Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
دنیا کے زیادہ تر ممالک کی بہ نسبت کورونا مریض سنگاپورمیں بہتر حالت میں ہیں، اب تک 42000 سے زائد متاثرین میں صرف 26 اموات ہوئی ہیں،
ماہرین کا کہنا کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ مریضوں کی اکثریت جوان اور صحتمند محنت کش تھے ، دوسرا یہ کہ نظام صحت پر ناقابل برداشت بوجھ نہیں پڑنے دیا گیا اس لئے تمام مریض بہترین ممکنہ توجہ و علاج حاصل کرپائے۔
90 فیصد سے زائد غیر ملکی محنت کشوں کی رہائشی عمارات سے پائے گئے، چونکہ و نسبتا جوان،سخت جان وصحت مند ہوتے ہیں اس لئے انہیں وائرس کے کم شدت والے اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
اسکے علاوہ حکومت نے وباء کے شروع ہی سے اسپتالوں کو حکم جاری کیا تھا کہ سارے غیر ہنگامی علاج اور آپریشنوں کو موخر کردیا جائے، اسپتال کورونا کے مریضوں کے علاج کے لئے فارغ رکھّے گئے۔ اس وجہ سے شدید بیمار مریضوں پر بہتر نگہداشت اور تیزرفتار علاج کے ذریعے انکی طبعیت مزید بگڑنے کا خطرہ کم کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا: کیا ریوڑانہ مدافعت آخری امید ہے؟
کورونا: قدرت اللہ شہاب کا بیٹا کینیڈا میں ہیرو بن گیا
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے متعدی امرض کے سینئر ماہر پروفیسر ڈیل فشر کے مطابق شرح اموات کے نسبتا کم ہونے کی وجہ کم عمر اور صحتمند مریض اور درحقیقت ہمارے ہسپتالوں اور آئی سی یو پر ناقابل برداشت دباؤ نہیں آسکا۔
اسی ہسپتال کے ایک اور سینئر کنسلٹنٹ نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ درحقیقت بہتر ابتدائی علاج کی وجہ سے کم مریضوں کو آئی سی یو میں بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔
ہر مریض کی دل کی دہڑکنیں، خون کا دباؤ، جسم میں آکسیجن کی شرح روزانہ کم از کم چھ مرتبہ چیک کی جاتی ہے اور ڈاکٹروں کی ٹیم ہر مریض کا کم از کم ایک مرتبہ ضرور جائزہ لیتی ہے۔
جیسے ہی کسی کو آکسیجن کی ضرورت پیش آتی اس کے عام وارڈ میں رہتے ہوئے بھی آئی سی یو کی واچ لسٹ میں ڈال دیا جاتا اور اسکی نگرانی کو مزید بڑہا دیا جاتا۔ جیسے ہی اسکی طبعیت میں مزید بگاڑ آتا آئی سی یو کی ٹیم اسکا جائیزہ لیکر حسب ضرورت آئی سی یو میں منتقل کردیا جاتا۔
بہت زیادہ تشویشناک مریض کم ہونے کی وجہ سے نسبتا جلد آئی سی یو میں منتقلی ممکن ہے، وہاں بہت زیادہ نگرانی ہی نہیں بلکہ مریض کو سانس میں آسانی کے لئے انتہائی شدید نوبت آنے سے پہلے ہی وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر پروفیسر سو لیانگ کا کہنا ہے کہ “بعض مریضوں کو درحقیقت اسکی ضرورت نہ بھی ہوتب بھی بجائے حالت ہنگامی ٹیوبیں (کریش ٹیبویشن) لگانے کا انتظار کرنے کے بہتر ہے کہ پہلے ہی مشین کے ذریعے سنبھال لیا جائے”۔(کریش ٹیوبیشن سے مُراد اسوقت ہنگامی طور پر سانس کے لئے ٹیوبیں لگائی جائیں جب مریض کے لئے سانس لینا مشکل ہو جائے)۔
پروفیسر لنگ نے اس کا کریڈٹ قومی ادارہ برائے معتدی امرض کے ڈاکٹروں کو دیا جنہوں نے مریض کی حالت بگڑنے سے پہلے ہی انکی شناخت کرنے میں حیران کُن مہارت حاصل کرلی اس وجہ سے انکا کیس بغیر تعطل کے بروقت و فوری آئی سی یو ٹیم کو منتقل کردیا جاتا ہے۔
اور آئی سی یو کے لوگ بھی اس معاملے میں خاصے درست ثابت ہوئے جب یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کسے وینٹلیٹر پر لگایا جائے اور کسے نہیں (واضح رہے کہ یہاں آخر وقت نہیں تھوڑا جلد وینٹلیٹر لگایا جاتا ہے)۔ ان چیزوں کی وجہ سے شرح اموات کم رکھنے میں مدد ملی ہے۔
اپریل سے نمونیہ کے مریض جنہیں آکسیجن کی ضرورت ہو انہیں دن میں پانچ مرتبہ ایک ایک گھنٹے کے لئے پیٹ کے بل لٹایا جاتا ہے اسکے نتیجے میں بڑی اکثریت کو وینٹیلیٹر کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
بعض مریضوں کے لئے حسب ضرورت تجرباتی ادویات (انکی اجازت سے) دی جاتی ہیں (یادرہے پلازما اور Remdesivir بھی تجرباتی علاج کی فہرست میں آتی ہے) اسکے بھی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر لنگ نے یہ بھی کہا کہ عوام کی احتیاطی ٹیسٹنگ کی وجہ سے بہت سے ایسے متاثرین سامنے آئے جن میں کوئی علامات نہیں تھیں، ان ٹیسٹوں سے فائدہ یہ ہوا کہ جنہیں ہسپتال بھیجنے کی ضرورت ہو انہیں بروقت بھیجا جائے اور اسکے نتیجے میں بہتر علاج فراہم کیا جاسکا۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک کی بہ نسبت کورونا مریض سنگاپورمیں بہتر حالت میں ہیں، اب تک 42000 سے زائد متاثرین میں صرف 26 اموات ہوئی ہیں،
ماہرین کا کہنا کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ مریضوں کی اکثریت جوان اور صحتمند محنت کش تھے ، دوسرا یہ کہ نظام صحت پر ناقابل برداشت بوجھ نہیں پڑنے دیا گیا اس لئے تمام مریض بہترین ممکنہ توجہ و علاج حاصل کرپائے۔
90 فیصد سے زائد غیر ملکی محنت کشوں کی رہائشی عمارات سے پائے گئے، چونکہ و نسبتا جوان،سخت جان وصحت مند ہوتے ہیں اس لئے انہیں وائرس کے کم شدت والے اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
اسکے علاوہ حکومت نے وباء کے شروع ہی سے اسپتالوں کو حکم جاری کیا تھا کہ سارے غیر ہنگامی علاج اور آپریشنوں کو موخر کردیا جائے، اسپتال کورونا کے مریضوں کے علاج کے لئے فارغ رکھّے گئے۔ اس وجہ سے شدید بیمار مریضوں پر بہتر نگہداشت اور تیزرفتار علاج کے ذریعے انکی طبعیت مزید بگڑنے کا خطرہ کم کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا: کیا ریوڑانہ مدافعت آخری امید ہے؟
کورونا: قدرت اللہ شہاب کا بیٹا کینیڈا میں ہیرو بن گیا
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے متعدی امرض کے سینئر ماہر پروفیسر ڈیل فشر کے مطابق شرح اموات کے نسبتا کم ہونے کی وجہ کم عمر اور صحتمند مریض اور درحقیقت ہمارے ہسپتالوں اور آئی سی یو پر ناقابل برداشت دباؤ نہیں آسکا۔
اسی ہسپتال کے ایک اور سینئر کنسلٹنٹ نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ درحقیقت بہتر ابتدائی علاج کی وجہ سے کم مریضوں کو آئی سی یو میں بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔
ہر مریض کی دل کی دہڑکنیں، خون کا دباؤ، جسم میں آکسیجن کی شرح روزانہ کم از کم چھ مرتبہ چیک کی جاتی ہے اور ڈاکٹروں کی ٹیم ہر مریض کا کم از کم ایک مرتبہ ضرور جائزہ لیتی ہے۔
جیسے ہی کسی کو آکسیجن کی ضرورت پیش آتی اس کے عام وارڈ میں رہتے ہوئے بھی آئی سی یو کی واچ لسٹ میں ڈال دیا جاتا اور اسکی نگرانی کو مزید بڑہا دیا جاتا۔ جیسے ہی اسکی طبعیت میں مزید بگاڑ آتا آئی سی یو کی ٹیم اسکا جائیزہ لیکر حسب ضرورت آئی سی یو میں منتقل کردیا جاتا۔
بہت زیادہ تشویشناک مریض کم ہونے کی وجہ سے نسبتا جلد آئی سی یو میں منتقلی ممکن ہے، وہاں بہت زیادہ نگرانی ہی نہیں بلکہ مریض کو سانس میں آسانی کے لئے انتہائی شدید نوبت آنے سے پہلے ہی وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر پروفیسر سو لیانگ کا کہنا ہے کہ “بعض مریضوں کو درحقیقت اسکی ضرورت نہ بھی ہوتب بھی بجائے حالت ہنگامی ٹیوبیں (کریش ٹیبویشن) لگانے کا انتظار کرنے کے بہتر ہے کہ پہلے ہی مشین کے ذریعے سنبھال لیا جائے”۔(کریش ٹیوبیشن سے مُراد اسوقت ہنگامی طور پر سانس کے لئے ٹیوبیں لگائی جائیں جب مریض کے لئے سانس لینا مشکل ہو جائے)۔
پروفیسر لنگ نے اس کا کریڈٹ قومی ادارہ برائے معتدی امرض کے ڈاکٹروں کو دیا جنہوں نے مریض کی حالت بگڑنے سے پہلے ہی انکی شناخت کرنے میں حیران کُن مہارت حاصل کرلی اس وجہ سے انکا کیس بغیر تعطل کے بروقت و فوری آئی سی یو ٹیم کو منتقل کردیا جاتا ہے۔
اور آئی سی یو کے لوگ بھی اس معاملے میں خاصے درست ثابت ہوئے جب یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کسے وینٹلیٹر پر لگایا جائے اور کسے نہیں (واضح رہے کہ یہاں آخر وقت نہیں تھوڑا جلد وینٹلیٹر لگایا جاتا ہے)۔ ان چیزوں کی وجہ سے شرح اموات کم رکھنے میں مدد ملی ہے۔
اپریل سے نمونیہ کے مریض جنہیں آکسیجن کی ضرورت ہو انہیں دن میں پانچ مرتبہ ایک ایک گھنٹے کے لئے پیٹ کے بل لٹایا جاتا ہے اسکے نتیجے میں بڑی اکثریت کو وینٹیلیٹر کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
بعض مریضوں کے لئے حسب ضرورت تجرباتی ادویات (انکی اجازت سے) دی جاتی ہیں (یادرہے پلازما اور Remdesivir بھی تجرباتی علاج کی فہرست میں آتی ہے) اسکے بھی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر لنگ نے یہ بھی کہا کہ عوام کی احتیاطی ٹیسٹنگ کی وجہ سے بہت سے ایسے متاثرین سامنے آئے جن میں کوئی علامات نہیں تھیں، ان ٹیسٹوں سے فائدہ یہ ہوا کہ جنہیں ہسپتال بھیجنے کی ضرورت ہو انہیں بروقت بھیجا جائے اور اسکے نتیجے میں بہتر علاج فراہم کیا جاسکا۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک کی بہ نسبت کورونا مریض سنگاپورمیں بہتر حالت میں ہیں، اب تک 42000 سے زائد متاثرین میں صرف 26 اموات ہوئی ہیں،
ماہرین کا کہنا کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ مریضوں کی اکثریت جوان اور صحتمند محنت کش تھے ، دوسرا یہ کہ نظام صحت پر ناقابل برداشت بوجھ نہیں پڑنے دیا گیا اس لئے تمام مریض بہترین ممکنہ توجہ و علاج حاصل کرپائے۔
90 فیصد سے زائد غیر ملکی محنت کشوں کی رہائشی عمارات سے پائے گئے، چونکہ و نسبتا جوان،سخت جان وصحت مند ہوتے ہیں اس لئے انہیں وائرس کے کم شدت والے اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
اسکے علاوہ حکومت نے وباء کے شروع ہی سے اسپتالوں کو حکم جاری کیا تھا کہ سارے غیر ہنگامی علاج اور آپریشنوں کو موخر کردیا جائے، اسپتال کورونا کے مریضوں کے علاج کے لئے فارغ رکھّے گئے۔ اس وجہ سے شدید بیمار مریضوں پر بہتر نگہداشت اور تیزرفتار علاج کے ذریعے انکی طبعیت مزید بگڑنے کا خطرہ کم کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا: کیا ریوڑانہ مدافعت آخری امید ہے؟
کورونا: قدرت اللہ شہاب کا بیٹا کینیڈا میں ہیرو بن گیا
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے متعدی امرض کے سینئر ماہر پروفیسر ڈیل فشر کے مطابق شرح اموات کے نسبتا کم ہونے کی وجہ کم عمر اور صحتمند مریض اور درحقیقت ہمارے ہسپتالوں اور آئی سی یو پر ناقابل برداشت دباؤ نہیں آسکا۔
اسی ہسپتال کے ایک اور سینئر کنسلٹنٹ نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ درحقیقت بہتر ابتدائی علاج کی وجہ سے کم مریضوں کو آئی سی یو میں بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔
ہر مریض کی دل کی دہڑکنیں، خون کا دباؤ، جسم میں آکسیجن کی شرح روزانہ کم از کم چھ مرتبہ چیک کی جاتی ہے اور ڈاکٹروں کی ٹیم ہر مریض کا کم از کم ایک مرتبہ ضرور جائزہ لیتی ہے۔
جیسے ہی کسی کو آکسیجن کی ضرورت پیش آتی اس کے عام وارڈ میں رہتے ہوئے بھی آئی سی یو کی واچ لسٹ میں ڈال دیا جاتا اور اسکی نگرانی کو مزید بڑہا دیا جاتا۔ جیسے ہی اسکی طبعیت میں مزید بگاڑ آتا آئی سی یو کی ٹیم اسکا جائیزہ لیکر حسب ضرورت آئی سی یو میں منتقل کردیا جاتا۔
بہت زیادہ تشویشناک مریض کم ہونے کی وجہ سے نسبتا جلد آئی سی یو میں منتقلی ممکن ہے، وہاں بہت زیادہ نگرانی ہی نہیں بلکہ مریض کو سانس میں آسانی کے لئے انتہائی شدید نوبت آنے سے پہلے ہی وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر پروفیسر سو لیانگ کا کہنا ہے کہ “بعض مریضوں کو درحقیقت اسکی ضرورت نہ بھی ہوتب بھی بجائے حالت ہنگامی ٹیوبیں (کریش ٹیبویشن) لگانے کا انتظار کرنے کے بہتر ہے کہ پہلے ہی مشین کے ذریعے سنبھال لیا جائے”۔(کریش ٹیوبیشن سے مُراد اسوقت ہنگامی طور پر سانس کے لئے ٹیوبیں لگائی جائیں جب مریض کے لئے سانس لینا مشکل ہو جائے)۔
پروفیسر لنگ نے اس کا کریڈٹ قومی ادارہ برائے معتدی امرض کے ڈاکٹروں کو دیا جنہوں نے مریض کی حالت بگڑنے سے پہلے ہی انکی شناخت کرنے میں حیران کُن مہارت حاصل کرلی اس وجہ سے انکا کیس بغیر تعطل کے بروقت و فوری آئی سی یو ٹیم کو منتقل کردیا جاتا ہے۔
اور آئی سی یو کے لوگ بھی اس معاملے میں خاصے درست ثابت ہوئے جب یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کسے وینٹلیٹر پر لگایا جائے اور کسے نہیں (واضح رہے کہ یہاں آخر وقت نہیں تھوڑا جلد وینٹلیٹر لگایا جاتا ہے)۔ ان چیزوں کی وجہ سے شرح اموات کم رکھنے میں مدد ملی ہے۔
اپریل سے نمونیہ کے مریض جنہیں آکسیجن کی ضرورت ہو انہیں دن میں پانچ مرتبہ ایک ایک گھنٹے کے لئے پیٹ کے بل لٹایا جاتا ہے اسکے نتیجے میں بڑی اکثریت کو وینٹیلیٹر کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
بعض مریضوں کے لئے حسب ضرورت تجرباتی ادویات (انکی اجازت سے) دی جاتی ہیں (یادرہے پلازما اور Remdesivir بھی تجرباتی علاج کی فہرست میں آتی ہے) اسکے بھی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر لنگ نے یہ بھی کہا کہ عوام کی احتیاطی ٹیسٹنگ کی وجہ سے بہت سے ایسے متاثرین سامنے آئے جن میں کوئی علامات نہیں تھیں، ان ٹیسٹوں سے فائدہ یہ ہوا کہ جنہیں ہسپتال بھیجنے کی ضرورت ہو انہیں بروقت بھیجا جائے اور اسکے نتیجے میں بہتر علاج فراہم کیا جاسکا۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک کی بہ نسبت کورونا مریض سنگاپورمیں بہتر حالت میں ہیں، اب تک 42000 سے زائد متاثرین میں صرف 26 اموات ہوئی ہیں،
ماہرین کا کہنا کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ مریضوں کی اکثریت جوان اور صحتمند محنت کش تھے ، دوسرا یہ کہ نظام صحت پر ناقابل برداشت بوجھ نہیں پڑنے دیا گیا اس لئے تمام مریض بہترین ممکنہ توجہ و علاج حاصل کرپائے۔
90 فیصد سے زائد غیر ملکی محنت کشوں کی رہائشی عمارات سے پائے گئے، چونکہ و نسبتا جوان،سخت جان وصحت مند ہوتے ہیں اس لئے انہیں وائرس کے کم شدت والے اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
اسکے علاوہ حکومت نے وباء کے شروع ہی سے اسپتالوں کو حکم جاری کیا تھا کہ سارے غیر ہنگامی علاج اور آپریشنوں کو موخر کردیا جائے، اسپتال کورونا کے مریضوں کے علاج کے لئے فارغ رکھّے گئے۔ اس وجہ سے شدید بیمار مریضوں پر بہتر نگہداشت اور تیزرفتار علاج کے ذریعے انکی طبعیت مزید بگڑنے کا خطرہ کم کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا: کیا ریوڑانہ مدافعت آخری امید ہے؟
کورونا: قدرت اللہ شہاب کا بیٹا کینیڈا میں ہیرو بن گیا
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے متعدی امرض کے سینئر ماہر پروفیسر ڈیل فشر کے مطابق شرح اموات کے نسبتا کم ہونے کی وجہ کم عمر اور صحتمند مریض اور درحقیقت ہمارے ہسپتالوں اور آئی سی یو پر ناقابل برداشت دباؤ نہیں آسکا۔
اسی ہسپتال کے ایک اور سینئر کنسلٹنٹ نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ درحقیقت بہتر ابتدائی علاج کی وجہ سے کم مریضوں کو آئی سی یو میں بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔
ہر مریض کی دل کی دہڑکنیں، خون کا دباؤ، جسم میں آکسیجن کی شرح روزانہ کم از کم چھ مرتبہ چیک کی جاتی ہے اور ڈاکٹروں کی ٹیم ہر مریض کا کم از کم ایک مرتبہ ضرور جائزہ لیتی ہے۔
جیسے ہی کسی کو آکسیجن کی ضرورت پیش آتی اس کے عام وارڈ میں رہتے ہوئے بھی آئی سی یو کی واچ لسٹ میں ڈال دیا جاتا اور اسکی نگرانی کو مزید بڑہا دیا جاتا۔ جیسے ہی اسکی طبعیت میں مزید بگاڑ آتا آئی سی یو کی ٹیم اسکا جائیزہ لیکر حسب ضرورت آئی سی یو میں منتقل کردیا جاتا۔
بہت زیادہ تشویشناک مریض کم ہونے کی وجہ سے نسبتا جلد آئی سی یو میں منتقلی ممکن ہے، وہاں بہت زیادہ نگرانی ہی نہیں بلکہ مریض کو سانس میں آسانی کے لئے انتہائی شدید نوبت آنے سے پہلے ہی وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر پروفیسر سو لیانگ کا کہنا ہے کہ “بعض مریضوں کو درحقیقت اسکی ضرورت نہ بھی ہوتب بھی بجائے حالت ہنگامی ٹیوبیں (کریش ٹیبویشن) لگانے کا انتظار کرنے کے بہتر ہے کہ پہلے ہی مشین کے ذریعے سنبھال لیا جائے”۔(کریش ٹیوبیشن سے مُراد اسوقت ہنگامی طور پر سانس کے لئے ٹیوبیں لگائی جائیں جب مریض کے لئے سانس لینا مشکل ہو جائے)۔
پروفیسر لنگ نے اس کا کریڈٹ قومی ادارہ برائے معتدی امرض کے ڈاکٹروں کو دیا جنہوں نے مریض کی حالت بگڑنے سے پہلے ہی انکی شناخت کرنے میں حیران کُن مہارت حاصل کرلی اس وجہ سے انکا کیس بغیر تعطل کے بروقت و فوری آئی سی یو ٹیم کو منتقل کردیا جاتا ہے۔
اور آئی سی یو کے لوگ بھی اس معاملے میں خاصے درست ثابت ہوئے جب یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کسے وینٹلیٹر پر لگایا جائے اور کسے نہیں (واضح رہے کہ یہاں آخر وقت نہیں تھوڑا جلد وینٹلیٹر لگایا جاتا ہے)۔ ان چیزوں کی وجہ سے شرح اموات کم رکھنے میں مدد ملی ہے۔
اپریل سے نمونیہ کے مریض جنہیں آکسیجن کی ضرورت ہو انہیں دن میں پانچ مرتبہ ایک ایک گھنٹے کے لئے پیٹ کے بل لٹایا جاتا ہے اسکے نتیجے میں بڑی اکثریت کو وینٹیلیٹر کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
بعض مریضوں کے لئے حسب ضرورت تجرباتی ادویات (انکی اجازت سے) دی جاتی ہیں (یادرہے پلازما اور Remdesivir بھی تجرباتی علاج کی فہرست میں آتی ہے) اسکے بھی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر لنگ نے یہ بھی کہا کہ عوام کی احتیاطی ٹیسٹنگ کی وجہ سے بہت سے ایسے متاثرین سامنے آئے جن میں کوئی علامات نہیں تھیں، ان ٹیسٹوں سے فائدہ یہ ہوا کہ جنہیں ہسپتال بھیجنے کی ضرورت ہو انہیں بروقت بھیجا جائے اور اسکے نتیجے میں بہتر علاج فراہم کیا جاسکا۔