Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
شبیر قریشی، سید حنیف زیدی، مُرشدی منور حسن صاحب اور اسلام الدین ظفر کا پُرسہ
ڈاکٹر انوار احمد خان، نیو یارک، امریکہ۔
ڈاکٹر صاحب،
بہت شُکریہ
اب زلزلہ پیما بھی سمجھ میں آگیا اور “کتاب” کے یہ الفاظ بھی کہ؛ جب زمین ہلا ماری جائے گی۔ اور اب اُس کہانی پر بھی یقین آگیا کہ طوطے میں جن کی جان تھی۔ جب طوطا مرا تو جن پر کیا گُزری !
یہی لکھا ہے ناں آپ نے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج اسلام الدین ظفر کے جانے سے مجھ پر کیا بیت رہی ہوگی؟
تو ڈاکٹر صاحب!
جن بھی تو مر جاتا ہئے اِس کہانی میں
جن بھی کتنے جنازے اُٹھائے
ڈیڑھ مہینے سے روز ایک نئی قیامت
اب ایمان آگیا قران کے اُس حصے پر جہاں یعقوب اپنے یوسف کی جدائی میں رو رو کے اندہے ہو جاتے ہیں لیکن اب تو یوسف کی قمیض ہی نہ رہی کہ کوئی لا کے یعقوب کے منہ پر ڈال دے۔ سورۂ یوسف فمیض سے بینائی اور وصل کا قصہ تو سُناتی ہئے لیکن قمیض کا پتہ ہی نہین دیتی کہ ہجر سے اندہی آنکھیں وصال کی بینائی پا جائیںاور یعقوب میلوں دور سے یوسف کی قمیض کی خوشبو سونگھ کر کہے کہ:
بُوئے یار می آئید
ڈیڑھ ماہ پہلے شبیر قریشی بھائی کے مرنے پہ یہ سمجھ کر دھاڑیں مار مار کر رویا کہ جیسے یہ آخری ہو پھر پندرہ دن قبل حنیف کے جانے پر بلکتا رہا کہ بس اب کوئی اور نہیں پھر کل مُرشد منور حسن صاحب چلے گئے تو کل سے سویا بھی نہین جا سکا کہ قمیضیں بھیگتی رہیں اور میں بھیگے ٹشو پیپر سنبھال سنبھال کر رکھتا رہا اور جو سب جانتے ہیں اُن سے بلک بلک کر کہتا رہا کہ مالک یہ ٹشو پیپر مجھے یوم آخر بھیگے ہوئے ہی واپس چاہئیں کہ اِن سے: بُوئے یار می آئید۔
کل ہی کسی نے بتا دیا تھا کہ جس کو تم نے اپنے ہاتھ سے تراشا تھا وہ یوسف موت کے کنویں سے نہین نکل پائے گا، اسلام الدین ظفر کے survival chances نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آج دوپہر، دو دن بعد آنکھ لگی تھی کہ محترمی صادق فاروقی بھائی کا فون آ گیا۔ فون کیا آیا، بس اسلام اُلدین ظفر کی سُناؤنی آگئی
چیخ چیخ کر وحدہُ لا شریک کی حمد یا چاپلوسی جو چاہیں کہیں وہ کرتا رہا کہ رب العرش المجید تجھے تیری کُرسی کا واسطہ کہ اب میرا ظفر تیرے پاس ہے۔بہت کشٹ کاٹے ہیں اس نے، اب اُسے اپنی جنت میں رکھ کہ میں بھی آیا ہی چاہتا ہوں رات پھر صادق بھائی نے بتایا کہ اُن کے چھوٹے والے بھائی رضوان فاروقی دو دن سے ICU میں ہیں تو سیدانی نے پریشان ہوکر بالآخر آج رات اپنی چادر پھیلا ہی دی اور “ اُن “ کآ دامن پکڑ کے گُزارش کی کہ میرا میاں ڈیڑھ ماہ سے اپنے دوستوں کیلئیے رو رہا ہئے، بس کیجئیے۔ ہمیں رضوان فوری واپس چاہئیے۔ وہ ایسا کہہ سکتی ہیں۔ ہمارے تو پر ہی راکھ ہوتے ہیں اس منزلِ ناز پر۔
میں نے ظفر کو نہ کبھی بھائی کہہ کر مخاطب کیا اور نہ صاحب، ہمیشہ صرف اسلام الدین ظفر اور تُم کہہ کے مخاطب کیا اور وہ جھُکا جاتا تھا۔ خصوصی ربط اور ناظم کے رشتے کو کوئی ایسے بھی نباہتا ہے !
ڈاکٹر صاحب، جینے کی کوئی ایک تو وجہ ہو جس کے سہارے گُزار لی جائے؟
کتنی دور بسا لی بستی دل میں بسنے والوں نے۔ اور وہ بستی جو بستے بستے بستی ہئے
تارِ دامن خار پر، شاخِ شجر پر آستیں
اُس دِوانے کی، یہ ہئے شکلِ لباس
( نظیر اکبر آبادی)
ما و مجنُوں ہم سبق بُودِیم، اُو بہ صحرا رفت
و، ما، دَر کُوچئہ ہا رُسوا شُدیم
(میں اور مجنوں ہم سبق ہوا کرتے تھے۔ وہ صحرا کو روانہ ہوا اور میں اب تک اِسی کُوچے میں رُسوا ہو رہا ہوں)
سب بادشاہی اُنہی کی ہيے جو نہیں چاہتے کہ اُن کے علاوہ کسی اور کی تصویر بھی دیکھی جائے کہ وہ خود ہی مُتکبر مُحبّ بھی پیں اور بے نیاز محبوب بھی اور تصویر بھی کہاں، کہ غالبا مُصحفی کہہ گئے:
دل کے جلنے سے کوئی تصویر جل گئی ہوگی
نِہاں خانے، بُت خانے، نِہاں خانوں کے بُت خانے، تصویر، عکس: سب ہی تو حرام کر دیا اور اپنی تصویر دیتے نہیں کہ خالی ہوتے چوکھٹے بھر لئیے جائیں
ڈاکٹر صاحب؛ لگتا ہے کہ اب یہ آخری اپنا چَوکھٹا بھی نہیں رہے گا
رہے گا تو صرف وہ جو بے شکل و بے تصویر و اکلوتا ہے
رہے نام وحدہُ لا شریک کا، مومن و مُھیمن و مصور کا
ارشاد کلیمی
جانے کب کی شب ہے27 جون کی یا 28 جون کی؛ 2020
اسلام آباد
شبیر قریشی، سید حنیف زیدی، مُرشدی منور حسن صاحب اور اسلام الدین ظفر کا پُرسہ
ڈاکٹر انوار احمد خان، نیو یارک، امریکہ۔
ڈاکٹر صاحب،
بہت شُکریہ
اب زلزلہ پیما بھی سمجھ میں آگیا اور “کتاب” کے یہ الفاظ بھی کہ؛ جب زمین ہلا ماری جائے گی۔ اور اب اُس کہانی پر بھی یقین آگیا کہ طوطے میں جن کی جان تھی۔ جب طوطا مرا تو جن پر کیا گُزری !
یہی لکھا ہے ناں آپ نے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج اسلام الدین ظفر کے جانے سے مجھ پر کیا بیت رہی ہوگی؟
تو ڈاکٹر صاحب!
جن بھی تو مر جاتا ہئے اِس کہانی میں
جن بھی کتنے جنازے اُٹھائے
ڈیڑھ مہینے سے روز ایک نئی قیامت
اب ایمان آگیا قران کے اُس حصے پر جہاں یعقوب اپنے یوسف کی جدائی میں رو رو کے اندہے ہو جاتے ہیں لیکن اب تو یوسف کی قمیض ہی نہ رہی کہ کوئی لا کے یعقوب کے منہ پر ڈال دے۔ سورۂ یوسف فمیض سے بینائی اور وصل کا قصہ تو سُناتی ہئے لیکن قمیض کا پتہ ہی نہین دیتی کہ ہجر سے اندہی آنکھیں وصال کی بینائی پا جائیںاور یعقوب میلوں دور سے یوسف کی قمیض کی خوشبو سونگھ کر کہے کہ:
بُوئے یار می آئید
ڈیڑھ ماہ پہلے شبیر قریشی بھائی کے مرنے پہ یہ سمجھ کر دھاڑیں مار مار کر رویا کہ جیسے یہ آخری ہو پھر پندرہ دن قبل حنیف کے جانے پر بلکتا رہا کہ بس اب کوئی اور نہیں پھر کل مُرشد منور حسن صاحب چلے گئے تو کل سے سویا بھی نہین جا سکا کہ قمیضیں بھیگتی رہیں اور میں بھیگے ٹشو پیپر سنبھال سنبھال کر رکھتا رہا اور جو سب جانتے ہیں اُن سے بلک بلک کر کہتا رہا کہ مالک یہ ٹشو پیپر مجھے یوم آخر بھیگے ہوئے ہی واپس چاہئیں کہ اِن سے: بُوئے یار می آئید۔
کل ہی کسی نے بتا دیا تھا کہ جس کو تم نے اپنے ہاتھ سے تراشا تھا وہ یوسف موت کے کنویں سے نہین نکل پائے گا، اسلام الدین ظفر کے survival chances نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آج دوپہر، دو دن بعد آنکھ لگی تھی کہ محترمی صادق فاروقی بھائی کا فون آ گیا۔ فون کیا آیا، بس اسلام اُلدین ظفر کی سُناؤنی آگئی
چیخ چیخ کر وحدہُ لا شریک کی حمد یا چاپلوسی جو چاہیں کہیں وہ کرتا رہا کہ رب العرش المجید تجھے تیری کُرسی کا واسطہ کہ اب میرا ظفر تیرے پاس ہے۔بہت کشٹ کاٹے ہیں اس نے، اب اُسے اپنی جنت میں رکھ کہ میں بھی آیا ہی چاہتا ہوں رات پھر صادق بھائی نے بتایا کہ اُن کے چھوٹے والے بھائی رضوان فاروقی دو دن سے ICU میں ہیں تو سیدانی نے پریشان ہوکر بالآخر آج رات اپنی چادر پھیلا ہی دی اور “ اُن “ کآ دامن پکڑ کے گُزارش کی کہ میرا میاں ڈیڑھ ماہ سے اپنے دوستوں کیلئیے رو رہا ہئے، بس کیجئیے۔ ہمیں رضوان فوری واپس چاہئیے۔ وہ ایسا کہہ سکتی ہیں۔ ہمارے تو پر ہی راکھ ہوتے ہیں اس منزلِ ناز پر۔
میں نے ظفر کو نہ کبھی بھائی کہہ کر مخاطب کیا اور نہ صاحب، ہمیشہ صرف اسلام الدین ظفر اور تُم کہہ کے مخاطب کیا اور وہ جھُکا جاتا تھا۔ خصوصی ربط اور ناظم کے رشتے کو کوئی ایسے بھی نباہتا ہے !
ڈاکٹر صاحب، جینے کی کوئی ایک تو وجہ ہو جس کے سہارے گُزار لی جائے؟
کتنی دور بسا لی بستی دل میں بسنے والوں نے۔ اور وہ بستی جو بستے بستے بستی ہئے
تارِ دامن خار پر، شاخِ شجر پر آستیں
اُس دِوانے کی، یہ ہئے شکلِ لباس
( نظیر اکبر آبادی)
ما و مجنُوں ہم سبق بُودِیم، اُو بہ صحرا رفت
و، ما، دَر کُوچئہ ہا رُسوا شُدیم
(میں اور مجنوں ہم سبق ہوا کرتے تھے۔ وہ صحرا کو روانہ ہوا اور میں اب تک اِسی کُوچے میں رُسوا ہو رہا ہوں)
سب بادشاہی اُنہی کی ہيے جو نہیں چاہتے کہ اُن کے علاوہ کسی اور کی تصویر بھی دیکھی جائے کہ وہ خود ہی مُتکبر مُحبّ بھی پیں اور بے نیاز محبوب بھی اور تصویر بھی کہاں، کہ غالبا مُصحفی کہہ گئے:
دل کے جلنے سے کوئی تصویر جل گئی ہوگی
نِہاں خانے، بُت خانے، نِہاں خانوں کے بُت خانے، تصویر، عکس: سب ہی تو حرام کر دیا اور اپنی تصویر دیتے نہیں کہ خالی ہوتے چوکھٹے بھر لئیے جائیں
ڈاکٹر صاحب؛ لگتا ہے کہ اب یہ آخری اپنا چَوکھٹا بھی نہیں رہے گا
رہے گا تو صرف وہ جو بے شکل و بے تصویر و اکلوتا ہے
رہے نام وحدہُ لا شریک کا، مومن و مُھیمن و مصور کا
ارشاد کلیمی
جانے کب کی شب ہے27 جون کی یا 28 جون کی؛ 2020
اسلام آباد
شبیر قریشی، سید حنیف زیدی، مُرشدی منور حسن صاحب اور اسلام الدین ظفر کا پُرسہ
ڈاکٹر انوار احمد خان، نیو یارک، امریکہ۔
ڈاکٹر صاحب،
بہت شُکریہ
اب زلزلہ پیما بھی سمجھ میں آگیا اور “کتاب” کے یہ الفاظ بھی کہ؛ جب زمین ہلا ماری جائے گی۔ اور اب اُس کہانی پر بھی یقین آگیا کہ طوطے میں جن کی جان تھی۔ جب طوطا مرا تو جن پر کیا گُزری !
یہی لکھا ہے ناں آپ نے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج اسلام الدین ظفر کے جانے سے مجھ پر کیا بیت رہی ہوگی؟
تو ڈاکٹر صاحب!
جن بھی تو مر جاتا ہئے اِس کہانی میں
جن بھی کتنے جنازے اُٹھائے
ڈیڑھ مہینے سے روز ایک نئی قیامت
اب ایمان آگیا قران کے اُس حصے پر جہاں یعقوب اپنے یوسف کی جدائی میں رو رو کے اندہے ہو جاتے ہیں لیکن اب تو یوسف کی قمیض ہی نہ رہی کہ کوئی لا کے یعقوب کے منہ پر ڈال دے۔ سورۂ یوسف فمیض سے بینائی اور وصل کا قصہ تو سُناتی ہئے لیکن قمیض کا پتہ ہی نہین دیتی کہ ہجر سے اندہی آنکھیں وصال کی بینائی پا جائیںاور یعقوب میلوں دور سے یوسف کی قمیض کی خوشبو سونگھ کر کہے کہ:
بُوئے یار می آئید
ڈیڑھ ماہ پہلے شبیر قریشی بھائی کے مرنے پہ یہ سمجھ کر دھاڑیں مار مار کر رویا کہ جیسے یہ آخری ہو پھر پندرہ دن قبل حنیف کے جانے پر بلکتا رہا کہ بس اب کوئی اور نہیں پھر کل مُرشد منور حسن صاحب چلے گئے تو کل سے سویا بھی نہین جا سکا کہ قمیضیں بھیگتی رہیں اور میں بھیگے ٹشو پیپر سنبھال سنبھال کر رکھتا رہا اور جو سب جانتے ہیں اُن سے بلک بلک کر کہتا رہا کہ مالک یہ ٹشو پیپر مجھے یوم آخر بھیگے ہوئے ہی واپس چاہئیں کہ اِن سے: بُوئے یار می آئید۔
کل ہی کسی نے بتا دیا تھا کہ جس کو تم نے اپنے ہاتھ سے تراشا تھا وہ یوسف موت کے کنویں سے نہین نکل پائے گا، اسلام الدین ظفر کے survival chances نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آج دوپہر، دو دن بعد آنکھ لگی تھی کہ محترمی صادق فاروقی بھائی کا فون آ گیا۔ فون کیا آیا، بس اسلام اُلدین ظفر کی سُناؤنی آگئی
چیخ چیخ کر وحدہُ لا شریک کی حمد یا چاپلوسی جو چاہیں کہیں وہ کرتا رہا کہ رب العرش المجید تجھے تیری کُرسی کا واسطہ کہ اب میرا ظفر تیرے پاس ہے۔بہت کشٹ کاٹے ہیں اس نے، اب اُسے اپنی جنت میں رکھ کہ میں بھی آیا ہی چاہتا ہوں رات پھر صادق بھائی نے بتایا کہ اُن کے چھوٹے والے بھائی رضوان فاروقی دو دن سے ICU میں ہیں تو سیدانی نے پریشان ہوکر بالآخر آج رات اپنی چادر پھیلا ہی دی اور “ اُن “ کآ دامن پکڑ کے گُزارش کی کہ میرا میاں ڈیڑھ ماہ سے اپنے دوستوں کیلئیے رو رہا ہئے، بس کیجئیے۔ ہمیں رضوان فوری واپس چاہئیے۔ وہ ایسا کہہ سکتی ہیں۔ ہمارے تو پر ہی راکھ ہوتے ہیں اس منزلِ ناز پر۔
میں نے ظفر کو نہ کبھی بھائی کہہ کر مخاطب کیا اور نہ صاحب، ہمیشہ صرف اسلام الدین ظفر اور تُم کہہ کے مخاطب کیا اور وہ جھُکا جاتا تھا۔ خصوصی ربط اور ناظم کے رشتے کو کوئی ایسے بھی نباہتا ہے !
ڈاکٹر صاحب، جینے کی کوئی ایک تو وجہ ہو جس کے سہارے گُزار لی جائے؟
کتنی دور بسا لی بستی دل میں بسنے والوں نے۔ اور وہ بستی جو بستے بستے بستی ہئے
تارِ دامن خار پر، شاخِ شجر پر آستیں
اُس دِوانے کی، یہ ہئے شکلِ لباس
( نظیر اکبر آبادی)
ما و مجنُوں ہم سبق بُودِیم، اُو بہ صحرا رفت
و، ما، دَر کُوچئہ ہا رُسوا شُدیم
(میں اور مجنوں ہم سبق ہوا کرتے تھے۔ وہ صحرا کو روانہ ہوا اور میں اب تک اِسی کُوچے میں رُسوا ہو رہا ہوں)
سب بادشاہی اُنہی کی ہيے جو نہیں چاہتے کہ اُن کے علاوہ کسی اور کی تصویر بھی دیکھی جائے کہ وہ خود ہی مُتکبر مُحبّ بھی پیں اور بے نیاز محبوب بھی اور تصویر بھی کہاں، کہ غالبا مُصحفی کہہ گئے:
دل کے جلنے سے کوئی تصویر جل گئی ہوگی
نِہاں خانے، بُت خانے، نِہاں خانوں کے بُت خانے، تصویر، عکس: سب ہی تو حرام کر دیا اور اپنی تصویر دیتے نہیں کہ خالی ہوتے چوکھٹے بھر لئیے جائیں
ڈاکٹر صاحب؛ لگتا ہے کہ اب یہ آخری اپنا چَوکھٹا بھی نہیں رہے گا
رہے گا تو صرف وہ جو بے شکل و بے تصویر و اکلوتا ہے
رہے نام وحدہُ لا شریک کا، مومن و مُھیمن و مصور کا
ارشاد کلیمی
جانے کب کی شب ہے27 جون کی یا 28 جون کی؛ 2020
اسلام آباد
شبیر قریشی، سید حنیف زیدی، مُرشدی منور حسن صاحب اور اسلام الدین ظفر کا پُرسہ
ڈاکٹر انوار احمد خان، نیو یارک، امریکہ۔
ڈاکٹر صاحب،
بہت شُکریہ
اب زلزلہ پیما بھی سمجھ میں آگیا اور “کتاب” کے یہ الفاظ بھی کہ؛ جب زمین ہلا ماری جائے گی۔ اور اب اُس کہانی پر بھی یقین آگیا کہ طوطے میں جن کی جان تھی۔ جب طوطا مرا تو جن پر کیا گُزری !
یہی لکھا ہے ناں آپ نے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج اسلام الدین ظفر کے جانے سے مجھ پر کیا بیت رہی ہوگی؟
تو ڈاکٹر صاحب!
جن بھی تو مر جاتا ہئے اِس کہانی میں
جن بھی کتنے جنازے اُٹھائے
ڈیڑھ مہینے سے روز ایک نئی قیامت
اب ایمان آگیا قران کے اُس حصے پر جہاں یعقوب اپنے یوسف کی جدائی میں رو رو کے اندہے ہو جاتے ہیں لیکن اب تو یوسف کی قمیض ہی نہ رہی کہ کوئی لا کے یعقوب کے منہ پر ڈال دے۔ سورۂ یوسف فمیض سے بینائی اور وصل کا قصہ تو سُناتی ہئے لیکن قمیض کا پتہ ہی نہین دیتی کہ ہجر سے اندہی آنکھیں وصال کی بینائی پا جائیںاور یعقوب میلوں دور سے یوسف کی قمیض کی خوشبو سونگھ کر کہے کہ:
بُوئے یار می آئید
ڈیڑھ ماہ پہلے شبیر قریشی بھائی کے مرنے پہ یہ سمجھ کر دھاڑیں مار مار کر رویا کہ جیسے یہ آخری ہو پھر پندرہ دن قبل حنیف کے جانے پر بلکتا رہا کہ بس اب کوئی اور نہیں پھر کل مُرشد منور حسن صاحب چلے گئے تو کل سے سویا بھی نہین جا سکا کہ قمیضیں بھیگتی رہیں اور میں بھیگے ٹشو پیپر سنبھال سنبھال کر رکھتا رہا اور جو سب جانتے ہیں اُن سے بلک بلک کر کہتا رہا کہ مالک یہ ٹشو پیپر مجھے یوم آخر بھیگے ہوئے ہی واپس چاہئیں کہ اِن سے: بُوئے یار می آئید۔
کل ہی کسی نے بتا دیا تھا کہ جس کو تم نے اپنے ہاتھ سے تراشا تھا وہ یوسف موت کے کنویں سے نہین نکل پائے گا، اسلام الدین ظفر کے survival chances نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آج دوپہر، دو دن بعد آنکھ لگی تھی کہ محترمی صادق فاروقی بھائی کا فون آ گیا۔ فون کیا آیا، بس اسلام اُلدین ظفر کی سُناؤنی آگئی
چیخ چیخ کر وحدہُ لا شریک کی حمد یا چاپلوسی جو چاہیں کہیں وہ کرتا رہا کہ رب العرش المجید تجھے تیری کُرسی کا واسطہ کہ اب میرا ظفر تیرے پاس ہے۔بہت کشٹ کاٹے ہیں اس نے، اب اُسے اپنی جنت میں رکھ کہ میں بھی آیا ہی چاہتا ہوں رات پھر صادق بھائی نے بتایا کہ اُن کے چھوٹے والے بھائی رضوان فاروقی دو دن سے ICU میں ہیں تو سیدانی نے پریشان ہوکر بالآخر آج رات اپنی چادر پھیلا ہی دی اور “ اُن “ کآ دامن پکڑ کے گُزارش کی کہ میرا میاں ڈیڑھ ماہ سے اپنے دوستوں کیلئیے رو رہا ہئے، بس کیجئیے۔ ہمیں رضوان فوری واپس چاہئیے۔ وہ ایسا کہہ سکتی ہیں۔ ہمارے تو پر ہی راکھ ہوتے ہیں اس منزلِ ناز پر۔
میں نے ظفر کو نہ کبھی بھائی کہہ کر مخاطب کیا اور نہ صاحب، ہمیشہ صرف اسلام الدین ظفر اور تُم کہہ کے مخاطب کیا اور وہ جھُکا جاتا تھا۔ خصوصی ربط اور ناظم کے رشتے کو کوئی ایسے بھی نباہتا ہے !
ڈاکٹر صاحب، جینے کی کوئی ایک تو وجہ ہو جس کے سہارے گُزار لی جائے؟
کتنی دور بسا لی بستی دل میں بسنے والوں نے۔ اور وہ بستی جو بستے بستے بستی ہئے
تارِ دامن خار پر، شاخِ شجر پر آستیں
اُس دِوانے کی، یہ ہئے شکلِ لباس
( نظیر اکبر آبادی)
ما و مجنُوں ہم سبق بُودِیم، اُو بہ صحرا رفت
و، ما، دَر کُوچئہ ہا رُسوا شُدیم
(میں اور مجنوں ہم سبق ہوا کرتے تھے۔ وہ صحرا کو روانہ ہوا اور میں اب تک اِسی کُوچے میں رُسوا ہو رہا ہوں)
سب بادشاہی اُنہی کی ہيے جو نہیں چاہتے کہ اُن کے علاوہ کسی اور کی تصویر بھی دیکھی جائے کہ وہ خود ہی مُتکبر مُحبّ بھی پیں اور بے نیاز محبوب بھی اور تصویر بھی کہاں، کہ غالبا مُصحفی کہہ گئے:
دل کے جلنے سے کوئی تصویر جل گئی ہوگی
نِہاں خانے، بُت خانے، نِہاں خانوں کے بُت خانے، تصویر، عکس: سب ہی تو حرام کر دیا اور اپنی تصویر دیتے نہیں کہ خالی ہوتے چوکھٹے بھر لئیے جائیں
ڈاکٹر صاحب؛ لگتا ہے کہ اب یہ آخری اپنا چَوکھٹا بھی نہیں رہے گا
رہے گا تو صرف وہ جو بے شکل و بے تصویر و اکلوتا ہے
رہے نام وحدہُ لا شریک کا، مومن و مُھیمن و مصور کا
ارشاد کلیمی
جانے کب کی شب ہے27 جون کی یا 28 جون کی؛ 2020
اسلام آباد