عبد اللہ حسین کے ناولٹ ‘نشیب’ پر مبنی ڈراما سیریل کی چند ہی اقساط آن ایئر ہوئیں تھیں، کہ بوجوہ آف ایئر کر دیا گیا۔ مجھے اس ڈرامے کی فضا پسند آئی تھی۔ ہدایت کار ایوب خاور تھے۔ یہیں سے یہ نام ذہن میں بس گیا، گر چہ وہ اس سے پہلے ‘ریڈ کارڈ’، ‘دن’ اور ‘خواجہ اینڈ سن’ جیسے انتہائی مقبول ڈرامے پیش کر چکے تھے۔ لیکن میں نے انھیں ‘نشیب’ ہی میں تلاشا۔
ایوب خاور کو آپ میری نظر سے دیکھنے جا رہے ہیں، تو میں اپنا تعارف دے دوں۔ کم عمری ہی سے مجھے فلم نگری میں جانے کا شوق تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم متوسط طبقے کے نوجوانوں کی داستان ہوتی ہے، وہ پڑھتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں۔ میں گجرات سے سرامکس پڑھ کر، لاہور میں ماموں کے پاس سونے کی زنجیریں بنانے کا کام کیا کرتا تھا۔ کارخانے میں سبھی عزیز میرے جنون سے واقف تھے، اور جب کبھی موقع ملے، میرا مذاق اڑاتے۔ بڑے تھے، یہ ان کا حق تھا۔ کبھی یہ طعنہ سننے کو ملتا، کہ بیٹا یہیں تاریں کھینچتے، زنجیریں بناتے عمر گزرے گی، بھلا کہاں شوبِز، کہاں تم!۔۔ کرنا خدا کا کیا ہوا، کہ انھی میں سے ایک نے ٹیلے فلم پروڈیوس کرنے کی ٹھانی۔ میں نے ایوب خاور کا نام لیا، اور انھیں کاسٹ کرنے پی ٹی وی سینٹرز لاہور جا پہنچا۔ یہ اکتوبر، یا نومبر انیس چھیانوے کا واقعہ ہے۔
چودہ دسمبر کو ہم پوری ٹیم کے ساتھ ملکہ کوہ سار مری میں تھے۔ چوں کہ میں پروڈیوسر کا بھانجا تھا، سو زبر دستی کہیے یا کچھ بھی، ایوب خاور کا معاون مقرر ہوا۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا کام، بہت ذمہ داری کا ہوتا ہے، جب کہ میں اس معاملے میں کورے کاغذ کے مانند تھا۔ میری خواہش تھی، کہ میں ان دنوں میں سب کچھ نہیں تو زیادہ سے زیادہ سیکھ جاوں۔ مسلسل سوال کرتا، کئی بار ایوب خاور اپنے نالائق اسسٹنٹ سے زچ آ جاتے تھے۔ ایک بار میں نے پوچھا، ‘سر! فلیش بیک کا تو مجھے پتا ہے کہ کیا ہوتا ہے، یہ مونتاژ کیا ہے؟’ وہ بولے، ‘بھئی فلیش بیک تو تمھیں معلوم ہی ہے، کہ کیا ہوتا ہے؟’ میں نے سر ہلایا، ‘تو فلیش بیک تو ہوا، فلیش بیک۔۔ اور مونتاژ۔۔۔’ میری رگِ شرارت پھڑکی، ‘اور مونتاژ، ہوا مونتاژ۔۔۔’ ان کے چہرے پہ نا گواری کے تاثرات ابھرے، اور چپ کر گئے۔ میں نے من ہی من میں اپنے آپ کو بہت کوسا۔
بہ ہر حال شوٹنگ کے آخری دنوں میں شاید غصے میں آ کر۔۔۔ یقینا غصے میں آ کر، مجھے سمجھایا کہ (نالائق آدمی) شوٹنگ سیکجوئل ایسے نہیں، ایسے تیار کیا جاتا ہے۔ شاگرد بھی اس وقت ایسا حاضر تھا، کہ بعد میں اس نے سیکجوئل بنانے کی صلاحیت پہ کئی جگہوں سے داد حاصل کی۔ کوئی سال بھر بعد، ہم اسلام آباد میں ایک موقع پر اکٹھے ہوے، تو موج میں آ کر کہنے لگے، ‘وہ تم نے پوچھا تھا ناں، کہ مونتاژ کیا ہوتا ہے؟۔۔ میں ہمہ تن گوش ہوا۔ ‘تو سنو۔۔۔’ انھوں نے میری سال بھر پہلے کی حماقت کو بھلا کر، اس سوال کا جواب دیا۔ میری نگہ میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی۔
مجھے ‘بڑے’ لوگوں کے ساتھ تصویر کھینچوانے کا شوق نہیں رہا۔ اور نا ہی مجھے آٹو گراف لینا پسند ہے۔ بس ٹھیک ہے، آپ ‘بڑے لوگوں’ سے مل لیے، ان کی محفل میں بیٹھے، استفادہ کیا، یہی بہت ہے۔ زمانے کو دکھانے کے لیے فریم سجانا معیوب لگتا ہے۔ (‘بڑے’ لوگوں کے ساتھ کچھ تصویریں ہیں، تو وہ اتفاق جانیے) ‘موسم گلِ خزاں’ ایوب خاور کے پہلے شعری مجموعے کا عنوان ہے، نہایت شوق سے کتاب خریدی اور زندگی میں پہلی بار کسی سے آٹو گراف مانگا۔ انھوں نے کتاب کھولی تو پہلا ہی صفحہ پھٹا ہوا تھا۔ مجھے لوٹاتے ہوے کہا، ‘جاو پہلے مکمل کتاب لے کر آو۔’ بہت شرمندہ ہوا، کہ یہ کیسے ہو گیا، کہ میں نے پھٹا ہوا صفحہ نہ دیکھا۔ دوبارہ نہ ‘موسم گلِ خزاں’ لی، نہ آٹو گراف۔
جن سے آپ ایک آدھ بار ملے ہوں، ان پہ لکھنا نہایت آسان ہوتا ہے۔ جن سے تعلق ہو، یا تعلق رہا ہو، ان پر لکھنا یوں بھی مشکل ہو جاتا ہے، کہ جو لکھا جانا چاہیے، وہ چھپانا پڑتا ہے۔ ایوب خاور کے بارے میں یہ تاثر عام ہے، کہ انھیں اپنے ڈرامے کی ہیروئن سے محبت ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے، یہ پڑھتے ہوئے، وہ برا مانیں، لیکن ایک دو کی گواہی تو مجھی سے لے لیجیے۔ انھی دنوں جب ہم مری، اور اسلام آباد میں رِکارڈنگ کر رہے تھے، ایک خوش بدن اداکارہ سے ان کے پیار کا چرچا تھا۔ وہ شوٹنگ کے وقفوں میں سیل فون کے ذریعے لاہور میں اس سے بات کرتے رہتے۔ یہ وہ دو تھا، جب سیل فون عام نہ تھے، کال چارجز بھی منہگے ہوا کرتے تھے۔ انھی خاتون کے لیے ایوب خاور کی دیوانگی دیکھ کر، ایک معروف اداکارہ نے دل چسپ اعتراض کیا، کہ ایوب خاور صاحب کو کیا ہو گیا ہے، جو اس پہ مر مٹے ہیں۔ یہ تو اتنی کوری ہے، کہ ایوب خاور کے ایک شعر کو نہیں سمجھ سکتی۔ ان کو کیا سمجھے گی’۔
بہ ہر حال یہ اسکینڈل ان پہ کچھ بھاری پڑا، لیکن وہ اس دریا سے ڈوب کر نکل آئے۔ ہم جیسے ‘نا لائقوں’ کو ہمیشہ یہی نصیحت کی، ‘کام کے لیے، عشق کرنا بڑا ضروری ہے۔۔۔ محبت کرو، اگر کچھ بڑا کرنا ہے۔’ ہم سے نہ عشق ہوا، نہ کوئی بڑا کام۔
2004ء وہ سال تھا، جب میں کراچی میں ایک ڈرامے کی پروڈکشن سنبھالے ہوے تھا، اور ایوب خاور ‘جیو نیٹ ورک’ جوائن کرنے آئے تھے، لیکن جوائننگ سے پہلے ایک سیریل رِکارڈ کر رہے تھے۔ ہم دونوں اپنے مشترک دوست کے گھر، ایک ہی کمرے میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ ان دنوں انھیں شولڈر فریز ہونے کی شکایت رہتی۔ وہ شوگر پیشنٹ بھی ہیں، لیکن میٹھا دیکھ کر پرہیز نہیں کرتے تھے۔ رات کو باتیں کرتے، وہ کندھا پکڑ لیتے، اور میں ان کے نہ نہ کرنے کے باوجود کندھا دبانے لگتا۔ یہ کوئی احسان نہ تھا، قرض تھا، فرض تھا۔
اسی دوران ‘گل زار کلاسیک’ پہ کام کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی۔ فلم ساز، مصنف و ہدایت کار گل زار کے افسانوں کے مجموعے سے پندرہ افسانے منتخب کر کے انھیں ٹیلے ویژن پر سیریز کی صورت ڈھالنا تھا۔ ایوب خاور ہی اس کی ڈرامائی تشکیل کر رہے تھے۔ ان تحریروں کا پہلا قاری میں ہوتا۔ افسانوں پہ بحث ہوتی، اسکرین پلے پر بات ہوتی۔ افسانوں کو اسکرین پر کیسے لایا جاتا ہے، ان سے یہ سیکھنے کو ملا۔
کراچی ہی میں ہم کچھ دوست ویک اینڈ پر اکٹھے ہو کر چنیدہ فلمیں دیکھتے، انھی دنوں ‘ہاوس آف سینڈ اینڈ فوگ’ دیکھی۔ فلم اتنی پسند آئی کہ ایوب خاور کو دکھانے کا ارادہ کیا۔ میرے لیے یہ فلم ہدایت کار کی چابک دستی کا نمونہ ہے۔ ابتدا سے سست ٹیمپو لیے ہوے ہے، لیکن آخر تک آتے یہ جکڑ لیتی ہے، جتنی بار یہ فلم دیکھی، آنکھیں نم ہو گئیں۔ ایوب خاور سوفے پر لیٹے بے دلی سے فلم دیکھ رہے تھے، اور ہم دوست کن اکھیوں سے ان کو۔ ‘دیکھنے والوں کی نظر دیکھتے ہیں، والا معاملہ تھا’۔ وہ منظر کھلا، جب ایک باپ کے سامنے، اس کے کم سِن بیٹے کو گولی لگ جاتی ہے۔ ایوب خاور جھٹکے سے اٹھ بیٹھے۔ ‘ارے؟۔۔ یہ کیا ہو گیا؟’۔ مسلسل یہی تکرار کیے گئے۔ فلم ختم ہو گئی، ہم گھر جاتے ہوئے فلم کی باریکیوں پر بات کرتے رہے۔ جتنی دیر جاگے، یہی فلم ہمارا موضوع رہی۔
اشعار مجھے یاد نہیں رہتے، لیکن کچھ ایسے ہیں، جو ایک بار میں یاد ہو گئے۔ جیسے ایوب خاور کا یہ شعر۔
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا، کس سے کریں
صبح جب میری آنکھ کھلی، تو ایوب خاور بیڈ پر بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ کہنے لگے، اس نے ایسا کیوں کیا؟۔ میں نیند کی کیفیت میں تھا، دائیں بائیں دیکھا، کہ کس نے کیا کیا۔ انھوں نے اپنی بات دہرائی اور کہنے لگے، ‘اسے بچے کو گولی نہیں مارنی چاہیے تھی۔’۔ تب مجھے احساس ہوا، وہ فلم کے کرداروں میں الجھے ہوئے ہیں۔ آپ خود سوچیے، جو شخص اس حد تک کرداروں میں کھویا رہے، اسے ان سے پیار تو ہو گا ناں! پیار کرنے والا شخص معمولی کیسے ہو سکتا ہے۔