Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن میں دھاندلی پر 1977 میں PNA کی ملک گیر تحریک چل رہی تھی جو بعد ازاں تحریک نظام۔مصطفٰے ص میں تبدیل ہوگئی
اسی دوران ہمیں فیصل آباد جانا پڑ گیا اور چند ماہ وہاں قیام رہا۔۔ابھی ضیاءالحق کا مارشل لاء نہیں لگا تھا۔۔5 جولائی 1977 کی شام ہم کچھری بازار کے جاوید ہوٹل میں چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک ہوٹل کے TV پر آواز گونجی۔۔
میرے ہم وطنو۔۔۔یہ مارشل لاء سے متعلق ضیاء الحق کی پہلی تقریر تھی۔جسے سننے کا شرف ہم نے بنفس نفیس حاصل کیا۔۔۔پھر کیا تھا مارشل لاء لگتے ہی ساری صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔۔
فیصل آباد میں قیام کے دوران ہماری بہت سے رہنماوں اور مقامی قیادت سے ملاقاتیں رہیں۔۔جن میں بھائی حافظ سلمان بٹ۔۔ظفر جمال بلوچ اور طفیل احمد ضیاء (امیر فیصل آباد) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ضیاءالحق کے وعدے کے مطابق 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کی تیاریاں جاری تھیں۔سیاسی جلسے شروع ہوچکے تھے۔۔بھٹو صاحب جیل میں تھے۔۔اسی دوران دھوبی گھاٹ جو اب اقبال پارک کہلاتا ہے۔۔PPP نے جلسہ کیا جس سے بے نظیر اور نصرت بھٹو نے خطاب کیا ہم بھی تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔۔
دوسری طرف PNA کی الیکشن مہم بھی شروع ہوگئی۔۔کئی لوگوں نے جو ہمیں جامعہ کراچی کے حوالے سے جانتے تھے۔۔ان جلسوں میں خطاب کیلیے دعوت دی۔۔ظاہر ہے کافی پزیرائی ہوئی۔۔کیونکہ وہاں کے جلسوں اور تقریروں کے انداز میں اور ہمارے جامعہ کراچی کے انداز میں کافی فرق تھا۔۔جس کو لوگوں نے بہت سراہا۔۔کیونکہ یہ ان کے لیے بالکل ہی نیا تجربہ تھا۔۔خیر اس طرح فیصل آباد کے سیاسی حلقوں میں ہماری کافی مشہوری ہوگئی۔۔۔
اسی دوران ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ہم اپنی رہائش گاہ پر تھے کہ اچانک نوجوانوں کا ایک گروپ پہنچ گیا۔۔سلام دعا کے بعد تعرف سے پتہ چلا کہ یہ پنجاب میڈیکل کالج کے طلباء ہیں۔۔جو کہ نیانیا کھلا تھا اور اس کی کلاسیں بھی زرعی یونیورسٹی میں ہی ہورہی تھیں۔۔
اس طلبہ گروپ کو ایک بہت ہی خوبصورت جوان جس کا نام افتخار تھا۔۔لیڈ کررہا تھا۔۔آنکھوں میں مستقبل کے خوبصورت خوابوں کی چمک۔۔ہونٹوں پر ہر دم کھیلتی مسکراہٹ۔۔سرخی مائل گوری رنگت۔۔اور چہرے سے جھلکتی شرارتی زہانت۔
ہم جو پہلے ہی حسن و عشق کے مارے تھے۔دیکھتے ہی دل سے گرویدہ ہوگئے۔۔۔اللہُ جمیل و یحب الجمال۔۔اللہ تعالٰی خود بہت خوبصورت اور حسین ہے اور حسن و جمال کو پسند کرتا ہے۔۔وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ہماری محبت اور دوستی قائم ہے۔۔اب جبکہ افتخار اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔ہمارا تعلق ان کے اہل و عیال اور دیگر رشتہ داروں سے قائم و دائم ہے۔۔
خیر افتخار نے کہا کہ اس نئے نویلے کالج میں وہ پہلا بیج ہیں۔۔اور تین چاردن میں یہاں طلبہ یونین کے پہلے الیکشن ہونے والے ہیں۔اور انہیں ایک طلبہ تنظیم کی طرف سے الیکشن میں کھڑا کیا گیا ہے۔۔اور اس پینل کے صدارتی امیدوار افتخار صاحب ہیں۔پینل کے دیکر لوگوں کا بھی تعارف کرایا گیا
ہم نے کہا کہ ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔۔اور آپ لوگوں نے کیوں زحمت کی ہے۔۔کہنے لگے یہ ہمارا الیکشن کا پہلا تجربہ ہے اور ہمارے مخالفین کافی مضبوط ہیں۔اور ہمارے ہارنے کے پورے پورے چانسز ہیں۔۔ہمیں آپ کا پتہ چلا تو ہم آپ سے رہنمائ لینے آئے ہیں۔۔کیونکہ آپ کو جامعہ کراچی جیسے بڑے اور عظیم ادارے کا تجربہ ہے
ان کے ان تعریفی کلمات کے بعد ہم پھولے نہی سمارہے تھے کی سارے جہاں میں دھوم ہماری جامعہ کی ہے۔۔
آمدم بر سر مطلب۔۔ہم نے عرض کیا کہ بھائیو، آپ کی ساری باتیں سر آنکھوں پر۔۔مگر ہم پنجاب کی سیاست اور ماحول سے قطعی نابلد ہیں۔۔بلکہ نل بٹا نل ہیں۔۔لیکن انھوں نے ٹلنے کا نام ہی نہ لیااور کہا کہ ہم بہت امید لیکر آئے ہین۔۔بس وہ ہمارے پیروں کو ہاتھ لگانے ہی والے تھے کہ ہمیں راضی ہونا پڑا۔۔کیونکہ ہمارا پیری مریدی کا کوئ ارادہ نہ تھا۔۔
خیر ہم نے کہا کہ کل آپ لوگ ہمیں اپنے کالج کی سیر کرائیں تاکہ ہم خود بنفس نفیس زمینی حقائق کا جائزہ لے سکیں۔غرض دوسرے دن ہم نے کالج کا دورہ کیا اور سب لوگ شام کو ہمارے غریب خانے پر دوبارہ جمع ہوگئے۔۔
سب سے پہلے تو ہم نے ان کو ایک بہت ہی اچھا اور قابل عمل منشور بناکر دیا۔۔اور پینل کے لوگوں کو تقاریر کی تربیت دی۔۔ساتھ ہی ہم نے ان سے مخالفین کی خامیاں اور کمزوریاں معلوم کیں۔۔اور ان معلومات کی بنیاد پر سوالنامے کے انداز میں ایک پمفلٹ بناکر دیا۔۔لہٰزا دوسرے دن وہ منشور اور پمفلٹ ایک ساتھ کالج میں تقسیم ہوئے۔جس سے ایک بھونچال سا آگیا۔۔مخالفین نہ صرف منہ چھپاتے رہے بلکہ صفائیاں بھی پیش کرتے رہے۔۔۔
شام کو دوبارہ سارے لوگ حسب پروگرام ہمارے پاس جمع ہوگئے۔۔ہم نے سارے دن کی رپورٹ لی۔اور کہا کہ جو پمفلٹ مخالفین کے بارے میں تقسیم ہوا ہے۔۔اب یقیناً مخالفین بھی اس کا جواب دیں گے۔۔لہٰزا آپ ہمیں بتائیں کہ ایک ایک نکتے پر مخالفین کا جواب کیا ہوگا۔۔ہم نے مخالفین کے مفروضہ جوابات کو لکھ لیا۔اور اس کی روشنی میں ایک اور پمفلٹ بنایا جوکہ مخالفین کے پمفلٹ کا جواب الجواب تھا۔۔
اب تیسرے دن الیکشن کی صبح حسب توقع مخالفین اپنا پمفلٹ بانٹ رہے تھے اور مزے کی بات کہ ساتھ ہمارا جوابی پمفلٹ بھی تقسیم ہورہا تھا۔اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم نے ان کے پمفلٹ کو سامنے رکھ کر اپنا پمفلٹ بنایا ہے۔۔یہاں تک کہ مخالفین کو کہنا پڑا کہ شاید ہمارا پمفلٹ پرنٹنگ پریس سے لیک آوٹ ہو گیا ہے۔۔ظاہر ہے پانسہ پلٹ چکا تھا اور مزید جواب دینے کا موقع نہ تھا۔۔پولنگ شروع ہوچکی تھی۔۔۔
مخالفین کے کانوں میں ہماری موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی۔۔لہٰزا مخالفین پرنسپل کے پاس شکایت لیکر گئے کہ ان کے امیر کراچی سے آئے ہیں اور الیکشن میں مداخلت کررہے ہیں۔چونکہ دیر ہوچکی تھی اس لیے پرنسپل نے بھی کوئ نوٹس نہ لیا اور پولنگ جاری رہی۔۔شام 5 بجے پولنگ ختم ہوئی اور ایک گھنٹے کے اندر نتائج آگئے۔۔
ظاہر ہے ہمارا پورا پینل بھر پور طریقے سے کامیاب ہوگیا۔۔طلبہ نے نہ صرف جیتنے والے امیدواروں کو کندھوں پر بٹھا کر جلوس نکالا بلکہ اس ناچیز کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔۔پورے کالج میں جشن فتح منایا گیا بلکہ سارا جلوس بعد ازاں ہمارے غریب خانے پر جمع ہوگیا اور سارے ہار پھول ہمارے کمرے مین ٹانگ دئیے۔
اب اگر یہاں گرلز ہوسٹل اور طالبات کے کردار کا زکر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔۔خاص طور پر ہوسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ جو کہ طالبات کی انچارج بھی تھیں۔اکثر رات کو ہمارے ساتھ پورا پینل گرلز ہوسٹل جاتا اور الیکشن مہم چلاتا۔
بحث مباحثہ بھی ہوتا۔۔طالبات کے ساتھ میٹنگز میں الیکشن سے متعلق معاملات زیر بحث آتے اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی ہوتی۔۔
خیر یہ تو ایک اضافی بات تھی۔۔لیکن ہماری دور بین نگاہوں نے ہماری ساتویں حس کو بیدار کردیا تھا۔۔چھٹی حس تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے۔لیکن ساتویں حس کسی کسی کے پاس ہوتی ہے۔ہمیں محسوس ہوا کہ افتخار (صدر یونین) اور طالبات کی انچارج میں کافی ہم آہنگی ہے۔۔نظریات اور خیالات کافی ملتے جلتے ہین۔۔ایسے میں نہ جانے کیوں اللہ نے ہمارے دل میں یہ بات ڈالی کہ اگر یہ دونوں آئندہ عملی زندگی میں بھی ایک ہوجائیں تو اس سے تنظیم و تحریک کے مقاصد کو کافی تقویت مل سکتی ہے۔۔مگر چونکہ یہ معاملات کافی نازک ہوتے ہیں۔۔اس لیے ہم نے کبھی بھی اس کا اشارةً بھی اظہار نہ کیا۔۔۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ جب ہماری کراچی واپسی ہوگئی۔۔سارا میڈیکل کالج ہمیں رخصت کرنے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن آیا۔۔سارے لوگ غمگین تھے ہماری آنکھوں میں بھی آنسو تھے کہ ہم پہلے ہی محبتوں کے مارے لوگ ہیں۔۔۔
لیکن جن محبتوں کا بیج ہم وہاں بو آئے تھے اس کا تقاضا تھا کہ جو بھی کراچی آتا سب سے پہلے ہم سے ملنے آتا۔۔پھر یوں ہوا کہ ڈاکٹر افتخار (جن کا خاندانی بزنس گڈز ٹرانسپورٹ تھا اور جن کے لوڈنگ ٹرک پورے ملک میں چلتے تھے اور ہر بڑے شہر میں ان کا آفس تھا) کراچی آئے اور JPMC میں اسپیشالائزیشن کیلیے شعبہ امراض اطفال میں داخلہ لے لیا۔۔
اس طرح ہماری کراچی میں بھی ملاقاتیں اور محفلیں چلتی رہیں۔۔اسی دوران 1980 میں ہماری شادی ہوگئی جس میں ڈاکٹر افتخار بھی شریک ہوئے۔۔ابھی ہماری شادی کو کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن (1981) ڈاکٹر افتخار نے ہمیں سرپرائز یوں دیا کہ اپنی نئی نویلی بیگم کو لیکر ہمارے گھر آگئے۔۔ہم پر تو جیسے حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔۔کیونکہ ڈاکٹر افتخار کی بیگم کوئ اور نہی وہی خاتون تھیں جو پنجاب میڈیکل کالج میں طالبات کی انچارج تھیں اور ہوسٹل میں رہتی تھیں کیونکہ ان کا گھر لاہور میں تھا۔۔ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اللہ تعالٰی جوڑے آسمانوں پر بناتا ہے۔ہمارے والدین بھی حیات تھے۔وہ بھی بہت خوش ہوئے۔۔ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایک اور محبت مکمل ہوئ۔۔
انہی دنوں کا ذکر ہے ہمارے والد صاحب گر گئے جس کی وجہ سے ان کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔اس موقع پر نہ صرف ڈاکٹر افتخار بلکہ ڈاکٹر تنویر جو ہم جماعت بھی تھے اور سول ہاسپٹل کراچی کے ہڈی وارڈ میں RMO تھے۔۔ ہمارے کام آئے اور دل و جان سے والد صاحب کا علاج کیا یہاں تک کہ والد صاحب دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔
ڈاکٹر تنویر آج کل برطانیہ کے ایک بڑے اسپتال میں ہڈی کے سرجن ہیں اور شعبہ ہڈی کے ہیڈ بھی ہیں۔۔۔
جہاں تک ڈاکٹر افتخار کا تعلق ہے وہ بڑی سیمابی کیفیت اور مزاج رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ 24 گھنٹے میں 48 گھنٹے کا کام کر گزریں۔۔ہر معاملے میں تیزی اور جلد بازی تھی۔۔ایک دفعہ ہم ان کی ہیوی موٹر بائیک پر بیٹھے تو بغیر پڑھے ہی موت کا منظر نظروں میں گھوم گیا۔اور ہمیں کلمہ پڑھنے پر مجبور کردیا۔۔ راکٹ کی رفتار سے بائیک جلاتے تھے۔۔اور بہت ہی خطر ناک انداز میں۔۔لگتا تھا کہ موت کے گولے میں بائیک چلا رہے ہیں۔۔ہم نے فوراً ہی کانوں (اپنے) کو ہاتھ لگایا کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔۔لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔۔
ایک دفعہ فیصل آباد سے لاہور جارہے تھے توگاڑی اتنی تیز چلائ کہ سڑک کے کنارے ایک ٹیلے پر چڑھ دوڑی۔۔کبھی ہم نے انہیں چین سے بیٹھے نہیں دیکھا۔۔
یہاں تک تو راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے اصل ٹرہجڈی تو اب شروع ہوتی ہے۔ یہ 1999 کی بات ہے کہ ڈاکٹر افتخار فیصل آباد کے جس ہسپتال میں کام کرتے تھے ریائش بھی وہیں ملی ہوئی تھی۔۔ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ صبح حسب معمول دوست کے ساتھ گھر سے ہسپتال ڈیوٹی کیلیے روانہ ہوئے۔ اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔۔ساتھ میں ڈاکٹر دوست تھا وہ فوراً ہی معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا اور اسی اسپتال کی ایمرجنسی میں لے گیا جہاں فوراً ہی فرسٹ ایڈ مل گئی۔۔زندگی تو بچ گئی مگر چند لمحوں کیلیے دماغ کو دوران خون رک گیا جس کی وجہ سے ڈاکٹر افتخار تقریباً کومے میں چلے گئے۔۔بیگم بھی ڈاکٹر تھیں۔۔دوست احباب بھی ڈاکٹر تھے۔۔گھر والے بھی ماشاء اللہ مالدار تھے۔۔غرض یہ کہ علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر ہونی کو انہونی کون کرسکتا ہے اس دن سے لیکر تقریباً بیس سال اسی حالت میں گزر گئے۔۔یہاں سے ان کی اہلیہ کا امتحان شروع ہوتا ہے۔۔
نہ صرف ان حالات میں ڈاکٹر افتخار کی دیکھ بھال کی۔۔بلکہ اپنی مزید تعلیم بھی جاری رکھی اور انیستھیزیا / بے ہوشی کی ماہر ڈاکٹر بھی بن گئیں۔۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی فیصل آباد کے ایک بڑے اسپتال سے گریڈ 20 سے ریٹائر ہوئی ہیں۔۔
اس عظیم خاتون نے ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ اپنا گھر بھی چلایا۔۔تین بیٹوں کو تعلیم دلائ۔۔اور ایک بیٹی کو ڈاکٹر بنایا۔۔بیٹی کی شادی کردی اور وہ اب برطانیہ میں ہے۔۔سب سے بڑے اور چھوٹے بیٹے کی بھی شادی کردی۔۔
مگر آزمائش ابھی ختم نہی ہوئی۔۔ 2009 کی بات ہے کہ منجھلا بیٹا اعلی تعلیم کیلیے بنگلہ دیش گیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ہوسٹل میں رہنا شروع کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت آگئی۔۔اس نے چن چن۔کر اسلامی زہن رکھنے والے لوگوں۔۔تحریکوں۔اور۔جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔۔
یہاں تک کہ یونیورسٹی کے غیر ملکی طلبہ کو بھی نہ چھوڑا۔۔یہ بچہ بھی اسلامی زہن رکھتا تھا اور وضع قطع بھی اسلامی تھی۔۔انھوں نے اسے بھی گرفتار کر لیا۔۔وہ دن اور آج کادن تقریباً دس سال ہوگئے۔۔اس کی کوئ خیر خبر نہی۔۔پتہ نہی ظالموں نے شہید کردیا یا اب بھی پابند سلاسل ہے۔۔مگر ایک ماں سے پوچھیں کہ جو اب بھی دروازے پر نظر لگائے کسی موہوم سی امید کے سہارے بیٹھی ہے۔۔
شکر ہے ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک شادی میں شرکت کیلیے لاہور میں مقیم تھے کہ دسمبر 2016 سے جنوری 2017 کے دوران ہمارا پروگرام بن گیا ڈاکٹر افتخار کو دیکھنے کا۔۔ہم فیصل آباد پہنچے تو ڈاکٹر افتخار کے چھوٹے بھائ کو لاری اڈے پر منتظر پایا۔۔اس کے ساتھ ہم ان کے گھر گئے جہاں انہوں نے ہماری پر تکلف دعوت کی۔۔
خیر ہم نے اس سیمابی کیفیت والے ڈاکٹر افتخار کا بھی دیدار کیا۔۔جو بالکل بے سدھ کومے کی حالت میں گزشتہ بیس سال سے پڑے ہوئے تھے۔۔
ہماری آنکھوں میں بیس سال پہلے کا ڈاکٹر افتخار گھوم گیا اور ہم سب اپنے آنسو نہ روک پائے۔۔
شکر ہے انتقال سے پہلے دیدار ہوگیا کچھ ہی عرصے بعد 2018 میں ڈاکٹر افتخار کا بھی انتقال ہوگیا۔۔۔
اسی دوران افتخار کی اہلیہ کی والدہ بیمار ہوکر پیرالائز ہوگئیں۔۔اس خاتون نے اپنی والدہ کی بھی آخری وقت تک دیکھ بھال اور تیمارداری کی۔۔
لیکن سلام و آفرین ہے ڈاکٹر افتخار کی اہلیہ کو کہ نہ صرف گھر چلایا۔۔۔خود مزید تعلیم حاصل کی۔۔بچوں کی اچھی سے اچھی تعلیم وتربیت کی
بلکہ بیس سال تک کومے میں پڑے شوہر کی ہر طرح سے خدمت کی۔۔دس سال سے لا پتہ بیٹے پر صبر کیا۔۔اپنی والدہ کی آخری وقت تک تیمارداری کی۔۔۔
ان تمام۔نا گفتہ بہ حالات۔۔آزمائشوں اور تکالیف کے باوجود اس عظیم خاتون نے نہ صرف صبر کیا بلکہ کبھی پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ زبان پر
کو ئ حرف شکایت۔۔اپنے جزبات کا بھی گلا گھونٹ دیا۔۔۔اور ایک مسلمان اور مشرقی مثالی عورت کی طرح زندگی گزاردی۔۔۔اور محبت۔۔ایثار و قربانی کی ایک عظیم الشان داستان رقم کردی
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ دونوں کو اپنے بچوں سمیت اپنی جنتوں میں یکجا کرے گا اور دنیا کی ساری محرومیوں کا مداوا کرےگا۔۔انشاء اللہ۔۔آمین ثمہ آمین۔

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن میں دھاندلی پر 1977 میں PNA کی ملک گیر تحریک چل رہی تھی جو بعد ازاں تحریک نظام۔مصطفٰے ص میں تبدیل ہوگئی
اسی دوران ہمیں فیصل آباد جانا پڑ گیا اور چند ماہ وہاں قیام رہا۔۔ابھی ضیاءالحق کا مارشل لاء نہیں لگا تھا۔۔5 جولائی 1977 کی شام ہم کچھری بازار کے جاوید ہوٹل میں چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک ہوٹل کے TV پر آواز گونجی۔۔
میرے ہم وطنو۔۔۔یہ مارشل لاء سے متعلق ضیاء الحق کی پہلی تقریر تھی۔جسے سننے کا شرف ہم نے بنفس نفیس حاصل کیا۔۔۔پھر کیا تھا مارشل لاء لگتے ہی ساری صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔۔
فیصل آباد میں قیام کے دوران ہماری بہت سے رہنماوں اور مقامی قیادت سے ملاقاتیں رہیں۔۔جن میں بھائی حافظ سلمان بٹ۔۔ظفر جمال بلوچ اور طفیل احمد ضیاء (امیر فیصل آباد) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ضیاءالحق کے وعدے کے مطابق 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کی تیاریاں جاری تھیں۔سیاسی جلسے شروع ہوچکے تھے۔۔بھٹو صاحب جیل میں تھے۔۔اسی دوران دھوبی گھاٹ جو اب اقبال پارک کہلاتا ہے۔۔PPP نے جلسہ کیا جس سے بے نظیر اور نصرت بھٹو نے خطاب کیا ہم بھی تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔۔
دوسری طرف PNA کی الیکشن مہم بھی شروع ہوگئی۔۔کئی لوگوں نے جو ہمیں جامعہ کراچی کے حوالے سے جانتے تھے۔۔ان جلسوں میں خطاب کیلیے دعوت دی۔۔ظاہر ہے کافی پزیرائی ہوئی۔۔کیونکہ وہاں کے جلسوں اور تقریروں کے انداز میں اور ہمارے جامعہ کراچی کے انداز میں کافی فرق تھا۔۔جس کو لوگوں نے بہت سراہا۔۔کیونکہ یہ ان کے لیے بالکل ہی نیا تجربہ تھا۔۔خیر اس طرح فیصل آباد کے سیاسی حلقوں میں ہماری کافی مشہوری ہوگئی۔۔۔
اسی دوران ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ہم اپنی رہائش گاہ پر تھے کہ اچانک نوجوانوں کا ایک گروپ پہنچ گیا۔۔سلام دعا کے بعد تعرف سے پتہ چلا کہ یہ پنجاب میڈیکل کالج کے طلباء ہیں۔۔جو کہ نیانیا کھلا تھا اور اس کی کلاسیں بھی زرعی یونیورسٹی میں ہی ہورہی تھیں۔۔
اس طلبہ گروپ کو ایک بہت ہی خوبصورت جوان جس کا نام افتخار تھا۔۔لیڈ کررہا تھا۔۔آنکھوں میں مستقبل کے خوبصورت خوابوں کی چمک۔۔ہونٹوں پر ہر دم کھیلتی مسکراہٹ۔۔سرخی مائل گوری رنگت۔۔اور چہرے سے جھلکتی شرارتی زہانت۔
ہم جو پہلے ہی حسن و عشق کے مارے تھے۔دیکھتے ہی دل سے گرویدہ ہوگئے۔۔۔اللہُ جمیل و یحب الجمال۔۔اللہ تعالٰی خود بہت خوبصورت اور حسین ہے اور حسن و جمال کو پسند کرتا ہے۔۔وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ہماری محبت اور دوستی قائم ہے۔۔اب جبکہ افتخار اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔ہمارا تعلق ان کے اہل و عیال اور دیگر رشتہ داروں سے قائم و دائم ہے۔۔
خیر افتخار نے کہا کہ اس نئے نویلے کالج میں وہ پہلا بیج ہیں۔۔اور تین چاردن میں یہاں طلبہ یونین کے پہلے الیکشن ہونے والے ہیں۔اور انہیں ایک طلبہ تنظیم کی طرف سے الیکشن میں کھڑا کیا گیا ہے۔۔اور اس پینل کے صدارتی امیدوار افتخار صاحب ہیں۔پینل کے دیکر لوگوں کا بھی تعارف کرایا گیا
ہم نے کہا کہ ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔۔اور آپ لوگوں نے کیوں زحمت کی ہے۔۔کہنے لگے یہ ہمارا الیکشن کا پہلا تجربہ ہے اور ہمارے مخالفین کافی مضبوط ہیں۔اور ہمارے ہارنے کے پورے پورے چانسز ہیں۔۔ہمیں آپ کا پتہ چلا تو ہم آپ سے رہنمائ لینے آئے ہیں۔۔کیونکہ آپ کو جامعہ کراچی جیسے بڑے اور عظیم ادارے کا تجربہ ہے
ان کے ان تعریفی کلمات کے بعد ہم پھولے نہی سمارہے تھے کی سارے جہاں میں دھوم ہماری جامعہ کی ہے۔۔
آمدم بر سر مطلب۔۔ہم نے عرض کیا کہ بھائیو، آپ کی ساری باتیں سر آنکھوں پر۔۔مگر ہم پنجاب کی سیاست اور ماحول سے قطعی نابلد ہیں۔۔بلکہ نل بٹا نل ہیں۔۔لیکن انھوں نے ٹلنے کا نام ہی نہ لیااور کہا کہ ہم بہت امید لیکر آئے ہین۔۔بس وہ ہمارے پیروں کو ہاتھ لگانے ہی والے تھے کہ ہمیں راضی ہونا پڑا۔۔کیونکہ ہمارا پیری مریدی کا کوئ ارادہ نہ تھا۔۔
خیر ہم نے کہا کہ کل آپ لوگ ہمیں اپنے کالج کی سیر کرائیں تاکہ ہم خود بنفس نفیس زمینی حقائق کا جائزہ لے سکیں۔غرض دوسرے دن ہم نے کالج کا دورہ کیا اور سب لوگ شام کو ہمارے غریب خانے پر دوبارہ جمع ہوگئے۔۔
سب سے پہلے تو ہم نے ان کو ایک بہت ہی اچھا اور قابل عمل منشور بناکر دیا۔۔اور پینل کے لوگوں کو تقاریر کی تربیت دی۔۔ساتھ ہی ہم نے ان سے مخالفین کی خامیاں اور کمزوریاں معلوم کیں۔۔اور ان معلومات کی بنیاد پر سوالنامے کے انداز میں ایک پمفلٹ بناکر دیا۔۔لہٰزا دوسرے دن وہ منشور اور پمفلٹ ایک ساتھ کالج میں تقسیم ہوئے۔جس سے ایک بھونچال سا آگیا۔۔مخالفین نہ صرف منہ چھپاتے رہے بلکہ صفائیاں بھی پیش کرتے رہے۔۔۔
شام کو دوبارہ سارے لوگ حسب پروگرام ہمارے پاس جمع ہوگئے۔۔ہم نے سارے دن کی رپورٹ لی۔اور کہا کہ جو پمفلٹ مخالفین کے بارے میں تقسیم ہوا ہے۔۔اب یقیناً مخالفین بھی اس کا جواب دیں گے۔۔لہٰزا آپ ہمیں بتائیں کہ ایک ایک نکتے پر مخالفین کا جواب کیا ہوگا۔۔ہم نے مخالفین کے مفروضہ جوابات کو لکھ لیا۔اور اس کی روشنی میں ایک اور پمفلٹ بنایا جوکہ مخالفین کے پمفلٹ کا جواب الجواب تھا۔۔
اب تیسرے دن الیکشن کی صبح حسب توقع مخالفین اپنا پمفلٹ بانٹ رہے تھے اور مزے کی بات کہ ساتھ ہمارا جوابی پمفلٹ بھی تقسیم ہورہا تھا۔اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم نے ان کے پمفلٹ کو سامنے رکھ کر اپنا پمفلٹ بنایا ہے۔۔یہاں تک کہ مخالفین کو کہنا پڑا کہ شاید ہمارا پمفلٹ پرنٹنگ پریس سے لیک آوٹ ہو گیا ہے۔۔ظاہر ہے پانسہ پلٹ چکا تھا اور مزید جواب دینے کا موقع نہ تھا۔۔پولنگ شروع ہوچکی تھی۔۔۔
مخالفین کے کانوں میں ہماری موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی۔۔لہٰزا مخالفین پرنسپل کے پاس شکایت لیکر گئے کہ ان کے امیر کراچی سے آئے ہیں اور الیکشن میں مداخلت کررہے ہیں۔چونکہ دیر ہوچکی تھی اس لیے پرنسپل نے بھی کوئ نوٹس نہ لیا اور پولنگ جاری رہی۔۔شام 5 بجے پولنگ ختم ہوئی اور ایک گھنٹے کے اندر نتائج آگئے۔۔
ظاہر ہے ہمارا پورا پینل بھر پور طریقے سے کامیاب ہوگیا۔۔طلبہ نے نہ صرف جیتنے والے امیدواروں کو کندھوں پر بٹھا کر جلوس نکالا بلکہ اس ناچیز کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔۔پورے کالج میں جشن فتح منایا گیا بلکہ سارا جلوس بعد ازاں ہمارے غریب خانے پر جمع ہوگیا اور سارے ہار پھول ہمارے کمرے مین ٹانگ دئیے۔
اب اگر یہاں گرلز ہوسٹل اور طالبات کے کردار کا زکر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔۔خاص طور پر ہوسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ جو کہ طالبات کی انچارج بھی تھیں۔اکثر رات کو ہمارے ساتھ پورا پینل گرلز ہوسٹل جاتا اور الیکشن مہم چلاتا۔
بحث مباحثہ بھی ہوتا۔۔طالبات کے ساتھ میٹنگز میں الیکشن سے متعلق معاملات زیر بحث آتے اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی ہوتی۔۔
خیر یہ تو ایک اضافی بات تھی۔۔لیکن ہماری دور بین نگاہوں نے ہماری ساتویں حس کو بیدار کردیا تھا۔۔چھٹی حس تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے۔لیکن ساتویں حس کسی کسی کے پاس ہوتی ہے۔ہمیں محسوس ہوا کہ افتخار (صدر یونین) اور طالبات کی انچارج میں کافی ہم آہنگی ہے۔۔نظریات اور خیالات کافی ملتے جلتے ہین۔۔ایسے میں نہ جانے کیوں اللہ نے ہمارے دل میں یہ بات ڈالی کہ اگر یہ دونوں آئندہ عملی زندگی میں بھی ایک ہوجائیں تو اس سے تنظیم و تحریک کے مقاصد کو کافی تقویت مل سکتی ہے۔۔مگر چونکہ یہ معاملات کافی نازک ہوتے ہیں۔۔اس لیے ہم نے کبھی بھی اس کا اشارةً بھی اظہار نہ کیا۔۔۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ جب ہماری کراچی واپسی ہوگئی۔۔سارا میڈیکل کالج ہمیں رخصت کرنے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن آیا۔۔سارے لوگ غمگین تھے ہماری آنکھوں میں بھی آنسو تھے کہ ہم پہلے ہی محبتوں کے مارے لوگ ہیں۔۔۔
لیکن جن محبتوں کا بیج ہم وہاں بو آئے تھے اس کا تقاضا تھا کہ جو بھی کراچی آتا سب سے پہلے ہم سے ملنے آتا۔۔پھر یوں ہوا کہ ڈاکٹر افتخار (جن کا خاندانی بزنس گڈز ٹرانسپورٹ تھا اور جن کے لوڈنگ ٹرک پورے ملک میں چلتے تھے اور ہر بڑے شہر میں ان کا آفس تھا) کراچی آئے اور JPMC میں اسپیشالائزیشن کیلیے شعبہ امراض اطفال میں داخلہ لے لیا۔۔
اس طرح ہماری کراچی میں بھی ملاقاتیں اور محفلیں چلتی رہیں۔۔اسی دوران 1980 میں ہماری شادی ہوگئی جس میں ڈاکٹر افتخار بھی شریک ہوئے۔۔ابھی ہماری شادی کو کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن (1981) ڈاکٹر افتخار نے ہمیں سرپرائز یوں دیا کہ اپنی نئی نویلی بیگم کو لیکر ہمارے گھر آگئے۔۔ہم پر تو جیسے حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔۔کیونکہ ڈاکٹر افتخار کی بیگم کوئ اور نہی وہی خاتون تھیں جو پنجاب میڈیکل کالج میں طالبات کی انچارج تھیں اور ہوسٹل میں رہتی تھیں کیونکہ ان کا گھر لاہور میں تھا۔۔ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اللہ تعالٰی جوڑے آسمانوں پر بناتا ہے۔ہمارے والدین بھی حیات تھے۔وہ بھی بہت خوش ہوئے۔۔ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایک اور محبت مکمل ہوئ۔۔
انہی دنوں کا ذکر ہے ہمارے والد صاحب گر گئے جس کی وجہ سے ان کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔اس موقع پر نہ صرف ڈاکٹر افتخار بلکہ ڈاکٹر تنویر جو ہم جماعت بھی تھے اور سول ہاسپٹل کراچی کے ہڈی وارڈ میں RMO تھے۔۔ ہمارے کام آئے اور دل و جان سے والد صاحب کا علاج کیا یہاں تک کہ والد صاحب دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔
ڈاکٹر تنویر آج کل برطانیہ کے ایک بڑے اسپتال میں ہڈی کے سرجن ہیں اور شعبہ ہڈی کے ہیڈ بھی ہیں۔۔۔
جہاں تک ڈاکٹر افتخار کا تعلق ہے وہ بڑی سیمابی کیفیت اور مزاج رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ 24 گھنٹے میں 48 گھنٹے کا کام کر گزریں۔۔ہر معاملے میں تیزی اور جلد بازی تھی۔۔ایک دفعہ ہم ان کی ہیوی موٹر بائیک پر بیٹھے تو بغیر پڑھے ہی موت کا منظر نظروں میں گھوم گیا۔اور ہمیں کلمہ پڑھنے پر مجبور کردیا۔۔ راکٹ کی رفتار سے بائیک جلاتے تھے۔۔اور بہت ہی خطر ناک انداز میں۔۔لگتا تھا کہ موت کے گولے میں بائیک چلا رہے ہیں۔۔ہم نے فوراً ہی کانوں (اپنے) کو ہاتھ لگایا کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔۔لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔۔
ایک دفعہ فیصل آباد سے لاہور جارہے تھے توگاڑی اتنی تیز چلائ کہ سڑک کے کنارے ایک ٹیلے پر چڑھ دوڑی۔۔کبھی ہم نے انہیں چین سے بیٹھے نہیں دیکھا۔۔
یہاں تک تو راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے اصل ٹرہجڈی تو اب شروع ہوتی ہے۔ یہ 1999 کی بات ہے کہ ڈاکٹر افتخار فیصل آباد کے جس ہسپتال میں کام کرتے تھے ریائش بھی وہیں ملی ہوئی تھی۔۔ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ صبح حسب معمول دوست کے ساتھ گھر سے ہسپتال ڈیوٹی کیلیے روانہ ہوئے۔ اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔۔ساتھ میں ڈاکٹر دوست تھا وہ فوراً ہی معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا اور اسی اسپتال کی ایمرجنسی میں لے گیا جہاں فوراً ہی فرسٹ ایڈ مل گئی۔۔زندگی تو بچ گئی مگر چند لمحوں کیلیے دماغ کو دوران خون رک گیا جس کی وجہ سے ڈاکٹر افتخار تقریباً کومے میں چلے گئے۔۔بیگم بھی ڈاکٹر تھیں۔۔دوست احباب بھی ڈاکٹر تھے۔۔گھر والے بھی ماشاء اللہ مالدار تھے۔۔غرض یہ کہ علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر ہونی کو انہونی کون کرسکتا ہے اس دن سے لیکر تقریباً بیس سال اسی حالت میں گزر گئے۔۔یہاں سے ان کی اہلیہ کا امتحان شروع ہوتا ہے۔۔
نہ صرف ان حالات میں ڈاکٹر افتخار کی دیکھ بھال کی۔۔بلکہ اپنی مزید تعلیم بھی جاری رکھی اور انیستھیزیا / بے ہوشی کی ماہر ڈاکٹر بھی بن گئیں۔۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی فیصل آباد کے ایک بڑے اسپتال سے گریڈ 20 سے ریٹائر ہوئی ہیں۔۔
اس عظیم خاتون نے ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ اپنا گھر بھی چلایا۔۔تین بیٹوں کو تعلیم دلائ۔۔اور ایک بیٹی کو ڈاکٹر بنایا۔۔بیٹی کی شادی کردی اور وہ اب برطانیہ میں ہے۔۔سب سے بڑے اور چھوٹے بیٹے کی بھی شادی کردی۔۔
مگر آزمائش ابھی ختم نہی ہوئی۔۔ 2009 کی بات ہے کہ منجھلا بیٹا اعلی تعلیم کیلیے بنگلہ دیش گیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ہوسٹل میں رہنا شروع کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت آگئی۔۔اس نے چن چن۔کر اسلامی زہن رکھنے والے لوگوں۔۔تحریکوں۔اور۔جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔۔
یہاں تک کہ یونیورسٹی کے غیر ملکی طلبہ کو بھی نہ چھوڑا۔۔یہ بچہ بھی اسلامی زہن رکھتا تھا اور وضع قطع بھی اسلامی تھی۔۔انھوں نے اسے بھی گرفتار کر لیا۔۔وہ دن اور آج کادن تقریباً دس سال ہوگئے۔۔اس کی کوئ خیر خبر نہی۔۔پتہ نہی ظالموں نے شہید کردیا یا اب بھی پابند سلاسل ہے۔۔مگر ایک ماں سے پوچھیں کہ جو اب بھی دروازے پر نظر لگائے کسی موہوم سی امید کے سہارے بیٹھی ہے۔۔
شکر ہے ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک شادی میں شرکت کیلیے لاہور میں مقیم تھے کہ دسمبر 2016 سے جنوری 2017 کے دوران ہمارا پروگرام بن گیا ڈاکٹر افتخار کو دیکھنے کا۔۔ہم فیصل آباد پہنچے تو ڈاکٹر افتخار کے چھوٹے بھائ کو لاری اڈے پر منتظر پایا۔۔اس کے ساتھ ہم ان کے گھر گئے جہاں انہوں نے ہماری پر تکلف دعوت کی۔۔
خیر ہم نے اس سیمابی کیفیت والے ڈاکٹر افتخار کا بھی دیدار کیا۔۔جو بالکل بے سدھ کومے کی حالت میں گزشتہ بیس سال سے پڑے ہوئے تھے۔۔
ہماری آنکھوں میں بیس سال پہلے کا ڈاکٹر افتخار گھوم گیا اور ہم سب اپنے آنسو نہ روک پائے۔۔
شکر ہے انتقال سے پہلے دیدار ہوگیا کچھ ہی عرصے بعد 2018 میں ڈاکٹر افتخار کا بھی انتقال ہوگیا۔۔۔
اسی دوران افتخار کی اہلیہ کی والدہ بیمار ہوکر پیرالائز ہوگئیں۔۔اس خاتون نے اپنی والدہ کی بھی آخری وقت تک دیکھ بھال اور تیمارداری کی۔۔
لیکن سلام و آفرین ہے ڈاکٹر افتخار کی اہلیہ کو کہ نہ صرف گھر چلایا۔۔۔خود مزید تعلیم حاصل کی۔۔بچوں کی اچھی سے اچھی تعلیم وتربیت کی
بلکہ بیس سال تک کومے میں پڑے شوہر کی ہر طرح سے خدمت کی۔۔دس سال سے لا پتہ بیٹے پر صبر کیا۔۔اپنی والدہ کی آخری وقت تک تیمارداری کی۔۔۔
ان تمام۔نا گفتہ بہ حالات۔۔آزمائشوں اور تکالیف کے باوجود اس عظیم خاتون نے نہ صرف صبر کیا بلکہ کبھی پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ زبان پر
کو ئ حرف شکایت۔۔اپنے جزبات کا بھی گلا گھونٹ دیا۔۔۔اور ایک مسلمان اور مشرقی مثالی عورت کی طرح زندگی گزاردی۔۔۔اور محبت۔۔ایثار و قربانی کی ایک عظیم الشان داستان رقم کردی
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ دونوں کو اپنے بچوں سمیت اپنی جنتوں میں یکجا کرے گا اور دنیا کی ساری محرومیوں کا مداوا کرےگا۔۔انشاء اللہ۔۔آمین ثمہ آمین۔

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن میں دھاندلی پر 1977 میں PNA کی ملک گیر تحریک چل رہی تھی جو بعد ازاں تحریک نظام۔مصطفٰے ص میں تبدیل ہوگئی
اسی دوران ہمیں فیصل آباد جانا پڑ گیا اور چند ماہ وہاں قیام رہا۔۔ابھی ضیاءالحق کا مارشل لاء نہیں لگا تھا۔۔5 جولائی 1977 کی شام ہم کچھری بازار کے جاوید ہوٹل میں چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک ہوٹل کے TV پر آواز گونجی۔۔
میرے ہم وطنو۔۔۔یہ مارشل لاء سے متعلق ضیاء الحق کی پہلی تقریر تھی۔جسے سننے کا شرف ہم نے بنفس نفیس حاصل کیا۔۔۔پھر کیا تھا مارشل لاء لگتے ہی ساری صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔۔
فیصل آباد میں قیام کے دوران ہماری بہت سے رہنماوں اور مقامی قیادت سے ملاقاتیں رہیں۔۔جن میں بھائی حافظ سلمان بٹ۔۔ظفر جمال بلوچ اور طفیل احمد ضیاء (امیر فیصل آباد) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ضیاءالحق کے وعدے کے مطابق 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کی تیاریاں جاری تھیں۔سیاسی جلسے شروع ہوچکے تھے۔۔بھٹو صاحب جیل میں تھے۔۔اسی دوران دھوبی گھاٹ جو اب اقبال پارک کہلاتا ہے۔۔PPP نے جلسہ کیا جس سے بے نظیر اور نصرت بھٹو نے خطاب کیا ہم بھی تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔۔
دوسری طرف PNA کی الیکشن مہم بھی شروع ہوگئی۔۔کئی لوگوں نے جو ہمیں جامعہ کراچی کے حوالے سے جانتے تھے۔۔ان جلسوں میں خطاب کیلیے دعوت دی۔۔ظاہر ہے کافی پزیرائی ہوئی۔۔کیونکہ وہاں کے جلسوں اور تقریروں کے انداز میں اور ہمارے جامعہ کراچی کے انداز میں کافی فرق تھا۔۔جس کو لوگوں نے بہت سراہا۔۔کیونکہ یہ ان کے لیے بالکل ہی نیا تجربہ تھا۔۔خیر اس طرح فیصل آباد کے سیاسی حلقوں میں ہماری کافی مشہوری ہوگئی۔۔۔
اسی دوران ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ہم اپنی رہائش گاہ پر تھے کہ اچانک نوجوانوں کا ایک گروپ پہنچ گیا۔۔سلام دعا کے بعد تعرف سے پتہ چلا کہ یہ پنجاب میڈیکل کالج کے طلباء ہیں۔۔جو کہ نیانیا کھلا تھا اور اس کی کلاسیں بھی زرعی یونیورسٹی میں ہی ہورہی تھیں۔۔
اس طلبہ گروپ کو ایک بہت ہی خوبصورت جوان جس کا نام افتخار تھا۔۔لیڈ کررہا تھا۔۔آنکھوں میں مستقبل کے خوبصورت خوابوں کی چمک۔۔ہونٹوں پر ہر دم کھیلتی مسکراہٹ۔۔سرخی مائل گوری رنگت۔۔اور چہرے سے جھلکتی شرارتی زہانت۔
ہم جو پہلے ہی حسن و عشق کے مارے تھے۔دیکھتے ہی دل سے گرویدہ ہوگئے۔۔۔اللہُ جمیل و یحب الجمال۔۔اللہ تعالٰی خود بہت خوبصورت اور حسین ہے اور حسن و جمال کو پسند کرتا ہے۔۔وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ہماری محبت اور دوستی قائم ہے۔۔اب جبکہ افتخار اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔ہمارا تعلق ان کے اہل و عیال اور دیگر رشتہ داروں سے قائم و دائم ہے۔۔
خیر افتخار نے کہا کہ اس نئے نویلے کالج میں وہ پہلا بیج ہیں۔۔اور تین چاردن میں یہاں طلبہ یونین کے پہلے الیکشن ہونے والے ہیں۔اور انہیں ایک طلبہ تنظیم کی طرف سے الیکشن میں کھڑا کیا گیا ہے۔۔اور اس پینل کے صدارتی امیدوار افتخار صاحب ہیں۔پینل کے دیکر لوگوں کا بھی تعارف کرایا گیا
ہم نے کہا کہ ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔۔اور آپ لوگوں نے کیوں زحمت کی ہے۔۔کہنے لگے یہ ہمارا الیکشن کا پہلا تجربہ ہے اور ہمارے مخالفین کافی مضبوط ہیں۔اور ہمارے ہارنے کے پورے پورے چانسز ہیں۔۔ہمیں آپ کا پتہ چلا تو ہم آپ سے رہنمائ لینے آئے ہیں۔۔کیونکہ آپ کو جامعہ کراچی جیسے بڑے اور عظیم ادارے کا تجربہ ہے
ان کے ان تعریفی کلمات کے بعد ہم پھولے نہی سمارہے تھے کی سارے جہاں میں دھوم ہماری جامعہ کی ہے۔۔
آمدم بر سر مطلب۔۔ہم نے عرض کیا کہ بھائیو، آپ کی ساری باتیں سر آنکھوں پر۔۔مگر ہم پنجاب کی سیاست اور ماحول سے قطعی نابلد ہیں۔۔بلکہ نل بٹا نل ہیں۔۔لیکن انھوں نے ٹلنے کا نام ہی نہ لیااور کہا کہ ہم بہت امید لیکر آئے ہین۔۔بس وہ ہمارے پیروں کو ہاتھ لگانے ہی والے تھے کہ ہمیں راضی ہونا پڑا۔۔کیونکہ ہمارا پیری مریدی کا کوئ ارادہ نہ تھا۔۔
خیر ہم نے کہا کہ کل آپ لوگ ہمیں اپنے کالج کی سیر کرائیں تاکہ ہم خود بنفس نفیس زمینی حقائق کا جائزہ لے سکیں۔غرض دوسرے دن ہم نے کالج کا دورہ کیا اور سب لوگ شام کو ہمارے غریب خانے پر دوبارہ جمع ہوگئے۔۔
سب سے پہلے تو ہم نے ان کو ایک بہت ہی اچھا اور قابل عمل منشور بناکر دیا۔۔اور پینل کے لوگوں کو تقاریر کی تربیت دی۔۔ساتھ ہی ہم نے ان سے مخالفین کی خامیاں اور کمزوریاں معلوم کیں۔۔اور ان معلومات کی بنیاد پر سوالنامے کے انداز میں ایک پمفلٹ بناکر دیا۔۔لہٰزا دوسرے دن وہ منشور اور پمفلٹ ایک ساتھ کالج میں تقسیم ہوئے۔جس سے ایک بھونچال سا آگیا۔۔مخالفین نہ صرف منہ چھپاتے رہے بلکہ صفائیاں بھی پیش کرتے رہے۔۔۔
شام کو دوبارہ سارے لوگ حسب پروگرام ہمارے پاس جمع ہوگئے۔۔ہم نے سارے دن کی رپورٹ لی۔اور کہا کہ جو پمفلٹ مخالفین کے بارے میں تقسیم ہوا ہے۔۔اب یقیناً مخالفین بھی اس کا جواب دیں گے۔۔لہٰزا آپ ہمیں بتائیں کہ ایک ایک نکتے پر مخالفین کا جواب کیا ہوگا۔۔ہم نے مخالفین کے مفروضہ جوابات کو لکھ لیا۔اور اس کی روشنی میں ایک اور پمفلٹ بنایا جوکہ مخالفین کے پمفلٹ کا جواب الجواب تھا۔۔
اب تیسرے دن الیکشن کی صبح حسب توقع مخالفین اپنا پمفلٹ بانٹ رہے تھے اور مزے کی بات کہ ساتھ ہمارا جوابی پمفلٹ بھی تقسیم ہورہا تھا۔اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم نے ان کے پمفلٹ کو سامنے رکھ کر اپنا پمفلٹ بنایا ہے۔۔یہاں تک کہ مخالفین کو کہنا پڑا کہ شاید ہمارا پمفلٹ پرنٹنگ پریس سے لیک آوٹ ہو گیا ہے۔۔ظاہر ہے پانسہ پلٹ چکا تھا اور مزید جواب دینے کا موقع نہ تھا۔۔پولنگ شروع ہوچکی تھی۔۔۔
مخالفین کے کانوں میں ہماری موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی۔۔لہٰزا مخالفین پرنسپل کے پاس شکایت لیکر گئے کہ ان کے امیر کراچی سے آئے ہیں اور الیکشن میں مداخلت کررہے ہیں۔چونکہ دیر ہوچکی تھی اس لیے پرنسپل نے بھی کوئ نوٹس نہ لیا اور پولنگ جاری رہی۔۔شام 5 بجے پولنگ ختم ہوئی اور ایک گھنٹے کے اندر نتائج آگئے۔۔
ظاہر ہے ہمارا پورا پینل بھر پور طریقے سے کامیاب ہوگیا۔۔طلبہ نے نہ صرف جیتنے والے امیدواروں کو کندھوں پر بٹھا کر جلوس نکالا بلکہ اس ناچیز کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔۔پورے کالج میں جشن فتح منایا گیا بلکہ سارا جلوس بعد ازاں ہمارے غریب خانے پر جمع ہوگیا اور سارے ہار پھول ہمارے کمرے مین ٹانگ دئیے۔
اب اگر یہاں گرلز ہوسٹل اور طالبات کے کردار کا زکر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔۔خاص طور پر ہوسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ جو کہ طالبات کی انچارج بھی تھیں۔اکثر رات کو ہمارے ساتھ پورا پینل گرلز ہوسٹل جاتا اور الیکشن مہم چلاتا۔
بحث مباحثہ بھی ہوتا۔۔طالبات کے ساتھ میٹنگز میں الیکشن سے متعلق معاملات زیر بحث آتے اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی ہوتی۔۔
خیر یہ تو ایک اضافی بات تھی۔۔لیکن ہماری دور بین نگاہوں نے ہماری ساتویں حس کو بیدار کردیا تھا۔۔چھٹی حس تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے۔لیکن ساتویں حس کسی کسی کے پاس ہوتی ہے۔ہمیں محسوس ہوا کہ افتخار (صدر یونین) اور طالبات کی انچارج میں کافی ہم آہنگی ہے۔۔نظریات اور خیالات کافی ملتے جلتے ہین۔۔ایسے میں نہ جانے کیوں اللہ نے ہمارے دل میں یہ بات ڈالی کہ اگر یہ دونوں آئندہ عملی زندگی میں بھی ایک ہوجائیں تو اس سے تنظیم و تحریک کے مقاصد کو کافی تقویت مل سکتی ہے۔۔مگر چونکہ یہ معاملات کافی نازک ہوتے ہیں۔۔اس لیے ہم نے کبھی بھی اس کا اشارةً بھی اظہار نہ کیا۔۔۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ جب ہماری کراچی واپسی ہوگئی۔۔سارا میڈیکل کالج ہمیں رخصت کرنے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن آیا۔۔سارے لوگ غمگین تھے ہماری آنکھوں میں بھی آنسو تھے کہ ہم پہلے ہی محبتوں کے مارے لوگ ہیں۔۔۔
لیکن جن محبتوں کا بیج ہم وہاں بو آئے تھے اس کا تقاضا تھا کہ جو بھی کراچی آتا سب سے پہلے ہم سے ملنے آتا۔۔پھر یوں ہوا کہ ڈاکٹر افتخار (جن کا خاندانی بزنس گڈز ٹرانسپورٹ تھا اور جن کے لوڈنگ ٹرک پورے ملک میں چلتے تھے اور ہر بڑے شہر میں ان کا آفس تھا) کراچی آئے اور JPMC میں اسپیشالائزیشن کیلیے شعبہ امراض اطفال میں داخلہ لے لیا۔۔
اس طرح ہماری کراچی میں بھی ملاقاتیں اور محفلیں چلتی رہیں۔۔اسی دوران 1980 میں ہماری شادی ہوگئی جس میں ڈاکٹر افتخار بھی شریک ہوئے۔۔ابھی ہماری شادی کو کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن (1981) ڈاکٹر افتخار نے ہمیں سرپرائز یوں دیا کہ اپنی نئی نویلی بیگم کو لیکر ہمارے گھر آگئے۔۔ہم پر تو جیسے حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔۔کیونکہ ڈاکٹر افتخار کی بیگم کوئ اور نہی وہی خاتون تھیں جو پنجاب میڈیکل کالج میں طالبات کی انچارج تھیں اور ہوسٹل میں رہتی تھیں کیونکہ ان کا گھر لاہور میں تھا۔۔ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اللہ تعالٰی جوڑے آسمانوں پر بناتا ہے۔ہمارے والدین بھی حیات تھے۔وہ بھی بہت خوش ہوئے۔۔ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایک اور محبت مکمل ہوئ۔۔
انہی دنوں کا ذکر ہے ہمارے والد صاحب گر گئے جس کی وجہ سے ان کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔اس موقع پر نہ صرف ڈاکٹر افتخار بلکہ ڈاکٹر تنویر جو ہم جماعت بھی تھے اور سول ہاسپٹل کراچی کے ہڈی وارڈ میں RMO تھے۔۔ ہمارے کام آئے اور دل و جان سے والد صاحب کا علاج کیا یہاں تک کہ والد صاحب دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔
ڈاکٹر تنویر آج کل برطانیہ کے ایک بڑے اسپتال میں ہڈی کے سرجن ہیں اور شعبہ ہڈی کے ہیڈ بھی ہیں۔۔۔
جہاں تک ڈاکٹر افتخار کا تعلق ہے وہ بڑی سیمابی کیفیت اور مزاج رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ 24 گھنٹے میں 48 گھنٹے کا کام کر گزریں۔۔ہر معاملے میں تیزی اور جلد بازی تھی۔۔ایک دفعہ ہم ان کی ہیوی موٹر بائیک پر بیٹھے تو بغیر پڑھے ہی موت کا منظر نظروں میں گھوم گیا۔اور ہمیں کلمہ پڑھنے پر مجبور کردیا۔۔ راکٹ کی رفتار سے بائیک جلاتے تھے۔۔اور بہت ہی خطر ناک انداز میں۔۔لگتا تھا کہ موت کے گولے میں بائیک چلا رہے ہیں۔۔ہم نے فوراً ہی کانوں (اپنے) کو ہاتھ لگایا کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔۔لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔۔
ایک دفعہ فیصل آباد سے لاہور جارہے تھے توگاڑی اتنی تیز چلائ کہ سڑک کے کنارے ایک ٹیلے پر چڑھ دوڑی۔۔کبھی ہم نے انہیں چین سے بیٹھے نہیں دیکھا۔۔
یہاں تک تو راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے اصل ٹرہجڈی تو اب شروع ہوتی ہے۔ یہ 1999 کی بات ہے کہ ڈاکٹر افتخار فیصل آباد کے جس ہسپتال میں کام کرتے تھے ریائش بھی وہیں ملی ہوئی تھی۔۔ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ صبح حسب معمول دوست کے ساتھ گھر سے ہسپتال ڈیوٹی کیلیے روانہ ہوئے۔ اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔۔ساتھ میں ڈاکٹر دوست تھا وہ فوراً ہی معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا اور اسی اسپتال کی ایمرجنسی میں لے گیا جہاں فوراً ہی فرسٹ ایڈ مل گئی۔۔زندگی تو بچ گئی مگر چند لمحوں کیلیے دماغ کو دوران خون رک گیا جس کی وجہ سے ڈاکٹر افتخار تقریباً کومے میں چلے گئے۔۔بیگم بھی ڈاکٹر تھیں۔۔دوست احباب بھی ڈاکٹر تھے۔۔گھر والے بھی ماشاء اللہ مالدار تھے۔۔غرض یہ کہ علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر ہونی کو انہونی کون کرسکتا ہے اس دن سے لیکر تقریباً بیس سال اسی حالت میں گزر گئے۔۔یہاں سے ان کی اہلیہ کا امتحان شروع ہوتا ہے۔۔
نہ صرف ان حالات میں ڈاکٹر افتخار کی دیکھ بھال کی۔۔بلکہ اپنی مزید تعلیم بھی جاری رکھی اور انیستھیزیا / بے ہوشی کی ماہر ڈاکٹر بھی بن گئیں۔۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی فیصل آباد کے ایک بڑے اسپتال سے گریڈ 20 سے ریٹائر ہوئی ہیں۔۔
اس عظیم خاتون نے ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ اپنا گھر بھی چلایا۔۔تین بیٹوں کو تعلیم دلائ۔۔اور ایک بیٹی کو ڈاکٹر بنایا۔۔بیٹی کی شادی کردی اور وہ اب برطانیہ میں ہے۔۔سب سے بڑے اور چھوٹے بیٹے کی بھی شادی کردی۔۔
مگر آزمائش ابھی ختم نہی ہوئی۔۔ 2009 کی بات ہے کہ منجھلا بیٹا اعلی تعلیم کیلیے بنگلہ دیش گیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ہوسٹل میں رہنا شروع کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت آگئی۔۔اس نے چن چن۔کر اسلامی زہن رکھنے والے لوگوں۔۔تحریکوں۔اور۔جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔۔
یہاں تک کہ یونیورسٹی کے غیر ملکی طلبہ کو بھی نہ چھوڑا۔۔یہ بچہ بھی اسلامی زہن رکھتا تھا اور وضع قطع بھی اسلامی تھی۔۔انھوں نے اسے بھی گرفتار کر لیا۔۔وہ دن اور آج کادن تقریباً دس سال ہوگئے۔۔اس کی کوئ خیر خبر نہی۔۔پتہ نہی ظالموں نے شہید کردیا یا اب بھی پابند سلاسل ہے۔۔مگر ایک ماں سے پوچھیں کہ جو اب بھی دروازے پر نظر لگائے کسی موہوم سی امید کے سہارے بیٹھی ہے۔۔
شکر ہے ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک شادی میں شرکت کیلیے لاہور میں مقیم تھے کہ دسمبر 2016 سے جنوری 2017 کے دوران ہمارا پروگرام بن گیا ڈاکٹر افتخار کو دیکھنے کا۔۔ہم فیصل آباد پہنچے تو ڈاکٹر افتخار کے چھوٹے بھائ کو لاری اڈے پر منتظر پایا۔۔اس کے ساتھ ہم ان کے گھر گئے جہاں انہوں نے ہماری پر تکلف دعوت کی۔۔
خیر ہم نے اس سیمابی کیفیت والے ڈاکٹر افتخار کا بھی دیدار کیا۔۔جو بالکل بے سدھ کومے کی حالت میں گزشتہ بیس سال سے پڑے ہوئے تھے۔۔
ہماری آنکھوں میں بیس سال پہلے کا ڈاکٹر افتخار گھوم گیا اور ہم سب اپنے آنسو نہ روک پائے۔۔
شکر ہے انتقال سے پہلے دیدار ہوگیا کچھ ہی عرصے بعد 2018 میں ڈاکٹر افتخار کا بھی انتقال ہوگیا۔۔۔
اسی دوران افتخار کی اہلیہ کی والدہ بیمار ہوکر پیرالائز ہوگئیں۔۔اس خاتون نے اپنی والدہ کی بھی آخری وقت تک دیکھ بھال اور تیمارداری کی۔۔
لیکن سلام و آفرین ہے ڈاکٹر افتخار کی اہلیہ کو کہ نہ صرف گھر چلایا۔۔۔خود مزید تعلیم حاصل کی۔۔بچوں کی اچھی سے اچھی تعلیم وتربیت کی
بلکہ بیس سال تک کومے میں پڑے شوہر کی ہر طرح سے خدمت کی۔۔دس سال سے لا پتہ بیٹے پر صبر کیا۔۔اپنی والدہ کی آخری وقت تک تیمارداری کی۔۔۔
ان تمام۔نا گفتہ بہ حالات۔۔آزمائشوں اور تکالیف کے باوجود اس عظیم خاتون نے نہ صرف صبر کیا بلکہ کبھی پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ زبان پر
کو ئ حرف شکایت۔۔اپنے جزبات کا بھی گلا گھونٹ دیا۔۔۔اور ایک مسلمان اور مشرقی مثالی عورت کی طرح زندگی گزاردی۔۔۔اور محبت۔۔ایثار و قربانی کی ایک عظیم الشان داستان رقم کردی
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ دونوں کو اپنے بچوں سمیت اپنی جنتوں میں یکجا کرے گا اور دنیا کی ساری محرومیوں کا مداوا کرےگا۔۔انشاء اللہ۔۔آمین ثمہ آمین۔

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن میں دھاندلی پر 1977 میں PNA کی ملک گیر تحریک چل رہی تھی جو بعد ازاں تحریک نظام۔مصطفٰے ص میں تبدیل ہوگئی
اسی دوران ہمیں فیصل آباد جانا پڑ گیا اور چند ماہ وہاں قیام رہا۔۔ابھی ضیاءالحق کا مارشل لاء نہیں لگا تھا۔۔5 جولائی 1977 کی شام ہم کچھری بازار کے جاوید ہوٹل میں چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک ہوٹل کے TV پر آواز گونجی۔۔
میرے ہم وطنو۔۔۔یہ مارشل لاء سے متعلق ضیاء الحق کی پہلی تقریر تھی۔جسے سننے کا شرف ہم نے بنفس نفیس حاصل کیا۔۔۔پھر کیا تھا مارشل لاء لگتے ہی ساری صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔۔
فیصل آباد میں قیام کے دوران ہماری بہت سے رہنماوں اور مقامی قیادت سے ملاقاتیں رہیں۔۔جن میں بھائی حافظ سلمان بٹ۔۔ظفر جمال بلوچ اور طفیل احمد ضیاء (امیر فیصل آباد) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ضیاءالحق کے وعدے کے مطابق 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کی تیاریاں جاری تھیں۔سیاسی جلسے شروع ہوچکے تھے۔۔بھٹو صاحب جیل میں تھے۔۔اسی دوران دھوبی گھاٹ جو اب اقبال پارک کہلاتا ہے۔۔PPP نے جلسہ کیا جس سے بے نظیر اور نصرت بھٹو نے خطاب کیا ہم بھی تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔۔
دوسری طرف PNA کی الیکشن مہم بھی شروع ہوگئی۔۔کئی لوگوں نے جو ہمیں جامعہ کراچی کے حوالے سے جانتے تھے۔۔ان جلسوں میں خطاب کیلیے دعوت دی۔۔ظاہر ہے کافی پزیرائی ہوئی۔۔کیونکہ وہاں کے جلسوں اور تقریروں کے انداز میں اور ہمارے جامعہ کراچی کے انداز میں کافی فرق تھا۔۔جس کو لوگوں نے بہت سراہا۔۔کیونکہ یہ ان کے لیے بالکل ہی نیا تجربہ تھا۔۔خیر اس طرح فیصل آباد کے سیاسی حلقوں میں ہماری کافی مشہوری ہوگئی۔۔۔
اسی دوران ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ہم اپنی رہائش گاہ پر تھے کہ اچانک نوجوانوں کا ایک گروپ پہنچ گیا۔۔سلام دعا کے بعد تعرف سے پتہ چلا کہ یہ پنجاب میڈیکل کالج کے طلباء ہیں۔۔جو کہ نیانیا کھلا تھا اور اس کی کلاسیں بھی زرعی یونیورسٹی میں ہی ہورہی تھیں۔۔
اس طلبہ گروپ کو ایک بہت ہی خوبصورت جوان جس کا نام افتخار تھا۔۔لیڈ کررہا تھا۔۔آنکھوں میں مستقبل کے خوبصورت خوابوں کی چمک۔۔ہونٹوں پر ہر دم کھیلتی مسکراہٹ۔۔سرخی مائل گوری رنگت۔۔اور چہرے سے جھلکتی شرارتی زہانت۔
ہم جو پہلے ہی حسن و عشق کے مارے تھے۔دیکھتے ہی دل سے گرویدہ ہوگئے۔۔۔اللہُ جمیل و یحب الجمال۔۔اللہ تعالٰی خود بہت خوبصورت اور حسین ہے اور حسن و جمال کو پسند کرتا ہے۔۔وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ہماری محبت اور دوستی قائم ہے۔۔اب جبکہ افتخار اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔ہمارا تعلق ان کے اہل و عیال اور دیگر رشتہ داروں سے قائم و دائم ہے۔۔
خیر افتخار نے کہا کہ اس نئے نویلے کالج میں وہ پہلا بیج ہیں۔۔اور تین چاردن میں یہاں طلبہ یونین کے پہلے الیکشن ہونے والے ہیں۔اور انہیں ایک طلبہ تنظیم کی طرف سے الیکشن میں کھڑا کیا گیا ہے۔۔اور اس پینل کے صدارتی امیدوار افتخار صاحب ہیں۔پینل کے دیکر لوگوں کا بھی تعارف کرایا گیا
ہم نے کہا کہ ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔۔اور آپ لوگوں نے کیوں زحمت کی ہے۔۔کہنے لگے یہ ہمارا الیکشن کا پہلا تجربہ ہے اور ہمارے مخالفین کافی مضبوط ہیں۔اور ہمارے ہارنے کے پورے پورے چانسز ہیں۔۔ہمیں آپ کا پتہ چلا تو ہم آپ سے رہنمائ لینے آئے ہیں۔۔کیونکہ آپ کو جامعہ کراچی جیسے بڑے اور عظیم ادارے کا تجربہ ہے
ان کے ان تعریفی کلمات کے بعد ہم پھولے نہی سمارہے تھے کی سارے جہاں میں دھوم ہماری جامعہ کی ہے۔۔
آمدم بر سر مطلب۔۔ہم نے عرض کیا کہ بھائیو، آپ کی ساری باتیں سر آنکھوں پر۔۔مگر ہم پنجاب کی سیاست اور ماحول سے قطعی نابلد ہیں۔۔بلکہ نل بٹا نل ہیں۔۔لیکن انھوں نے ٹلنے کا نام ہی نہ لیااور کہا کہ ہم بہت امید لیکر آئے ہین۔۔بس وہ ہمارے پیروں کو ہاتھ لگانے ہی والے تھے کہ ہمیں راضی ہونا پڑا۔۔کیونکہ ہمارا پیری مریدی کا کوئ ارادہ نہ تھا۔۔
خیر ہم نے کہا کہ کل آپ لوگ ہمیں اپنے کالج کی سیر کرائیں تاکہ ہم خود بنفس نفیس زمینی حقائق کا جائزہ لے سکیں۔غرض دوسرے دن ہم نے کالج کا دورہ کیا اور سب لوگ شام کو ہمارے غریب خانے پر دوبارہ جمع ہوگئے۔۔
سب سے پہلے تو ہم نے ان کو ایک بہت ہی اچھا اور قابل عمل منشور بناکر دیا۔۔اور پینل کے لوگوں کو تقاریر کی تربیت دی۔۔ساتھ ہی ہم نے ان سے مخالفین کی خامیاں اور کمزوریاں معلوم کیں۔۔اور ان معلومات کی بنیاد پر سوالنامے کے انداز میں ایک پمفلٹ بناکر دیا۔۔لہٰزا دوسرے دن وہ منشور اور پمفلٹ ایک ساتھ کالج میں تقسیم ہوئے۔جس سے ایک بھونچال سا آگیا۔۔مخالفین نہ صرف منہ چھپاتے رہے بلکہ صفائیاں بھی پیش کرتے رہے۔۔۔
شام کو دوبارہ سارے لوگ حسب پروگرام ہمارے پاس جمع ہوگئے۔۔ہم نے سارے دن کی رپورٹ لی۔اور کہا کہ جو پمفلٹ مخالفین کے بارے میں تقسیم ہوا ہے۔۔اب یقیناً مخالفین بھی اس کا جواب دیں گے۔۔لہٰزا آپ ہمیں بتائیں کہ ایک ایک نکتے پر مخالفین کا جواب کیا ہوگا۔۔ہم نے مخالفین کے مفروضہ جوابات کو لکھ لیا۔اور اس کی روشنی میں ایک اور پمفلٹ بنایا جوکہ مخالفین کے پمفلٹ کا جواب الجواب تھا۔۔
اب تیسرے دن الیکشن کی صبح حسب توقع مخالفین اپنا پمفلٹ بانٹ رہے تھے اور مزے کی بات کہ ساتھ ہمارا جوابی پمفلٹ بھی تقسیم ہورہا تھا۔اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم نے ان کے پمفلٹ کو سامنے رکھ کر اپنا پمفلٹ بنایا ہے۔۔یہاں تک کہ مخالفین کو کہنا پڑا کہ شاید ہمارا پمفلٹ پرنٹنگ پریس سے لیک آوٹ ہو گیا ہے۔۔ظاہر ہے پانسہ پلٹ چکا تھا اور مزید جواب دینے کا موقع نہ تھا۔۔پولنگ شروع ہوچکی تھی۔۔۔
مخالفین کے کانوں میں ہماری موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی۔۔لہٰزا مخالفین پرنسپل کے پاس شکایت لیکر گئے کہ ان کے امیر کراچی سے آئے ہیں اور الیکشن میں مداخلت کررہے ہیں۔چونکہ دیر ہوچکی تھی اس لیے پرنسپل نے بھی کوئ نوٹس نہ لیا اور پولنگ جاری رہی۔۔شام 5 بجے پولنگ ختم ہوئی اور ایک گھنٹے کے اندر نتائج آگئے۔۔
ظاہر ہے ہمارا پورا پینل بھر پور طریقے سے کامیاب ہوگیا۔۔طلبہ نے نہ صرف جیتنے والے امیدواروں کو کندھوں پر بٹھا کر جلوس نکالا بلکہ اس ناچیز کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔۔پورے کالج میں جشن فتح منایا گیا بلکہ سارا جلوس بعد ازاں ہمارے غریب خانے پر جمع ہوگیا اور سارے ہار پھول ہمارے کمرے مین ٹانگ دئیے۔
اب اگر یہاں گرلز ہوسٹل اور طالبات کے کردار کا زکر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔۔خاص طور پر ہوسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ جو کہ طالبات کی انچارج بھی تھیں۔اکثر رات کو ہمارے ساتھ پورا پینل گرلز ہوسٹل جاتا اور الیکشن مہم چلاتا۔
بحث مباحثہ بھی ہوتا۔۔طالبات کے ساتھ میٹنگز میں الیکشن سے متعلق معاملات زیر بحث آتے اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی ہوتی۔۔
خیر یہ تو ایک اضافی بات تھی۔۔لیکن ہماری دور بین نگاہوں نے ہماری ساتویں حس کو بیدار کردیا تھا۔۔چھٹی حس تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے۔لیکن ساتویں حس کسی کسی کے پاس ہوتی ہے۔ہمیں محسوس ہوا کہ افتخار (صدر یونین) اور طالبات کی انچارج میں کافی ہم آہنگی ہے۔۔نظریات اور خیالات کافی ملتے جلتے ہین۔۔ایسے میں نہ جانے کیوں اللہ نے ہمارے دل میں یہ بات ڈالی کہ اگر یہ دونوں آئندہ عملی زندگی میں بھی ایک ہوجائیں تو اس سے تنظیم و تحریک کے مقاصد کو کافی تقویت مل سکتی ہے۔۔مگر چونکہ یہ معاملات کافی نازک ہوتے ہیں۔۔اس لیے ہم نے کبھی بھی اس کا اشارةً بھی اظہار نہ کیا۔۔۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ جب ہماری کراچی واپسی ہوگئی۔۔سارا میڈیکل کالج ہمیں رخصت کرنے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن آیا۔۔سارے لوگ غمگین تھے ہماری آنکھوں میں بھی آنسو تھے کہ ہم پہلے ہی محبتوں کے مارے لوگ ہیں۔۔۔
لیکن جن محبتوں کا بیج ہم وہاں بو آئے تھے اس کا تقاضا تھا کہ جو بھی کراچی آتا سب سے پہلے ہم سے ملنے آتا۔۔پھر یوں ہوا کہ ڈاکٹر افتخار (جن کا خاندانی بزنس گڈز ٹرانسپورٹ تھا اور جن کے لوڈنگ ٹرک پورے ملک میں چلتے تھے اور ہر بڑے شہر میں ان کا آفس تھا) کراچی آئے اور JPMC میں اسپیشالائزیشن کیلیے شعبہ امراض اطفال میں داخلہ لے لیا۔۔
اس طرح ہماری کراچی میں بھی ملاقاتیں اور محفلیں چلتی رہیں۔۔اسی دوران 1980 میں ہماری شادی ہوگئی جس میں ڈاکٹر افتخار بھی شریک ہوئے۔۔ابھی ہماری شادی کو کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن (1981) ڈاکٹر افتخار نے ہمیں سرپرائز یوں دیا کہ اپنی نئی نویلی بیگم کو لیکر ہمارے گھر آگئے۔۔ہم پر تو جیسے حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔۔کیونکہ ڈاکٹر افتخار کی بیگم کوئ اور نہی وہی خاتون تھیں جو پنجاب میڈیکل کالج میں طالبات کی انچارج تھیں اور ہوسٹل میں رہتی تھیں کیونکہ ان کا گھر لاہور میں تھا۔۔ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اللہ تعالٰی جوڑے آسمانوں پر بناتا ہے۔ہمارے والدین بھی حیات تھے۔وہ بھی بہت خوش ہوئے۔۔ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایک اور محبت مکمل ہوئ۔۔
انہی دنوں کا ذکر ہے ہمارے والد صاحب گر گئے جس کی وجہ سے ان کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔اس موقع پر نہ صرف ڈاکٹر افتخار بلکہ ڈاکٹر تنویر جو ہم جماعت بھی تھے اور سول ہاسپٹل کراچی کے ہڈی وارڈ میں RMO تھے۔۔ ہمارے کام آئے اور دل و جان سے والد صاحب کا علاج کیا یہاں تک کہ والد صاحب دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔
ڈاکٹر تنویر آج کل برطانیہ کے ایک بڑے اسپتال میں ہڈی کے سرجن ہیں اور شعبہ ہڈی کے ہیڈ بھی ہیں۔۔۔
جہاں تک ڈاکٹر افتخار کا تعلق ہے وہ بڑی سیمابی کیفیت اور مزاج رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ 24 گھنٹے میں 48 گھنٹے کا کام کر گزریں۔۔ہر معاملے میں تیزی اور جلد بازی تھی۔۔ایک دفعہ ہم ان کی ہیوی موٹر بائیک پر بیٹھے تو بغیر پڑھے ہی موت کا منظر نظروں میں گھوم گیا۔اور ہمیں کلمہ پڑھنے پر مجبور کردیا۔۔ راکٹ کی رفتار سے بائیک جلاتے تھے۔۔اور بہت ہی خطر ناک انداز میں۔۔لگتا تھا کہ موت کے گولے میں بائیک چلا رہے ہیں۔۔ہم نے فوراً ہی کانوں (اپنے) کو ہاتھ لگایا کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔۔لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔۔
ایک دفعہ فیصل آباد سے لاہور جارہے تھے توگاڑی اتنی تیز چلائ کہ سڑک کے کنارے ایک ٹیلے پر چڑھ دوڑی۔۔کبھی ہم نے انہیں چین سے بیٹھے نہیں دیکھا۔۔
یہاں تک تو راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے اصل ٹرہجڈی تو اب شروع ہوتی ہے۔ یہ 1999 کی بات ہے کہ ڈاکٹر افتخار فیصل آباد کے جس ہسپتال میں کام کرتے تھے ریائش بھی وہیں ملی ہوئی تھی۔۔ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ صبح حسب معمول دوست کے ساتھ گھر سے ہسپتال ڈیوٹی کیلیے روانہ ہوئے۔ اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔۔ساتھ میں ڈاکٹر دوست تھا وہ فوراً ہی معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا اور اسی اسپتال کی ایمرجنسی میں لے گیا جہاں فوراً ہی فرسٹ ایڈ مل گئی۔۔زندگی تو بچ گئی مگر چند لمحوں کیلیے دماغ کو دوران خون رک گیا جس کی وجہ سے ڈاکٹر افتخار تقریباً کومے میں چلے گئے۔۔بیگم بھی ڈاکٹر تھیں۔۔دوست احباب بھی ڈاکٹر تھے۔۔گھر والے بھی ماشاء اللہ مالدار تھے۔۔غرض یہ کہ علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر ہونی کو انہونی کون کرسکتا ہے اس دن سے لیکر تقریباً بیس سال اسی حالت میں گزر گئے۔۔یہاں سے ان کی اہلیہ کا امتحان شروع ہوتا ہے۔۔
نہ صرف ان حالات میں ڈاکٹر افتخار کی دیکھ بھال کی۔۔بلکہ اپنی مزید تعلیم بھی جاری رکھی اور انیستھیزیا / بے ہوشی کی ماہر ڈاکٹر بھی بن گئیں۔۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی فیصل آباد کے ایک بڑے اسپتال سے گریڈ 20 سے ریٹائر ہوئی ہیں۔۔
اس عظیم خاتون نے ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ اپنا گھر بھی چلایا۔۔تین بیٹوں کو تعلیم دلائ۔۔اور ایک بیٹی کو ڈاکٹر بنایا۔۔بیٹی کی شادی کردی اور وہ اب برطانیہ میں ہے۔۔سب سے بڑے اور چھوٹے بیٹے کی بھی شادی کردی۔۔
مگر آزمائش ابھی ختم نہی ہوئی۔۔ 2009 کی بات ہے کہ منجھلا بیٹا اعلی تعلیم کیلیے بنگلہ دیش گیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ہوسٹل میں رہنا شروع کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت آگئی۔۔اس نے چن چن۔کر اسلامی زہن رکھنے والے لوگوں۔۔تحریکوں۔اور۔جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔۔
یہاں تک کہ یونیورسٹی کے غیر ملکی طلبہ کو بھی نہ چھوڑا۔۔یہ بچہ بھی اسلامی زہن رکھتا تھا اور وضع قطع بھی اسلامی تھی۔۔انھوں نے اسے بھی گرفتار کر لیا۔۔وہ دن اور آج کادن تقریباً دس سال ہوگئے۔۔اس کی کوئ خیر خبر نہی۔۔پتہ نہی ظالموں نے شہید کردیا یا اب بھی پابند سلاسل ہے۔۔مگر ایک ماں سے پوچھیں کہ جو اب بھی دروازے پر نظر لگائے کسی موہوم سی امید کے سہارے بیٹھی ہے۔۔
شکر ہے ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک شادی میں شرکت کیلیے لاہور میں مقیم تھے کہ دسمبر 2016 سے جنوری 2017 کے دوران ہمارا پروگرام بن گیا ڈاکٹر افتخار کو دیکھنے کا۔۔ہم فیصل آباد پہنچے تو ڈاکٹر افتخار کے چھوٹے بھائ کو لاری اڈے پر منتظر پایا۔۔اس کے ساتھ ہم ان کے گھر گئے جہاں انہوں نے ہماری پر تکلف دعوت کی۔۔
خیر ہم نے اس سیمابی کیفیت والے ڈاکٹر افتخار کا بھی دیدار کیا۔۔جو بالکل بے سدھ کومے کی حالت میں گزشتہ بیس سال سے پڑے ہوئے تھے۔۔
ہماری آنکھوں میں بیس سال پہلے کا ڈاکٹر افتخار گھوم گیا اور ہم سب اپنے آنسو نہ روک پائے۔۔
شکر ہے انتقال سے پہلے دیدار ہوگیا کچھ ہی عرصے بعد 2018 میں ڈاکٹر افتخار کا بھی انتقال ہوگیا۔۔۔
اسی دوران افتخار کی اہلیہ کی والدہ بیمار ہوکر پیرالائز ہوگئیں۔۔اس خاتون نے اپنی والدہ کی بھی آخری وقت تک دیکھ بھال اور تیمارداری کی۔۔
لیکن سلام و آفرین ہے ڈاکٹر افتخار کی اہلیہ کو کہ نہ صرف گھر چلایا۔۔۔خود مزید تعلیم حاصل کی۔۔بچوں کی اچھی سے اچھی تعلیم وتربیت کی
بلکہ بیس سال تک کومے میں پڑے شوہر کی ہر طرح سے خدمت کی۔۔دس سال سے لا پتہ بیٹے پر صبر کیا۔۔اپنی والدہ کی آخری وقت تک تیمارداری کی۔۔۔
ان تمام۔نا گفتہ بہ حالات۔۔آزمائشوں اور تکالیف کے باوجود اس عظیم خاتون نے نہ صرف صبر کیا بلکہ کبھی پیشانی پر بل نہی آیا اور نہ زبان پر
کو ئ حرف شکایت۔۔اپنے جزبات کا بھی گلا گھونٹ دیا۔۔۔اور ایک مسلمان اور مشرقی مثالی عورت کی طرح زندگی گزاردی۔۔۔اور محبت۔۔ایثار و قربانی کی ایک عظیم الشان داستان رقم کردی
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ دونوں کو اپنے بچوں سمیت اپنی جنتوں میں یکجا کرے گا اور دنیا کی ساری محرومیوں کا مداوا کرےگا۔۔انشاء اللہ۔۔آمین ثمہ آمین۔