سید منور حسن سے پہلا تعارف اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اس وقت ہوا جب رونامہ نوائے وقت نے ان کا سنڈے میگزین کے لیے طویل انٹرویو کیا جو اقساط کی شکل میں شائع ہوا۔
سید صاحب زمانہ طالب علمی میں سٹوڈینٹ پالیٹیکٹس کا حصہ بنے۔حیران کن بات ہے کہ وہ اشتراکی نظریات رکھتے تھے اور اسی بنا پہ نیشنل سٹوڈینٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے بعد ازاں این ایس ایف کراچی کے صدر بنے۔معراج محمد خان اور حسین نقی کے جانثار ساتھیوں میں سے تھے۔
اسی دوران فکری اعتبار سے بائیں بازو سے دائیں بازو کی طرف پلٹا کھایا اور اسلامی جمیعت طلبہ میں شمولیت اختیار کی اور پھر اسی جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہے۔
اس اعتبار سے وہ ہمارے ملک کی بائیں اور دائیں سیاست کی عملی شکل تھے۔
وہ رکن قومی اسمبلی رہے۔جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور بعد میں امیر جماعت بھی منتخب ہوئے۔ان تمام مناصب کے ہوتے ہوئے بھی انھوں نے انتہائی سادگی سے زندگی بسر کی۔
وہ جماعت اسلامی میں درویشوں کے اس قافلے میں شامل تھے جنھوں نے اسلام کو سوچ سمجھ کر از سر نو قبول کیا اور اپنی پوری زندگی اس کی اشاعت و تبلیغ کے لیے وقف کی، انھوں نے اعلیٰ تعلیم، وسائل اور مواقع رکھنے کے باوجود امیرانہ بود و باش چھوڑ کر فقیرانہ طرز زندگی کو اختیار کیا۔
5 اگست 1941 کو پیدا ہونے والے سید منور حسن کا تعلق دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، متمول اور دینی اقدار کے حامل خاندان سے تھا جس نے پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی، اپنے بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے، ان کے اندر بچپن ہی سے قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں، تقریری مباحثوں میں حصہ لینا ان کا شوق اور مشغلہ تھا۔ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں اس وقت کی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف میں شامل ہوئے اور جلد اس کی کراچی شاخ کے صدر بن گئے۔ اسی دوران ان کا رابطہ اسلامی جمیعت طلبہ کے بعض مخلص کارکنوں سے ہوا، جنھوں نے ان کو جمیعت میں شامل ہونے کی دعوت دی اور مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھنے کو دیا۔
خاندانی دینی پس منظر کی وجہ سے انھوں نے اس لٹریچر کا مطالعہ شروع کیا تو ان کی دنیا ہی بدل گئی اور وہ یکا یک بائیں بازو سے دائیں بازو کے لیڈر بن گئے، اسلامی جمیعت طلبہ میں ایسے شامل ہوئے کہ پھر مڑ کر کبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، خرم جاہ مراد، اور محبوب علی شیخ نے اس جوہر قابل کو فوری طور پر اپنی تربیت میں لے لیا اور اسے جمیعت کا بہترین نظریاتی رہنما بنا دیا۔
1963 میں وہ کراچی یونی ورسٹی اور 1964 میں کراچی کے ناظم منتخب ہوئے، اسی برس ہی میں کراچی یونی ورسٹی سے انھوں نے سوشیالوجی میں اور 1966 میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر کیا۔ 1966 میں ناظم اعلیٰ بنے اور 1968 تک اس پر فائز رہے۔ تعلیم اور جمیعت سے فارغ ہوتے ہی وہ جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے اور جلد ہی انھیں پہلے نائب قیم، پھر قیم اور 1989 میں کراچی جماعت کا امیر مقرر کیا گیا۔ قبل ازیں وہ اسلامی ریسرچ اکیڈیمی کے ریسرچ فیلو ، سیکریٹری، ڈائریکٹر اور انگریزی جریدے Criterion کے ایڈیٹر بھی رہے۔
ملکی سیاست میں اچھی سوجھ بوجھ رکھنے کی وجہ سے ان کا شمار جماعت اسلامی کے ان رہنماؤں میں رہا ہے جن کا رابطہ حکمراں اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رہتا تھا، مارچ 1977 کے عام انتخابات میں انھوں نے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی ملک گیر تحریک اور مارشل لا لگنے کی وجہ سے یہ انتخابات ہی کالعدم ہو گئے اور اسمبلی کام نہ کر سکی، ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ممتاز دانشور جمیل الدین عالی تھے۔
سید منور حسن ہر لحاظ سے بڑے آدمی تھے۔ انتہائی دیانت دار، متقی، سادہ طرز زندگی گزارنے والے۔
امیر جماعت تھے تو اپنی صاحبزادی کی شادی کی، دعوت نامے پر باقاعدہ تحریر کیا کہ مہمان تحفہ دینے کہ زحمت نہ فرمائیں۔ اس کے باوجود جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے کچھ لوگ تحائف دے گئے۔ سید صاحب نے وہ تمام تحفے جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دئیے، ان میں چودہ سونے کے سیٹ بھی شامل تھے۔ وہ چاہتے تھے تو رکھ سکتے تھے، ان کے ذاتی تعلقات بہت زیادہ تھے، جماعت اسلامی کا امیر ہونا کسی سرکاری عہدے پر فائز ہونا نہیں تھا۔ جس کسی نے تحفہ دیا، اس نے سید منور حسن ہی کو دیا۔ اس کے باوجود سید کی متقی شخصیت نے یہ گوارا نہ کیا۔ ہماری سیاست میں ایسی مثالیں کہاں ملتی ہیں؟
سید منور حسن نے شاندار زندگی گزاری، اپنے اوپر کوئی بوجھ اٹھایا اور نہ ہی ان پر کسی ندامت کا داغ تھا۔ درویشی اور استغنا کے ساتھ زندگی گزاری، وقت آیا تو کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوئے اور شان کے ساتھ رخصت ہوئے۔
۔ایک بار میں نے انھیں خط لکھا اس وقت وہ سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان تھے۔میرا خیال تھا کہ وہ جواب نہ دے سکیں گے۔مگر میری حیرت کی انتہا ہو گئی جب کچھ دنوں بعد ان کا نامہ بر موصول ہوا۔جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
میری ان سے ایک ہی ملاقات ہے ۔اس ملاقات میں میں نے انھیں صاف گو،حق گو اور صاحب مطالعہ پایا۔
مجھے نصیحت کی کہ روزانہ رات سونے سے پہلے قرآن مجید کے دو اوراق بمعہ ترجمہ پڑھ کے سویا کرو۔جو شاید ان کا معمول تھا۔
نماز عصر ہم نے اکٹھے اداکی۔اتنے ٹھہراؤ اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے میں نےکبھی کسی کو نہیں دیکھا۔مسجد سے نکلتے وقت میں نے ان کے جوتے اٹھانے کی کوشش کی تو فرمانے لگے برخوردار اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہیں-
آج وہ 79 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین
ان پہ اقبال کے یہ شعر صادق آتے ہیں۔۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن !
آئین جواں مرداں حق گوئی وبیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی