرتی ہے۔ جن میں کچھ ڈس آرڈر پر بھی مبنی ہوتی ہیں
ایسے ہی ایک تھیوری ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر ہے۔ یہ تھیوری نفیسات کے ماہرین کی امریکی ایسوسیشن کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اس ڈس آرڈر کا شکار ہوتی ہے۔ لڑکیاں اس ڈس آرڈر سے لڑکوں کی نسبت چار گنا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اور اس ڈس آرڈر میں نوجوان نسل سب کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ کو منوانے اور لوگوں کی تعریف سننے کے لیے نوجوان مختلف قسم کی چیزیں کرتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ ڈرامائی، پُرجوش، اور جذباتی ہوتے ہیں۔
یہ لوگ اپنی ذات میں ہی ایک دنیا بنا لیتے ہیں اور بہت زیادہ سلیف سینٹرک ہوتے ہیں۔ اپنے آپکو منوانے کے لیے اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور مختلف چیزوں بارے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو منفرد اور الگ دکھانے کے لیے اپنی شخصیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ اپنی معاشرے میں، مضبوط، خودمختار، اور بھرپور قوت ارادی کی مالک شخصیت ظاہر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر کا شکار لوگ جو ظاہر کر رہے ہوتے دراصل وہ اُن کی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ ذہن میں وہی مقام پانے کی خواہش ہوتی ہے جو وہ معاشرے میں دیکھا رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی اپروول اور پسندیدگی انکی سوچ مزید پختہ کر دیتی ہے۔ مثلاٙٙ اس ڈس آرڈر کا شکار کسی نوجوان لڑکا یا لڑکی جسےسوشل میڈیا ایپس، ٹک ٹاک، یا انسٹاگرام پر لوگ فالو اور پسند کر رہے ہیں ۔ یہ اسکے لیے ایک Approval کے طور پہ کام کرتی ہے کہ وہ گلیمر کی دنیا کے بڑے فنکاروں میں سے ایک بن چکے ہے۔ بلکل ایسا دیگر فیلڈز میں بھی ہوتا لیکن زیادہ تر یہ گلیمر کی دنیا سے متاثر نوجوانوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
اپنے چہرے کے تاثرات، ڈائیلاگز اور باڈی فگر سے فالورز کو seduce کرنے کے مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پسند کیا جائے۔ اپنی تصویروں کے ساتھ لمبی کیپشنز، اور فلسفیانہ باتیں دراصل وہ ایپروول ہے جو اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں اپنے ہر کنٹینٹ کی سوشل میڈیا پر ایپروول چاہیے ہوتی ہے۔
اس ڈس آرڈر کی بنیادی وجوہات کو سمجھنےکے لیے بہت کم ریسرچ کی گئی ہے کیونکہ یہ نیا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ظاہر ہونے والا ڈس آرڈر ہے۔ اسکے باوجود ماہرین نفسیات اسکے ہیچھے عوامل میں تنہائی، بہت زیادہ خودنمائی، Hypersexuality, ہسٹیریا، خود کو جنسی لحاظ سے نمایاں رکھنے کی خواہش، اردگرد کا ماحول، آئیڈیلز، ہیروز اور اس طرح کے دیگر عوامل ہیں جو ہر انسان کے لیے مختلف ہوسکتے ہیں۔
موجودہ دور میں ہیسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر انتہائی اہم موضوع اس لیے بنتا جا رہا ہے کیونکہ جب درجنوں کوششوں کے بعد بھی کسی کو لوگوں سے مطلوبہ اپیپروول نہیں ملتی تو یہ اُس انسان کے لیے ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈپریشن اپنے اندر ہی ایک خطرناک چیز ہے جو انسان کو جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ ذہنی دباو میں مبتلا کر کہ خودکشی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ حال ہی میں اسکی مثال بھارتی اداکار سوشانت سنگھ راجپوت اور مشہور ٹک ٹاکر سیا ککڑ کی خود کشی سے سامنے آئی ہے۔
سوشل میڈیا پہ بہت سارے لوگ اچھا content بنا کر لوگوں کی ایپروول بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا بہت بے رحم ہے یہ کسی وقت بھی آپکے خلاف ہوسکتا ہے۔ تعریف کو تنقید سے تحقیر میں بدل کے کسی بھی attention seeker انسان کو ایک ذہنی دباو سے گزار سکتا ہے۔ جو لوگوں کو ڈپریشن میں ڈال کر کوئی انتہائی اقدام کرنے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔
اس چیز کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ یہ ہمارے اردگرد لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ لوگوں کو انکی ورچوئل زندگی سے زیادہ حقیقی زندگی میں ایپروول دیں انکی حوصلہ افزائی کرنے اور حقیقت کی دنیا سے روشناس کروانے سے وہ مضبوط اعصاب کے مالک بن سکتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو پیداواری کاموں میں لگا کر اپنی حقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ ورچوئل زندگی سے حقیقی زندگی میں لے آئیں۔ ان سے بات کریں۔ انکو سنیں اور انہیں ایپروول دیں۔
دنیا میں بڑی آرگنائزیشنز اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کے لیے صارف کی نفسیات پر تحقیق کرتی ہیں۔ الیکشن جیتنے والے سیاستدانوں کی تقریریں غور سے سنی جاتی ہیں اور انکی باڈی لینگوئیج سے انکی نفسیات کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور انہیں اسی طرح داخلہ و خارجہ، سیاسی و معاشی امور میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ انکو سمجھ کر انہیں نفسیاتی مسائل سے نکال کر مضبوط اعصاب کا مالک بنا سکتے ہیں۔
پروفیسر احتشام خان
دیگر شعبوں کی طرح انسان نے اپنے مزاج، عادات اور مختلف اوقات میں مختلف انسانی رویوں کو سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس سمت علم کی ترقی نے باقاعدہ ایک شعبہ کو جنم دیا جسے ہم نفسیات کہتے ہیں۔ اکثر اوقات غیر معمولی انسانی رویوں کی ذمہ دار جسمانی بیماریاں نہیں بلکہ ذہنی انتشار ہو سکتا ہے۔
جس طرح اچھی اور صحت مند خوراک ایک اچھے جسم کی نشونما میں مددگار ہوتی ہے بالکل اِسی طرح انسان کے اردگرد کا ماحول اسکی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ نفسیات ہمیں انسانی رویوں اور مزاج کو سمجھنے کے لیے موثر معلومات فراہم کرتی ہے۔ جو لوگوں سے روزمرہ معاملات طے کرنے میں ہمارے لیے کافی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگ بہت زیادہ منظم شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور انہیں ہر چیز میں ایک خاص ترتیب اور ربط پسند ہوتا ہے ایسےلوگ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ ٹیکنیکل دماغ کے مالک ہوتے ہیں جنہیں چیزوں کی تفصیلات اور ہر زاویے سے جاننے کا شوق ہوتا ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں بہت پریکٹیکل ہوتے ہیں اور وہ باتوں اور تجزیوں سے زیادہ ایکشن پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور ہر چیز کو اپنے انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ نفسیات ہمیں انسانوں کے رویے کو سمجھنے کے لیے بیشتر تھیوریز پیش کرتی ہے۔ جن میں کچھ ڈس آرڈر پر بھی مبنی ہوتی ہیں
ایسے ہی ایک تھیوری ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر ہے۔ یہ تھیوری نفیسات کے ماہرین کی امریکی ایسوسیشن کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اس ڈس آرڈر کا شکار ہوتی ہے۔ لڑکیاں اس ڈس آرڈر سے لڑکوں کی نسبت چار گنا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اور اس ڈس آرڈر میں نوجوان نسل سب کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ کو منوانے اور لوگوں کی تعریف سننے کے لیے نوجوان مختلف قسم کی چیزیں کرتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ ڈرامائی، پُرجوش، اور جذباتی ہوتے ہیں۔
یہ لوگ اپنی ذات میں ہی ایک دنیا بنا لیتے ہیں اور بہت زیادہ سلیف سینٹرک ہوتے ہیں۔ اپنے آپکو منوانے کے لیے اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور مختلف چیزوں بارے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو منفرد اور الگ دکھانے کے لیے اپنی شخصیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ اپنی معاشرے میں، مضبوط، خودمختار، اور بھرپور قوت ارادی کی مالک شخصیت ظاہر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ہسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر کا شکار لوگ جو ظاہر کر رہے ہوتے دراصل وہ اُن کی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ ذہن میں وہی مقام پانے کی خواہش ہوتی ہے جو وہ معاشرے میں دیکھا رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی اپروول اور پسندیدگی انکی سوچ مزید پختہ کر دیتی ہے۔ مثلاٙٙ اس ڈس آرڈر کا شکار کسی نوجوان لڑکا یا لڑکی جسےسوشل میڈیا ایپس، ٹک ٹاک، یا انسٹاگرام پر لوگ فالو اور پسند کر رہے ہیں ۔ یہ اسکے لیے ایک Approval کے طور پہ کام کرتی ہے کہ وہ گلیمر کی دنیا کے بڑے فنکاروں میں سے ایک بن چکے ہے۔ بلکل ایسا دیگر فیلڈز میں بھی ہوتا لیکن زیادہ تر یہ گلیمر کی دنیا سے متاثر نوجوانوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
اپنے چہرے کے تاثرات، ڈائیلاگز اور باڈی فگر سے فالورز کو seduce کرنے کے مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پسند کیا جائے۔ اپنی تصویروں کے ساتھ لمبی کیپشنز، اور فلسفیانہ باتیں دراصل وہ ایپروول ہے جو اس ڈس آرڈر کا شکار لوگ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں اپنے ہر کنٹینٹ کی سوشل میڈیا پر ایپروول چاہیے ہوتی ہے۔
اس ڈس آرڈر کی بنیادی وجوہات کو سمجھنےکے لیے بہت کم ریسرچ کی گئی ہے کیونکہ یہ نیا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ظاہر ہونے والا ڈس آرڈر ہے۔ اسکے باوجود ماہرین نفسیات اسکے ہیچھے عوامل میں تنہائی، بہت زیادہ خودنمائی، Hypersexuality, ہسٹیریا، خود کو جنسی لحاظ سے نمایاں رکھنے کی خواہش، اردگرد کا ماحول، آئیڈیلز، ہیروز اور اس طرح کے دیگر عوامل ہیں جو ہر انسان کے لیے مختلف ہوسکتے ہیں۔
موجودہ دور میں ہیسٹرانک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر انتہائی اہم موضوع اس لیے بنتا جا رہا ہے کیونکہ جب درجنوں کوششوں کے بعد بھی کسی کو لوگوں سے مطلوبہ اپیپروول نہیں ملتی تو یہ اُس انسان کے لیے ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈپریشن اپنے اندر ہی ایک خطرناک چیز ہے جو انسان کو جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ ذہنی دباو میں مبتلا کر کہ خودکشی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ حال ہی میں اسکی مثال بھارتی اداکار سوشانت سنگھ راجپوت اور مشہور ٹک ٹاکر سیا ککڑ کی خود کشی سے سامنے آئی ہے۔
سوشل میڈیا پہ بہت سارے لوگ اچھا content بنا کر لوگوں کی ایپروول بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا بہت بے رحم ہے یہ کسی وقت بھی آپکے خلاف ہوسکتا ہے۔ تعریف کو تنقید سے تحقیر میں بدل کے کسی بھی attention seeker انسان کو ایک ذہنی دباو سے گزار سکتا ہے۔ جو لوگوں کو ڈپریشن میں ڈال کر کوئی انتہائی اقدام کرنے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔
اس چیز کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ یہ ہمارے اردگرد لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ لوگوں کو انکی ورچوئل زندگی سے زیادہ حقیقی زندگی میں ایپروول دیں انکی حوصلہ افزائی کرنے اور حقیقت کی دنیا سے روشناس کروانے سے وہ مضبوط اعصاب کے مالک بن سکتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو پیداواری کاموں میں لگا کر اپنی حقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ ورچوئل زندگی سے حقیقی زندگی میں لے آئیں۔ ان سے بات کریں۔ انکو سنیں اور انہیں ایپروول دیں۔
دنیا میں بڑی آرگنائزیشنز اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کے لیے صارف کی نفسیات پر تحقیق کرتی ہیں۔ الیکشن جیتنے والے سیاستدانوں کی تقریریں غور سے سنی جاتی ہیں اور انکی باڈی لینگوئیج سے انکی نفسیات کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور انہیں اسی طرح داخلہ و خارجہ، سیاسی و معاشی امور میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ انکو سمجھ کر انہیں نفسیاتی مسائل سے نکال کر مضبوط اعصاب کا مالک بنا سکتے ہیں۔