Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میرے سوال پر پہلے تو Ben ہچکچایا اور پھر اس نے کہا کہ یہاں کام زیادہ ھے اور پیسے اس کے حساب سے کم ہیں۔اس نے مزید کہا کہ اسٹاف کے ساتھ مینیجر کا رویہ بھی ٹھیک نہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سب کے سامنے بے عزتی کر دیتا ھے۔ خود کچھ نہیں کرتا۔ ہر وقت دوسروں پر حکم چلاتا رہتا ھے۔ پورا اسٹاف اس سے تنگ ھے۔ سب لوگ یہاں کی job چھوڑنا چاہتے ھیں۔ میں نے تم کو guide کر دیا ھے باقی تمھاری مرضی۔
میں Ben کی گاڑی سے اتر کر ٹرین میں سوار ھوا۔ اور Ben کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ گھر پہنچا تو سر یش اور نرملا نے آج کے دن کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انھیں بتا دیا کہ میں نے job کو finalise کر دیا ھے۔ چند دنوں میں ہی میں اچھا خاصا کام سیکھ چکا تھا اور اب میں کسی بھی کام کے لیے Ben کا محتاج نہیں تھا۔ میرے کام سے مینیجر اور اسسٹنٹ مینیجر اتنے خوش ھوۓ کہ مجھے ریسٹورنٹ کی چابی دے دی گئ۔ اب ریسٹورنٹ کھولنا میری ذمہ داری تھی۔
میں اپنی job سے کافی مطمئن تھا۔
اب میرے سامنے دو مسائل تھے۔ ایک میری پڑھائی اور دوسری میری رہائش۔ کیونکہ میں زیادہ دنوں تک سریش فیملی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا۔
اچھی بات یہ تھی کہ جس کالج میں سیشا پرشاد نے میرا انرولمنٹ کروایا تھا وہ ہفتہ کے دن بھی کھلتا تھا۔اور ہفتہ کے دن میرے ریسٹورنٹ کی چھٹی ھوتی تھی۔
چند دنوں بعد میری ملاقات ٹرین میں ایک پاکستانی لڑکے سے ھوئی۔ اس نے بتایا کہ لوگ اسے گوگی کہتے ہیں لیکن اس کا اصل نام ذوالفقار ھے۔ جب اس سے رہائش کے بارے میں بات چیت ھوئی تو اس نے بتایا کہ تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں وہ اور اس کا ایک اور دوست رہتے ہیں اور انھیں ایک اور شخص کی تلاش ھے جو ان کے ساتھ اپارٹمنٹ کو شیئرکر سکے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے فون نمبرز دے دیے۔
رفتہ رفتہ Ben کا کردار کھلنے لگا۔ دراصل Ben کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ چوری چھپے ریسٹورنٹ کی چیزیں کھاتا تھا۔ مینیجر کے لیےاس کو پکڑنا کافی مشکل کام تھا۔ کیونکہ مینیجر اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتا۔ کچن میں ہر جگہ کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں۔ Ben کو جب بھی موقع ملتا وہ اپنا ہاتھ دکھا دیتا۔ ایک دفعہ میں نے Ben کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ میں نے Ben کو کہا کہ میں تمھاری شکایت مینیجر سے کرتا ھوں تو اس نے میری منت سماجت کرنا شروع کر دی۔ بلکہ کہا کہ ایک deal کر لو میری شکایت مت کرو میں روزانہ تمھیں اسٹیشن پر drop کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ھے۔ تم آئندہ چوری چھپے کچھ نہیں کھاؤگے اور مجھے روزانہ اسٹیشن پر drop کرو گے۔
اب میرے ذہن میں Ben کی وہ تمام باتیں آگئیں جو اس نے مجھ سے مینیجر کے خلاف کی تھیں۔ اور مجھے ریسٹورنٹ میں جاب کرنے سے منع کیا تھا۔
میں ریسٹورنٹ میں جاب کر رہا تھا لیکن میں وہاں سے کچھ کھا نہیں سکتا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والاتیل تھا۔ اس تیل میں سؤر کی چربی شامل ھوتی تھی۔ اور ہر چیز اس تیل میں تلی ھوتی تھی۔
دوسری وجہ جھٹکے کا گوشت تھا۔ یعنی ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والی مرغیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح نہیں کیا جاتا تھا۔
میں لنچ ٹائم میں روزانہ چاۓ اور بسکٹ پر گزارا کرتا۔ ریسٹورنٹ کا اسٹاف پوچھتا کہ میں وہاں کی چیزیں کیوں نہیں کھاتا۔ ان لوگوں کو حلال اور حرام کا فرق سمجھانا کافی مشکل تھا۔ مینیجر مجھ سے زیادہ مطمئن اس لیے بھی تھا کہ میں کم از کم چوری چھپے کچھ کھاتا نہیں ھوں گا۔ کیونکہ وہ سب کچھ میرے لیے حرام تھا۔
مینیجر نے مجھے اس دن سے اور بھی زیادہ عزت دینا شروع کی جس دن سے میں نے اس کی فنانس کے اسائنمنٹ میں مدد کرنا شروع کی۔ ایک دن میں مینیجر سے کچھ پوچھنے جب اس کے آفس میں گیا تو اس کی فنانس الجبرا کے سوالات حل کر رہی تھی۔ میں نے اس سے اس کے کورسز اور ٹاپکس کے بارے میں پوچھا۔ یہ ٹاپکس ھمارے سال اول او ر سال دوم کے ٹاپکس سے مطابقت رکھتے تھے۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ اگر کبھی مدد کی ضرورت ھو تو پوچھ لینا۔ اس کے بعد اکثر وہ مجھ سے حساب کے سوالات حل کرنے میں مدد لیتی۔ اور یوں میں kitchen hand کے ساتھ ساتھ tutoring کا کام بھی کرتا۔ اس کے عوض میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود مینیجر مجھے ice cream یا drinks لا کر دیتا۔
دوسری طرف حساب کتاب maintain کرنے میں اسسٹنٹ مینیجر بھی کبھی کبھار میری مدد لے لیتا۔ روزانہ یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ کل sale کتنے ڈالرز کی تھی۔ تمام سامان کی cost کیا تھی۔ اور یوں روزانہ کی بنیادوں پر منافع کی شرح دیکھی جاتی تھی۔
اب میری یہ job خاص دلچسپ ھو گئ تھی۔ اور مجھے کچن میں آویزاں بورڈ کو دیکھنے کی ضرورت بھی نہ ھوتی تھی۔ اب ہر کام آسان لگنے لگا۔ کچن کے کام، ٹیوشن اور ریسٹورنٹ کا حساب کتاب۔
آج گوگی کی دوسری دفعہ کال آئ۔اور اس نے پھر share accomodation کی پیشکش کی اور کہا کہ ان کو ایک اور پاکستانی لڑکے نے ساتھ رہنے کا کہا ھے۔ اس لیے میں ان کو فائنل کر دوں۔میں نے اس سے اس کے اپارٹمنٹ کا مکمل پتہ پوچھا اور ملاقات کا وقت ، دن اور جگہ کا طےکر لیا۔ ( جاری ھے )
میرے سوال پر پہلے تو Ben ہچکچایا اور پھر اس نے کہا کہ یہاں کام زیادہ ھے اور پیسے اس کے حساب سے کم ہیں۔اس نے مزید کہا کہ اسٹاف کے ساتھ مینیجر کا رویہ بھی ٹھیک نہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سب کے سامنے بے عزتی کر دیتا ھے۔ خود کچھ نہیں کرتا۔ ہر وقت دوسروں پر حکم چلاتا رہتا ھے۔ پورا اسٹاف اس سے تنگ ھے۔ سب لوگ یہاں کی job چھوڑنا چاہتے ھیں۔ میں نے تم کو guide کر دیا ھے باقی تمھاری مرضی۔
میں Ben کی گاڑی سے اتر کر ٹرین میں سوار ھوا۔ اور Ben کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ گھر پہنچا تو سر یش اور نرملا نے آج کے دن کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انھیں بتا دیا کہ میں نے job کو finalise کر دیا ھے۔ چند دنوں میں ہی میں اچھا خاصا کام سیکھ چکا تھا اور اب میں کسی بھی کام کے لیے Ben کا محتاج نہیں تھا۔ میرے کام سے مینیجر اور اسسٹنٹ مینیجر اتنے خوش ھوۓ کہ مجھے ریسٹورنٹ کی چابی دے دی گئ۔ اب ریسٹورنٹ کھولنا میری ذمہ داری تھی۔
میں اپنی job سے کافی مطمئن تھا۔
اب میرے سامنے دو مسائل تھے۔ ایک میری پڑھائی اور دوسری میری رہائش۔ کیونکہ میں زیادہ دنوں تک سریش فیملی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا۔
اچھی بات یہ تھی کہ جس کالج میں سیشا پرشاد نے میرا انرولمنٹ کروایا تھا وہ ہفتہ کے دن بھی کھلتا تھا۔اور ہفتہ کے دن میرے ریسٹورنٹ کی چھٹی ھوتی تھی۔
چند دنوں بعد میری ملاقات ٹرین میں ایک پاکستانی لڑکے سے ھوئی۔ اس نے بتایا کہ لوگ اسے گوگی کہتے ہیں لیکن اس کا اصل نام ذوالفقار ھے۔ جب اس سے رہائش کے بارے میں بات چیت ھوئی تو اس نے بتایا کہ تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں وہ اور اس کا ایک اور دوست رہتے ہیں اور انھیں ایک اور شخص کی تلاش ھے جو ان کے ساتھ اپارٹمنٹ کو شیئرکر سکے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے فون نمبرز دے دیے۔
رفتہ رفتہ Ben کا کردار کھلنے لگا۔ دراصل Ben کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ چوری چھپے ریسٹورنٹ کی چیزیں کھاتا تھا۔ مینیجر کے لیےاس کو پکڑنا کافی مشکل کام تھا۔ کیونکہ مینیجر اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتا۔ کچن میں ہر جگہ کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں۔ Ben کو جب بھی موقع ملتا وہ اپنا ہاتھ دکھا دیتا۔ ایک دفعہ میں نے Ben کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ میں نے Ben کو کہا کہ میں تمھاری شکایت مینیجر سے کرتا ھوں تو اس نے میری منت سماجت کرنا شروع کر دی۔ بلکہ کہا کہ ایک deal کر لو میری شکایت مت کرو میں روزانہ تمھیں اسٹیشن پر drop کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ھے۔ تم آئندہ چوری چھپے کچھ نہیں کھاؤگے اور مجھے روزانہ اسٹیشن پر drop کرو گے۔
اب میرے ذہن میں Ben کی وہ تمام باتیں آگئیں جو اس نے مجھ سے مینیجر کے خلاف کی تھیں۔ اور مجھے ریسٹورنٹ میں جاب کرنے سے منع کیا تھا۔
میں ریسٹورنٹ میں جاب کر رہا تھا لیکن میں وہاں سے کچھ کھا نہیں سکتا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والاتیل تھا۔ اس تیل میں سؤر کی چربی شامل ھوتی تھی۔ اور ہر چیز اس تیل میں تلی ھوتی تھی۔
دوسری وجہ جھٹکے کا گوشت تھا۔ یعنی ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والی مرغیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح نہیں کیا جاتا تھا۔
میں لنچ ٹائم میں روزانہ چاۓ اور بسکٹ پر گزارا کرتا۔ ریسٹورنٹ کا اسٹاف پوچھتا کہ میں وہاں کی چیزیں کیوں نہیں کھاتا۔ ان لوگوں کو حلال اور حرام کا فرق سمجھانا کافی مشکل تھا۔ مینیجر مجھ سے زیادہ مطمئن اس لیے بھی تھا کہ میں کم از کم چوری چھپے کچھ کھاتا نہیں ھوں گا۔ کیونکہ وہ سب کچھ میرے لیے حرام تھا۔
مینیجر نے مجھے اس دن سے اور بھی زیادہ عزت دینا شروع کی جس دن سے میں نے اس کی فنانس کے اسائنمنٹ میں مدد کرنا شروع کی۔ ایک دن میں مینیجر سے کچھ پوچھنے جب اس کے آفس میں گیا تو اس کی فنانس الجبرا کے سوالات حل کر رہی تھی۔ میں نے اس سے اس کے کورسز اور ٹاپکس کے بارے میں پوچھا۔ یہ ٹاپکس ھمارے سال اول او ر سال دوم کے ٹاپکس سے مطابقت رکھتے تھے۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ اگر کبھی مدد کی ضرورت ھو تو پوچھ لینا۔ اس کے بعد اکثر وہ مجھ سے حساب کے سوالات حل کرنے میں مدد لیتی۔ اور یوں میں kitchen hand کے ساتھ ساتھ tutoring کا کام بھی کرتا۔ اس کے عوض میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود مینیجر مجھے ice cream یا drinks لا کر دیتا۔
دوسری طرف حساب کتاب maintain کرنے میں اسسٹنٹ مینیجر بھی کبھی کبھار میری مدد لے لیتا۔ روزانہ یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ کل sale کتنے ڈالرز کی تھی۔ تمام سامان کی cost کیا تھی۔ اور یوں روزانہ کی بنیادوں پر منافع کی شرح دیکھی جاتی تھی۔
اب میری یہ job خاص دلچسپ ھو گئ تھی۔ اور مجھے کچن میں آویزاں بورڈ کو دیکھنے کی ضرورت بھی نہ ھوتی تھی۔ اب ہر کام آسان لگنے لگا۔ کچن کے کام، ٹیوشن اور ریسٹورنٹ کا حساب کتاب۔
آج گوگی کی دوسری دفعہ کال آئ۔اور اس نے پھر share accomodation کی پیشکش کی اور کہا کہ ان کو ایک اور پاکستانی لڑکے نے ساتھ رہنے کا کہا ھے۔ اس لیے میں ان کو فائنل کر دوں۔میں نے اس سے اس کے اپارٹمنٹ کا مکمل پتہ پوچھا اور ملاقات کا وقت ، دن اور جگہ کا طےکر لیا۔ ( جاری ھے )
میرے سوال پر پہلے تو Ben ہچکچایا اور پھر اس نے کہا کہ یہاں کام زیادہ ھے اور پیسے اس کے حساب سے کم ہیں۔اس نے مزید کہا کہ اسٹاف کے ساتھ مینیجر کا رویہ بھی ٹھیک نہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سب کے سامنے بے عزتی کر دیتا ھے۔ خود کچھ نہیں کرتا۔ ہر وقت دوسروں پر حکم چلاتا رہتا ھے۔ پورا اسٹاف اس سے تنگ ھے۔ سب لوگ یہاں کی job چھوڑنا چاہتے ھیں۔ میں نے تم کو guide کر دیا ھے باقی تمھاری مرضی۔
میں Ben کی گاڑی سے اتر کر ٹرین میں سوار ھوا۔ اور Ben کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ گھر پہنچا تو سر یش اور نرملا نے آج کے دن کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انھیں بتا دیا کہ میں نے job کو finalise کر دیا ھے۔ چند دنوں میں ہی میں اچھا خاصا کام سیکھ چکا تھا اور اب میں کسی بھی کام کے لیے Ben کا محتاج نہیں تھا۔ میرے کام سے مینیجر اور اسسٹنٹ مینیجر اتنے خوش ھوۓ کہ مجھے ریسٹورنٹ کی چابی دے دی گئ۔ اب ریسٹورنٹ کھولنا میری ذمہ داری تھی۔
میں اپنی job سے کافی مطمئن تھا۔
اب میرے سامنے دو مسائل تھے۔ ایک میری پڑھائی اور دوسری میری رہائش۔ کیونکہ میں زیادہ دنوں تک سریش فیملی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا۔
اچھی بات یہ تھی کہ جس کالج میں سیشا پرشاد نے میرا انرولمنٹ کروایا تھا وہ ہفتہ کے دن بھی کھلتا تھا۔اور ہفتہ کے دن میرے ریسٹورنٹ کی چھٹی ھوتی تھی۔
چند دنوں بعد میری ملاقات ٹرین میں ایک پاکستانی لڑکے سے ھوئی۔ اس نے بتایا کہ لوگ اسے گوگی کہتے ہیں لیکن اس کا اصل نام ذوالفقار ھے۔ جب اس سے رہائش کے بارے میں بات چیت ھوئی تو اس نے بتایا کہ تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں وہ اور اس کا ایک اور دوست رہتے ہیں اور انھیں ایک اور شخص کی تلاش ھے جو ان کے ساتھ اپارٹمنٹ کو شیئرکر سکے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے فون نمبرز دے دیے۔
رفتہ رفتہ Ben کا کردار کھلنے لگا۔ دراصل Ben کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ چوری چھپے ریسٹورنٹ کی چیزیں کھاتا تھا۔ مینیجر کے لیےاس کو پکڑنا کافی مشکل کام تھا۔ کیونکہ مینیجر اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتا۔ کچن میں ہر جگہ کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں۔ Ben کو جب بھی موقع ملتا وہ اپنا ہاتھ دکھا دیتا۔ ایک دفعہ میں نے Ben کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ میں نے Ben کو کہا کہ میں تمھاری شکایت مینیجر سے کرتا ھوں تو اس نے میری منت سماجت کرنا شروع کر دی۔ بلکہ کہا کہ ایک deal کر لو میری شکایت مت کرو میں روزانہ تمھیں اسٹیشن پر drop کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ھے۔ تم آئندہ چوری چھپے کچھ نہیں کھاؤگے اور مجھے روزانہ اسٹیشن پر drop کرو گے۔
اب میرے ذہن میں Ben کی وہ تمام باتیں آگئیں جو اس نے مجھ سے مینیجر کے خلاف کی تھیں۔ اور مجھے ریسٹورنٹ میں جاب کرنے سے منع کیا تھا۔
میں ریسٹورنٹ میں جاب کر رہا تھا لیکن میں وہاں سے کچھ کھا نہیں سکتا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والاتیل تھا۔ اس تیل میں سؤر کی چربی شامل ھوتی تھی۔ اور ہر چیز اس تیل میں تلی ھوتی تھی۔
دوسری وجہ جھٹکے کا گوشت تھا۔ یعنی ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والی مرغیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح نہیں کیا جاتا تھا۔
میں لنچ ٹائم میں روزانہ چاۓ اور بسکٹ پر گزارا کرتا۔ ریسٹورنٹ کا اسٹاف پوچھتا کہ میں وہاں کی چیزیں کیوں نہیں کھاتا۔ ان لوگوں کو حلال اور حرام کا فرق سمجھانا کافی مشکل تھا۔ مینیجر مجھ سے زیادہ مطمئن اس لیے بھی تھا کہ میں کم از کم چوری چھپے کچھ کھاتا نہیں ھوں گا۔ کیونکہ وہ سب کچھ میرے لیے حرام تھا۔
مینیجر نے مجھے اس دن سے اور بھی زیادہ عزت دینا شروع کی جس دن سے میں نے اس کی فنانس کے اسائنمنٹ میں مدد کرنا شروع کی۔ ایک دن میں مینیجر سے کچھ پوچھنے جب اس کے آفس میں گیا تو اس کی فنانس الجبرا کے سوالات حل کر رہی تھی۔ میں نے اس سے اس کے کورسز اور ٹاپکس کے بارے میں پوچھا۔ یہ ٹاپکس ھمارے سال اول او ر سال دوم کے ٹاپکس سے مطابقت رکھتے تھے۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ اگر کبھی مدد کی ضرورت ھو تو پوچھ لینا۔ اس کے بعد اکثر وہ مجھ سے حساب کے سوالات حل کرنے میں مدد لیتی۔ اور یوں میں kitchen hand کے ساتھ ساتھ tutoring کا کام بھی کرتا۔ اس کے عوض میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود مینیجر مجھے ice cream یا drinks لا کر دیتا۔
دوسری طرف حساب کتاب maintain کرنے میں اسسٹنٹ مینیجر بھی کبھی کبھار میری مدد لے لیتا۔ روزانہ یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ کل sale کتنے ڈالرز کی تھی۔ تمام سامان کی cost کیا تھی۔ اور یوں روزانہ کی بنیادوں پر منافع کی شرح دیکھی جاتی تھی۔
اب میری یہ job خاص دلچسپ ھو گئ تھی۔ اور مجھے کچن میں آویزاں بورڈ کو دیکھنے کی ضرورت بھی نہ ھوتی تھی۔ اب ہر کام آسان لگنے لگا۔ کچن کے کام، ٹیوشن اور ریسٹورنٹ کا حساب کتاب۔
آج گوگی کی دوسری دفعہ کال آئ۔اور اس نے پھر share accomodation کی پیشکش کی اور کہا کہ ان کو ایک اور پاکستانی لڑکے نے ساتھ رہنے کا کہا ھے۔ اس لیے میں ان کو فائنل کر دوں۔میں نے اس سے اس کے اپارٹمنٹ کا مکمل پتہ پوچھا اور ملاقات کا وقت ، دن اور جگہ کا طےکر لیا۔ ( جاری ھے )
میرے سوال پر پہلے تو Ben ہچکچایا اور پھر اس نے کہا کہ یہاں کام زیادہ ھے اور پیسے اس کے حساب سے کم ہیں۔اس نے مزید کہا کہ اسٹاف کے ساتھ مینیجر کا رویہ بھی ٹھیک نہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سب کے سامنے بے عزتی کر دیتا ھے۔ خود کچھ نہیں کرتا۔ ہر وقت دوسروں پر حکم چلاتا رہتا ھے۔ پورا اسٹاف اس سے تنگ ھے۔ سب لوگ یہاں کی job چھوڑنا چاہتے ھیں۔ میں نے تم کو guide کر دیا ھے باقی تمھاری مرضی۔
میں Ben کی گاڑی سے اتر کر ٹرین میں سوار ھوا۔ اور Ben کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ گھر پہنچا تو سر یش اور نرملا نے آج کے دن کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انھیں بتا دیا کہ میں نے job کو finalise کر دیا ھے۔ چند دنوں میں ہی میں اچھا خاصا کام سیکھ چکا تھا اور اب میں کسی بھی کام کے لیے Ben کا محتاج نہیں تھا۔ میرے کام سے مینیجر اور اسسٹنٹ مینیجر اتنے خوش ھوۓ کہ مجھے ریسٹورنٹ کی چابی دے دی گئ۔ اب ریسٹورنٹ کھولنا میری ذمہ داری تھی۔
میں اپنی job سے کافی مطمئن تھا۔
اب میرے سامنے دو مسائل تھے۔ ایک میری پڑھائی اور دوسری میری رہائش۔ کیونکہ میں زیادہ دنوں تک سریش فیملی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا۔
اچھی بات یہ تھی کہ جس کالج میں سیشا پرشاد نے میرا انرولمنٹ کروایا تھا وہ ہفتہ کے دن بھی کھلتا تھا۔اور ہفتہ کے دن میرے ریسٹورنٹ کی چھٹی ھوتی تھی۔
چند دنوں بعد میری ملاقات ٹرین میں ایک پاکستانی لڑکے سے ھوئی۔ اس نے بتایا کہ لوگ اسے گوگی کہتے ہیں لیکن اس کا اصل نام ذوالفقار ھے۔ جب اس سے رہائش کے بارے میں بات چیت ھوئی تو اس نے بتایا کہ تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں وہ اور اس کا ایک اور دوست رہتے ہیں اور انھیں ایک اور شخص کی تلاش ھے جو ان کے ساتھ اپارٹمنٹ کو شیئرکر سکے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے فون نمبرز دے دیے۔
رفتہ رفتہ Ben کا کردار کھلنے لگا۔ دراصل Ben کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ چوری چھپے ریسٹورنٹ کی چیزیں کھاتا تھا۔ مینیجر کے لیےاس کو پکڑنا کافی مشکل کام تھا۔ کیونکہ مینیجر اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتا۔ کچن میں ہر جگہ کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں۔ Ben کو جب بھی موقع ملتا وہ اپنا ہاتھ دکھا دیتا۔ ایک دفعہ میں نے Ben کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ میں نے Ben کو کہا کہ میں تمھاری شکایت مینیجر سے کرتا ھوں تو اس نے میری منت سماجت کرنا شروع کر دی۔ بلکہ کہا کہ ایک deal کر لو میری شکایت مت کرو میں روزانہ تمھیں اسٹیشن پر drop کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ھے۔ تم آئندہ چوری چھپے کچھ نہیں کھاؤگے اور مجھے روزانہ اسٹیشن پر drop کرو گے۔
اب میرے ذہن میں Ben کی وہ تمام باتیں آگئیں جو اس نے مجھ سے مینیجر کے خلاف کی تھیں۔ اور مجھے ریسٹورنٹ میں جاب کرنے سے منع کیا تھا۔
میں ریسٹورنٹ میں جاب کر رہا تھا لیکن میں وہاں سے کچھ کھا نہیں سکتا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والاتیل تھا۔ اس تیل میں سؤر کی چربی شامل ھوتی تھی۔ اور ہر چیز اس تیل میں تلی ھوتی تھی۔
دوسری وجہ جھٹکے کا گوشت تھا۔ یعنی ریسٹورنٹ میں استعمال ھونے والی مرغیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح نہیں کیا جاتا تھا۔
میں لنچ ٹائم میں روزانہ چاۓ اور بسکٹ پر گزارا کرتا۔ ریسٹورنٹ کا اسٹاف پوچھتا کہ میں وہاں کی چیزیں کیوں نہیں کھاتا۔ ان لوگوں کو حلال اور حرام کا فرق سمجھانا کافی مشکل تھا۔ مینیجر مجھ سے زیادہ مطمئن اس لیے بھی تھا کہ میں کم از کم چوری چھپے کچھ کھاتا نہیں ھوں گا۔ کیونکہ وہ سب کچھ میرے لیے حرام تھا۔
مینیجر نے مجھے اس دن سے اور بھی زیادہ عزت دینا شروع کی جس دن سے میں نے اس کی فنانس کے اسائنمنٹ میں مدد کرنا شروع کی۔ ایک دن میں مینیجر سے کچھ پوچھنے جب اس کے آفس میں گیا تو اس کی فنانس الجبرا کے سوالات حل کر رہی تھی۔ میں نے اس سے اس کے کورسز اور ٹاپکس کے بارے میں پوچھا۔ یہ ٹاپکس ھمارے سال اول او ر سال دوم کے ٹاپکس سے مطابقت رکھتے تھے۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ اگر کبھی مدد کی ضرورت ھو تو پوچھ لینا۔ اس کے بعد اکثر وہ مجھ سے حساب کے سوالات حل کرنے میں مدد لیتی۔ اور یوں میں kitchen hand کے ساتھ ساتھ tutoring کا کام بھی کرتا۔ اس کے عوض میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود مینیجر مجھے ice cream یا drinks لا کر دیتا۔
دوسری طرف حساب کتاب maintain کرنے میں اسسٹنٹ مینیجر بھی کبھی کبھار میری مدد لے لیتا۔ روزانہ یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ کل sale کتنے ڈالرز کی تھی۔ تمام سامان کی cost کیا تھی۔ اور یوں روزانہ کی بنیادوں پر منافع کی شرح دیکھی جاتی تھی۔
اب میری یہ job خاص دلچسپ ھو گئ تھی۔ اور مجھے کچن میں آویزاں بورڈ کو دیکھنے کی ضرورت بھی نہ ھوتی تھی۔ اب ہر کام آسان لگنے لگا۔ کچن کے کام، ٹیوشن اور ریسٹورنٹ کا حساب کتاب۔
آج گوگی کی دوسری دفعہ کال آئ۔اور اس نے پھر share accomodation کی پیشکش کی اور کہا کہ ان کو ایک اور پاکستانی لڑکے نے ساتھ رہنے کا کہا ھے۔ اس لیے میں ان کو فائنل کر دوں۔میں نے اس سے اس کے اپارٹمنٹ کا مکمل پتہ پوچھا اور ملاقات کا وقت ، دن اور جگہ کا طےکر لیا۔ ( جاری ھے )